باب: نبی کریم ﷺ کا حکم فرمانا کہ ابوبکرؓکے دروازے کو چھوڑ کر (مسجد نبوی کی طرف کے) تمام دروازے بند کر دئیے جائیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "Close the gates (in the Mosque), except the gate of Abu Bakr.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عباس ؓنے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے
3654.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور جواللہ کے پاس ہے ان میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ یہ سن کرحضرت ابوبکر ؓ رونے لگے۔ ہم نے ان کے رونے پر تعجب کیا کہ رسول اللہ ﷺ توایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا ہے!بعدمیں پتہ چلا کہ جنھیں اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تھی۔ واقعی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی رفاقت اور اپنے مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسانات ابو بکر کے ہیں۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا لیکن ان سے اسلامی اخوت اور دینی محبت ہے۔ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں مگر ابوبکر ؓ کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔‘‘
تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ مجھ پر کسی نے احسان نہیں کیا،انھوں نے اپنی جان نچھاور کی ،اپنا مال قربان کیا اور اپنی لخت جگر اور نورنظر میرےنکاح میں دی۔‘‘(المعجم الکبیر للطبراني:191/11) 2۔واضح رہے کہ حدیث میں دروازے سے مراد ابوبکرصدیق ؓ کی کھڑکی ہے،جومسجد کی طرف کھلتی تھی اور اسے کھلا رہنے دیا گیا۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو ایک ممتاز مقام عطا فرمایا۔آج بھی مسجد نبوی میں یہ تاریخی مقام دیکھا جاسکتا ہے جہاں (خوخة أبي بكر) لکھا ہوا ہے۔ 3۔ایک حدیث میں ہے:رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردینے کا حکم دیا لیکن حضرت علی ؓ کا دروازہ اپنے حال پر رہنے دیا۔ (مسند الإمام أحمد:175/1) یہ حدیث مذکورہ روایت کے منافی نہیں کیونکہ حضر ت علی ؓ کے دروازے سے مراد حقیقی دروازہ ہے اور حضرت ابوبکر ؓ کے دروازے سے مراد کھڑکی ہے جو مسجد کی طرف کھلتی تھی۔ دراصل مسجد کے پاس رہنے والے لوگوں نے اپنی سہولت کے پیش نظر اپنے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھول لیے تھے جو بعد میں بند کردینے کا حکم دیا،صرف حضرت علی کا د روازہ کھلا رہنے دیا گیا کیونکہ ان کا دروازہ باہر نہیں کھلتا تھا۔اس کے بعد لوگوں نے چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں مسجد کی طرف کھول لیں تو دوسری مرتبہ حکم امتناعی جاری ہوا کہ ان تمام کھڑکیوں کو بند کردیا جائے۔البتہ ابوبکر ؓ کی کھڑکی کھلی رہے۔4۔محدثین نے لکھا ہے کہ اس اقدام سے حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف نمایاں اشارہ تھا تاکہ انھیں خلافتی امور نمٹانے میں سہولت رہے۔ (فتح الباري:20/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3516
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3654
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3654
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3654
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رویت کو خود ہی حدیث نمبر۔367 کے تحت متصل سند سے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:"مسجد کی طرف کھلنے والی تمام کھڑکیاں بند کردو،البتہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کھڑکی کھلی رکھو۔"گویا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے عنوان میں روایت بالمعنی کے طور پر ذکر کیا ہے۔( فتح الباری 16/7۔)
یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عباس ؓنے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور جواللہ کے پاس ہے ان میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ یہ سن کرحضرت ابوبکر ؓ رونے لگے۔ ہم نے ان کے رونے پر تعجب کیا کہ رسول اللہ ﷺ توایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا ہے!بعدمیں پتہ چلا کہ جنھیں اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تھی۔ واقعی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی رفاقت اور اپنے مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسانات ابو بکر کے ہیں۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا لیکن ان سے اسلامی اخوت اور دینی محبت ہے۔ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں مگر ابوبکر ؓ کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ مجھ پر کسی نے احسان نہیں کیا،انھوں نے اپنی جان نچھاور کی ،اپنا مال قربان کیا اور اپنی لخت جگر اور نورنظر میرےنکاح میں دی۔‘‘(المعجم الکبیر للطبراني:191/11) 2۔واضح رہے کہ حدیث میں دروازے سے مراد ابوبکرصدیق ؓ کی کھڑکی ہے،جومسجد کی طرف کھلتی تھی اور اسے کھلا رہنے دیا گیا۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو ایک ممتاز مقام عطا فرمایا۔آج بھی مسجد نبوی میں یہ تاریخی مقام دیکھا جاسکتا ہے جہاں (خوخة أبي بكر) لکھا ہوا ہے۔ 3۔ایک حدیث میں ہے:رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردینے کا حکم دیا لیکن حضرت علی ؓ کا دروازہ اپنے حال پر رہنے دیا۔ (مسند الإمام أحمد:175/1) یہ حدیث مذکورہ روایت کے منافی نہیں کیونکہ حضر ت علی ؓ کے دروازے سے مراد حقیقی دروازہ ہے اور حضرت ابوبکر ؓ کے دروازے سے مراد کھڑکی ہے جو مسجد کی طرف کھلتی تھی۔ دراصل مسجد کے پاس رہنے والے لوگوں نے اپنی سہولت کے پیش نظر اپنے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھول لیے تھے جو بعد میں بند کردینے کا حکم دیا،صرف حضرت علی کا د روازہ کھلا رہنے دیا گیا کیونکہ ان کا دروازہ باہر نہیں کھلتا تھا۔اس کے بعد لوگوں نے چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں مسجد کی طرف کھول لیں تو دوسری مرتبہ حکم امتناعی جاری ہوا کہ ان تمام کھڑکیوں کو بند کردیا جائے۔البتہ ابوبکر ؓ کی کھڑکی کھلی رہے۔4۔محدثین نے لکھا ہے کہ اس اقدام سے حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف نمایاں اشارہ تھا تاکہ انھیں خلافتی امور نمٹانے میں سہولت رہے۔ (فتح الباري:20/7)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ نے اس حدیث کو نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعامر نے بیان کیا ، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے سالم ابوالنضر نے بیان کیا ، ان سے بسربن سعید نے اوران سے حضرت ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کودنیا میں اور جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے ان دونوں میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے اختیار کرلیا جو اللہ کے پاس تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر ابوبکر ؓ رونے لگے ۔ ابوسعید کہتے ہیں کہ ہم کو ان کے رونے پر حیرت ہوئی کہ آنحضرت ﷺ تو کسی بندے کے متعلق خبردے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا تھا ، لیکن بات یہ تھی کہ خود آنحضرت ﷺ ہی وہ بندے تھے جنہیں اختیار دیا گیا تھا اور ( واقعتا ) حضرت ابوبکر ؓ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر ابوبکر کا سب سے زیادہ احسان ہے اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو جانی دوست بناسکتاتو ابوبکر کو بناتا ۔ لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور اسلام کی محبت ان سے کافی ہے ۔ دیکھو مسجد کی طرف تمام دروازے ( جو صحابہ کے گھروں کی طرف کھلتے تھے ) سب بند کردیئے جائیں ۔ صرف ابوبکر ؓ کا دروازہ رہنے دیاجائے ۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو ایک ممتاز مقام عطا فرمایا اور آج تک مسجد نبوی میں یہ تاریخی جگہ محفوظ رکھی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): Allah's Apostle (ﷺ) addressed the people saying, "Allah has given option to a slave to choose this world or what is with Him. The slave has chosen what is with Allah." Abu Bakr (RA) wept, and we were astonished at his weeping caused by what the Prophet (ﷺ) mentioned as to a Slave ( of Allah) who had been offered a choice, (we learned later on) that Allah's Apostle (ﷺ) himself was the person who was given the choice, and that Abu Bakr (RA) knew best of all of us. Allah's Apostle (ﷺ) added, "The person who has favored me most of all both with his company and wealth, is Abu Bakr. If I were to take a Khalil other than my Lord, I would have taken Abu Bakr (RA) as such, but (what relates us) is the Islamic brotherhood and friendliness. All the gates of the Mosque should be closed except the gate of Abu Bakr."