باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکرؓکو بناتا
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "If I were to take Khalil ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
3672.
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات جیش پر پہنچے تومیرا ہار گم ہوگیا۔ اس کی تلاش کے لیے رسول اللہ ﷺ وہاں ٹھہرے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ رُک گئے جبکہ وہاں کوئی پانی(کا چشمہ) نہیں تھا اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے پاس پانی تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آکرکہنے لگے: آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہ ؓ نے کیا کام کردکھایاہے؟انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیگر لوگوں سمیت ٹھہرا رکھا ہے۔ یہاں نہ پانی کاچشمہ ہے۔ اور نہ خود ان کے پاس پانی ہے۔ حضرت ابو بکر تشریف لائے جبکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر مبارک رکھے نبیذ فرمارہے تھے۔ انھوں نے آتے ہی فرمایا: تم نے خوامخواہ ہی رسول اللہ ﷺ اور دوسرے لوگوں کو روک رکھاہے جبکہ نہ تو وہ کسی چشمے پر ہیں۔ اور نہ خود ان کے پاس پانی ہے؟انھوں نے مجھے خوب ڈانٹا اور جو کچھ اللہ نے چاہا انہوں نے مجھے سرزنش کرتے ہوئے کہا۔ پھر اپنے ہاتھ سے میری کمر میں کچوکا لگایا اورمیں حرکت نہ کرسکتی تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر سر رکھ کر محو استراحت تھے۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ صبح تک سوئے رہے۔ اٹھے تو پانی نہیں تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت تمیم نازل فرمائی۔ پھر سب لوگوں نے تمیم کرکے نماز پڑھی۔ حضرت اسید بن حضیر ؓنے کہا: اے خاندان ابوبکر ! یہ تمہاری کوئی پہلی ہی برکت نہیں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جس اونٹ پر میں سوار تھی، جب ہم نے اسے اٹھایا توا سکےنیچے سے ہار مل گیا۔
تشریح:
1۔ایک روایت کے مطابق حضرت اسید بن حضیر ؓ نے فرمایا:عائشہ ؓ !اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے،جب بھی آپ کسی مصیبت میں مبتلا ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نجات دی اور باقی مسلمانوں کو اپنی خیروبرکت سے نوازا۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3773) 2۔محولہ روایت میں کہ گم ہونے والا ہار آپ کی ہمشیر حضرت اسماء ؓ کا تھا،اس بناپر حضرت عائشہ ؓ اور بھی فکر مند ہوئیں۔3۔اس حدیث سے حضرت ابوبکر ؓ اورآپ کے خاندان کی فضیلت ثابت ہوئی کہ آپ کی اولاد کی وجہ سے بھی مسلمانوں کو ہمیشہ فوائدوبرکات ہی ملتے رہے ہیں۔واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3533
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3672
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3672
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3672
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت پیچھے حدیث نمبر:3654 کے تحت گزری ہے۔
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات جیش پر پہنچے تومیرا ہار گم ہوگیا۔ اس کی تلاش کے لیے رسول اللہ ﷺ وہاں ٹھہرے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ رُک گئے جبکہ وہاں کوئی پانی(کا چشمہ) نہیں تھا اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے پاس پانی تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آکرکہنے لگے: آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہ ؓ نے کیا کام کردکھایاہے؟انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیگر لوگوں سمیت ٹھہرا رکھا ہے۔ یہاں نہ پانی کاچشمہ ہے۔ اور نہ خود ان کے پاس پانی ہے۔ حضرت ابو بکر تشریف لائے جبکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر مبارک رکھے نبیذ فرمارہے تھے۔ انھوں نے آتے ہی فرمایا: تم نے خوامخواہ ہی رسول اللہ ﷺ اور دوسرے لوگوں کو روک رکھاہے جبکہ نہ تو وہ کسی چشمے پر ہیں۔ اور نہ خود ان کے پاس پانی ہے؟