باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکرؓکو بناتا
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "If I were to take Khalil ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
3663.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ایک دفعہ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا کہ ایک بھیڑیے نے اس پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک بکری اٹھا کرلے بھاگا تو گڈریا اسے چھڑانے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا۔ اس دوران میں بھیڑئے نے اس کی طرف متوجہ ہوکرکہا: درندوں والے دن ان کا کون محافظ ہوگا، جس دن میرے علاوہ انھیں کوئی نہیں چرائے گا؟ اسی طرح ایک آدمی بیل کو ہانک کرلے جارہا تھا۔ پھر وہ اس پرسوار ہوگیا تو بیل اس کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگا: میں تواس کام کے لیے نہیں پیدا ہوا مجھے تو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیاگیا ہے۔‘‘ لوگوں نے سبحان اللہ کہہ کراپنے تعجب کا اظہار کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس کی تصدیق کرتا ہوں، نیز حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی اس پر یقین رکھتے ہیں‘‘
تشریح:
1۔ ایک روایت میں صراحت ہے کہ اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزار عة، حدیث:2324) رسول اللہ ﷺ نے یہ بات حضرات شیخین کے ایمان اور قوت یقین پر اعتماد کرتے ہوئے فرمائی 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو واقعات بنی اسرائیل میں بھی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ واقعہ قبل از اسلام کا ہے بنی اسرائیل میں پیش آیا تھا لیکن اس طرح کا ایک واقعہ اہبان بن اوس کو بھی پیش آیا وہ بیان کرتے ہیں وہ اپنی بکریاں چرارہے تھے بھیڑیے نے حملہ کر کے ایک بکری کو اٹھا لیا ۔ جب میں نے اس کا پیچھا کیا تو اس نے متوجہ ہو کر کہا: جب انھیں آوارا چھوڑ دیا جائے گا تو اس وقت ان کا نگران کون ہوگا؟ تو مجھ سے وہ رزق چھیننا چاہتا ہے جو اللہ نے مجھے دیا ہے میں نے اظہار تعجب کیا تو اس نے کہا :یہ بات اس سے بڑھ کت تعجب خیز ہے یہاں کھجوروں کے جھنڈ میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جو لوگوں کو اللہ کی دعوت دیتا ہے اور لوگ اس سے اعراض کرتے یں اس کے بعد اہبان رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے یہ واقعہ سنایا اور مسلمان ہو گئے۔ ممکن ہے کہ واقعے کی اطلاع کے وقت حضرات شیخین وہاں موجود ہوں لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے دوسروں کو خبر دی تو اس وقت موجود نہ ہوں لیکن یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ اطلاع اور خبردونوں اوقات میں شیخین وہاں موجود نہ تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کے یقین اور قوت ایمان پر اعتماد کرتے ہوئے یہ شہادت دی۔ (فتح الباري:35/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3526
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3663
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3663
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3663
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت پیچھے حدیث نمبر:3654 کے تحت گزری ہے۔
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ایک دفعہ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا کہ ایک بھیڑیے نے اس پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک بکری اٹھا کرلے بھاگا تو گڈریا اسے چھڑانے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا۔ اس دوران میں بھیڑئے نے اس کی طرف متوجہ ہوکرکہا: درندوں والے دن ان کا کون محافظ ہوگا، جس دن میرے علاوہ انھیں کوئی نہیں چرائے گا؟ اسی طرح ایک آدمی بیل کو ہانک کرلے جارہا تھا۔ پھر وہ اس پرسوار ہوگیا تو بیل اس کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگا: میں تواس کام کے لیے نہیں پیدا ہوا مجھے تو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیاگیا ہے۔