Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3611.
حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں تو آپ پر جھوٹ بولنے سے مجھ کو یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں آسمان سے گر جاؤں۔ اور جب میں تم سے وہ باتیں کروں جو میرے اور تمھارے درمیان ہوتی ہیں تو (کوئی نقصان نہیں کیونکہ)لڑائی ایک پُر فریب چال کا نام ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ’’آخر زمانہ میں کچھ نو عمر بے وقوف پیدا ہوں گے جو زبان سے بہترین خلائق کی باتیں کریں گے لیکن اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جا تا ہے اور ایمان ان کے حلق کے نیچے اترے گا۔ ایسے لوگوں سے تمھاری جہاں ملاقات ہو تو انھیں قتل کرنے کی کوشش کرنا کیونکہ قیامت کے ان اس شخص کو ثواب ملے گا جو ان کو قتل کرے گا۔‘‘
تشریح:
1۔جس طرح ایک تیر کمان سے نکلنے کے بعد شکار کو چیرتا ہواگزر جانے پر بھی بالکل صاف شفاف نظر آتا ہے۔ حالانکہ اس سے شکار زخمی ہو کر خاک و خون میں تڑپ رہا ہوتا ہے۔چونکہ اس نے نہا یت تیزی کے ساتھ اپنا فاصلہ طے کیا ہوتا ہے۔ اس لیے خون اور گوبر وغیرہ کا کوئی نشان اس کے کسی حصے پر دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح وہ لوگ بھی دین سے کوسوں دور ہوں گے اور اپنی بےدینی سے جسداسلام کو بری طرح زخمی کریں گے لیکن بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہیں آئیں گے بظاہر دینداری کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوگا اور لوگوں کو قرآن پر چلنے کی دعوت دیں گے قرآنی ایات پڑھیں گے لیکن یہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔2۔اس پیش گوئی سے خارجی مراد ہیں اور ان کے فتنہ تکفیر کی طرف اشارہ ہے۔ وہ کہتے تھے۔﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّٰهِ﴾(الأنعام:57/6)فیصلہ کرنا اللہ کا اختیار ہے لیکن اس آیت کریمہ کی آڑ میں وہ حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی تکفیر کرتے تھے۔حضرت علی ؓ ان کے جواب میں فرمایا کرتے تھے۔ کہ قرآنی آیت مبنی برحقیقت ہے مگر اسے غلط معنی پہنائے گئے ہیں جتنے بھی گمراہ فرقے ہیں وہ سب اپنی سمجھ کے مطابق قرآن سے دلیل لاتے ہیں مگر اس کی تفسیر کرتے وقت ان کی گمراہی کھل جاتی ہے۔ وہ اس کے معنی اپنی مرضی سے متعین کرتے ہیں جو سلف صالحین سے منقول نہیں ہوتے ۔ بہرحال خوارج کا دین میں داخل ہونا اور اس سے تیزی کے ساتھ نکلنا کہ انھیں کچھ حاصل نہ ہو ایسے ہے جیسے تیر شکار میں داخل ہوا پھر نکل گیا خون اور گوبر سے کوئی چیز بھی اس کے ساتھ نہ لگ سکی کیونکہ اس نے بڑی تیزی سے اپنا فاصلہ طے کیا۔ ایسا ہی یہ لوگ بڑی تیزی کے ساتھ دین سے نکل گئے ۔واللہ المستعان۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3476
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3611
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3611
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3611
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں تو آپ پر جھوٹ بولنے سے مجھ کو یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں آسمان سے گر جاؤں۔ اور جب میں تم سے وہ باتیں کروں جو میرے اور تمھارے درمیان ہوتی ہیں تو (کوئی نقصان نہیں کیونکہ)لڑائی ایک پُر فریب چال کا نام ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ’’آخر زمانہ میں کچھ نو عمر بے وقوف پیدا ہوں گے جو زبان سے بہترین خلائق کی باتیں کریں گے لیکن اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جا تا ہے اور ایمان ان کے حلق کے نیچے اترے گا۔ ایسے لوگوں سے تمھاری جہاں ملاقات ہو تو انھیں قتل کرنے کی کوشش کرنا کیونکہ قیامت کے ان اس شخص کو ثواب ملے گا جو ان کو قتل کرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔جس طرح ایک تیر کمان سے نکلنے کے بعد شکار کو چیرتا ہواگزر جانے پر بھی بالکل صاف شفاف نظر آتا ہے۔ حالانکہ اس سے شکار زخمی ہو کر خاک و خون میں تڑپ رہا ہوتا ہے۔چونکہ اس نے نہا یت تیزی کے ساتھ اپنا فاصلہ طے کیا ہوتا ہے۔ اس لیے خون اور گوبر وغیرہ کا کوئی نشان اس کے کسی حصے پر دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح وہ لوگ بھی دین سے کوسوں دور ہوں گے اور اپنی بےدینی سے جسداسلام کو بری طرح زخمی کریں گے لیکن بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہیں آئیں گے بظاہر دینداری کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوگا اور لوگوں کو قرآن پر چلنے کی دعوت دیں گے قرآنی ایات پڑھیں گے لیکن یہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔2۔اس پیش گوئی سے خارجی مراد ہیں اور ان کے فتنہ تکفیر کی طرف اشارہ ہے۔ وہ کہتے تھے۔﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّٰهِ﴾(الأنعام:57/6)فیصلہ کرنا اللہ کا اختیار ہے لیکن اس آیت کریمہ کی آڑ میں وہ حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی تکفیر کرتے تھے۔حضرت علی ؓ ان کے جواب میں فرمایا کرتے تھے۔ کہ قرآنی آیت مبنی برحقیقت ہے مگر اسے غلط معنی پہنائے گئے ہیں جتنے بھی گمراہ فرقے ہیں وہ سب اپنی سمجھ کے مطابق قرآن سے دلیل لاتے ہیں مگر اس کی تفسیر کرتے وقت ان کی گمراہی کھل جاتی ہے۔ وہ اس کے معنی اپنی مرضی سے متعین کرتے ہیں جو سلف صالحین سے منقول نہیں ہوتے ۔ بہرحال خوارج کا دین میں داخل ہونا اور اس سے تیزی کے ساتھ نکلنا کہ انھیں کچھ حاصل نہ ہو ایسے ہے جیسے تیر شکار میں داخل ہوا پھر نکل گیا خون اور گوبر سے کوئی چیز بھی اس کے ساتھ نہ لگ سکی کیونکہ اس نے بڑی تیزی سے اپنا فاصلہ طے کیا۔ ایسا ہی یہ لوگ بڑی تیزی کے ساتھ دین سے نکل گئے ۔واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان نے خبردی انہیں اعمش نے ، انہیں خیثمہ نے ، ان سے سوید بن غفلہ نے بیان کیا کہ حضرت علی ؓ نے کہا ، جب تم سے کوئی بات رسول اللہ ﷺ کے حوالہ سے میں بیان کروں تو یہ سمجھو کہ میرے لیے آسمان سے گرجانا اس سے بہتر ہے کہ میں آنحضرت ﷺ پر کوئی جھوٹ باندھوں البتہ جب میں اپنی طرف سے کوئی بات تم سے کہوں تو لڑائی توتدبیرا ور فریب ہی کانام ہے ( اس میں کوئی بات بنا کر کہوں تو ممکن ہے ) دیکھو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے کہ آخر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے پیداہوں گے جو چھوٹے چھوٹے دانتوں والے ، کم عقل اور بے وقوف ہوں گے ۔ باتیں وہ کہیں گے جو دنیا کی بہترین بات ہوگی ۔ لیکن اسلام سے اس طرح صاف نکل چکے ہوں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے ۔ ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، تم انہیں جہاں بھی پاو قتل کردو ، کیونکہ ان کےقتل سے قاتل کو قیامت کے دن ثواب ملے گا ۔
حدیث حاشیہ:
کہیں گے قرآن پرچلو، قرآن کی آیتیں پڑھیں گے، ان کا معنی غلط کریں گے، ان سے خارجی مردود مراد ہیں۔ یہ لوگ جب نکلے تو حضرت علی ؓ سے کہتے تھے کہ قرآن پر چلو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّٰهِ﴾(الأنعام:57/6) تم نے آدمیوں کو کیسے حکم مقرر کیا ہے اور اس بنا پر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ہردو کی تکفیر کرتے تھے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : ''کلمة حق أرید بھا الباطل'' یعنی آیت قرآن تو برحق ہے مگر جو مطلب انہوں نے سمجھا ہے وہ غلط ہے۔ جتنے گمراہ فرقے ہیں وہ سب اپنی دانست میں قرآن سے دلیل لاتے ہیں مگر ان کی گمراہی اس سے کھل جاتی ہے کہ قرآن کی تفسیر اس طرح نہیں کرتے جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے ماثور ہے جن پر قرآن اترا تھا اور جو اہل زبان تھے۔ یہ کل کے لونڈے قرآن سمجھ گئے اور صحابہ اور تابعین اور خود پیغمبر صاحب جن پر قرآن اترا تھا انہوں نے نہیں سمجھا، یہ بھی کوئی بات ہے۔ آج کل کے اہل بدعت کا بھی یہی حال ہے جو آیات قرآنی سے اپنے عقائد باطلہ کے اثبات کے لیے دلائل پیش کرکے آیات قرآنی کے معانی ومطالب مسخ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA): I relate the traditions of Allah's Apostle (ﷺ) to you for I would rather fall from the sky than attribute something to him falsely. But when I tell you a thing which is between you and me, then no doubt, war is guile. I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "In the last days of this world there will appear some young foolish people who will use (in their claim) the best speech of all people (i.e. the Qur'an) and they will abandon Islam as an arrow going through the game. Their belief will not go beyond their throats (i.e. they will have practically no belief), so wherever you meet them, kill them, for he who kills them shall get a reward on the Day of Resurrection."