‘‘ لوگوں نے سبحان اللہ کہہ کراپنے تعجب کا اظہار کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس کی تصدیق کرتا ہوں، نیز حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی اس پر یقین رکھتے ہیں‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک روایت میں صراحت ہے کہ اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزار عة، حدیث:2324) رسول اللہ ﷺ نے یہ بات حضرات شیخین کے ایمان اور قوت یقین پر اعتماد کرتے ہوئے فرمائی 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو واقعات بنی اسرائیل میں بھی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ واقعہ قبل از اسلام کا ہے بنی اسرائیل میں پیش آیا تھا لیکن اس طرح کا ایک واقعہ اہبان بن اوس کو بھی پیش آیا وہ بیان کرتے ہیں وہ اپنی بکریاں چرارہے تھے بھیڑیے نے حملہ کر کے ایک بکری کو اٹھا لیا ۔ جب میں نے اس کا پیچھا کیا تو اس نے متوجہ ہو کر کہا: جب انھیں آوارا چھوڑ دیا جائے گا تو اس وقت ان کا نگران کون ہوگا؟ تو مجھ سے وہ رزق چھیننا چاہتا ہے جو اللہ نے مجھے دیا ہے میں نے اظہار تعجب کیا تو اس نے کہا :یہ بات اس سے بڑھ کت تعجب خیز ہے یہاں کھجوروں کے جھنڈ میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جو لوگوں کو اللہ کی دعوت دیتا ہے اور لوگ اس سے اعراض کرتے یں اس کے بعد اہبان رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے یہ واقعہ سنایا اور مسلمان ہو گئے۔ ممکن ہے کہ واقعے کی اطلاع کے وقت حضرات شیخین وہاں موجود ہوں لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے دوسروں کو خبر دی تو اس وقت موجود نہ ہوں لیکن یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ اطلاع اور خبردونوں اوقات میں شیخین وہاں موجود نہ تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کے یقین اور قوت ایمان پر اعتماد کرتے ہوئے یہ شہادت دی۔ (فتح الباري:35/7)
ترجمۃ الباب:
ان الفاظ کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے ذکر کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبردی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبردی اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ۔ آپ نے فرمایا کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں چرارہا تھا کہ بھیڑیا آگیا اور ریوڑ سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا ۔ چرواہے نے اس سے بکری چھڑانی چاہی تو بھیڑیا بول پڑا ۔ درندوں والے دن میں اس کی رکھوالی کرنے والا کون ہوگا جس دن میرے سوا اور کوئی چرواہا نہ ہوگا ۔ اسی طرح ایک شخص بیل کو اس پر سوار ہوکر لیے جارہا تھا ، بیل اس کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا کہ میری پیدائش اس کے لیے نہیں ہوئی ہے ۔ میں تو کھیتی باڑی کے کاموں کے لیے پیدا کیا گیا ہوں ۔ وہ شخص بول پڑا ۔ سبحان اللہ ! (جانور اور انسانوں کی طرح باتیں کرے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں ان واقعات پر ایمان لاتاہوں اور ابوبکر اور عمر بن خطاب ؓ بھی ۔
حدیث حاشیہ:
درندوں کے دن سے قیامت کا دن مراد ہے جب کہ خود گڈرئےے اپنی بکریوں کی رکھوالی چھوڑدیں گے سب کو اپنے نفس کی فکر لگ جائے گی، یہ حدیث اوپر گزرچکی ہے اس میں اتنا زیادہ تھا کہ ابوبکر اور عمر وہاں موجود نہ تھے۔ حضرت امام بخاری ؒنے اس حدیث سے حضرت ابوبکر ؓ کی فضیلت نکالی۔ آپ نے اپنے بعد ان کانام لیا، آپ کو ان پر پورا بھروسا تھا اور آپ جانتے تھے کہ وہ دونوں اتنے راسخ العقیدہ ہیں کہ میری بات کووہ کبھی رد نہیں کرسکتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "While a shepherd was amongst his sheep, a wolf attacked them and took away one sheep. When the shepherd chased the wolf, the wolf turned towards him and said, 'Who will be its guard on the day of wild animals when nobody except I will be its shepherd. And while a man was driving a cow with a load on it, it turned towards him and spoke to him saying, 'I have not been created for this purpose, but for ploughing." The people said, "Glorified be Allah." The Prophet (ﷺ) said, "But I believe in it and so does Abu Bakr (RA) end 'Umar."