انھوں نے مجھے خوب ڈانٹا اور جو کچھ اللہ نے چاہا انہوں نے مجھے سرزنش کرتے ہوئے کہا۔ پھر اپنے ہاتھ سے میری کمر میں کچوکا لگایا اورمیں حرکت نہ کرسکتی تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر سر رکھ کر محو استراحت تھے۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ صبح تک سوئے رہے۔ اٹھے تو پانی نہیں تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت تمیم نازل فرمائی۔ پھر سب لوگوں نے تمیم کرکے نماز پڑھی۔ حضرت اسید بن حضیر ؓنے کہا: اے خاندان ابوبکر ! یہ تمہاری کوئی پہلی ہی برکت نہیں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جس اونٹ پر میں سوار تھی، جب ہم نے اسے اٹھایا توا سکےنیچے سے ہار مل گیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت کے مطابق حضرت اسید بن حضیر ؓ نے فرمایا:عائشہ ؓ !اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے،جب بھی آپ کسی مصیبت میں مبتلا ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نجات دی اور باقی مسلمانوں کو اپنی خیروبرکت سے نوازا۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3773) 2۔محولہ روایت میں کہ گم ہونے والا ہار آپ کی ہمشیر حضرت اسماء ؓ کا تھا،اس بناپر حضرت عائشہ ؓ اور بھی فکر مند ہوئیں۔3۔اس حدیث سے حضرت ابوبکر ؓ اورآپ کے خاندان کی فضیلت ثابت ہوئی کہ آپ کی اولاد کی وجہ سے بھی مسلمانوں کو ہمیشہ فوائدوبرکات ہی ملتے رہے ہیں۔واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ان الفاظ کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے ذکر کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، ان سے مالک نے ، ان سے عبدالرحمن بن قاسم نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے جب ہم مقام بیداءیا مقام ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار ٹوٹ کر گرگیا ، اس لیے حضور اکرم ﷺ اس کی تلاش کے لیے وہاں ٹھہر گئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ ٹھہرے لیکن نہ اس جگہ پانی تھا اور نہ ان کے ساتھ پانی تھا ۔ لوگ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آکر کہنے لگے کہ آپ ملاحظہ نہیں فرماتے ، عائشہ ؓ نے کیا کیا ، حضور اکرم ﷺ کو یہیں روک لیا ہے ۔ اتنے صحابہ آپ کے ساتھ ہیں ۔ نہ تو یہاں پانی ہے اور نہ لوگ اپنے ساتھ ( پانی ) لیے ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ اندر آئے ۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سورہے تھے ۔ وہ کہنے لگے ، تمہاری وجہ سے آنحضرت ﷺ کو اور سب لوگوں کو رکنا پڑا ۔ اب نہ یہاں کہیں پانی ہے اور نہ لوگوں کے ساتھ پانی ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے مجھ پر غصہ کیا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا انہوں نے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے ۔ میں ضرور تڑپ اٹھتی مگر آنحضرت ﷺ کا سر مبارک میری ران پر تھا ۔ آنحضرت ﷺ سوتے رہے ۔ جب صبح ہوئی تو پانی نہیں تھا اور اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا اور سب نے تیمم کیا ۔ اس پر اسید بن حضیر ؓ نے کہا کہ اے آل ابوبکر ! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جب اس اونٹ کو اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے ہمیں ملا ۔
حدیث حاشیہ:
گم ہونے والا ہار حضرت اسماء ؓ کا تھا، اس لیے حضرت عائشہ ؓ کو اور بھی زیادہ فکر ہوا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے ملا دیا۔ حضرت اسید بن حضیر ؓ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کی اولاد کی وجہ سے مسلمانوں کو ہمیشہ فوائد وبرکات ملتے رہے ہیں۔ یہ حدیث کتاب التیمم میں بھی مذکور ہوچکی ہے۔ یہاں پر اس کے لانے سے یہ غرض ہے کہ اس حدیث سے حضرت ابوبکر ؓ کے خاندان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اسید نے کہا: ماھي بأول برکتکم یا آل أبي بکر۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): We went out with Allah's Apostle (ﷺ) on one of his journeys till we reached Al-Baida or Dhatul-Jaish where my necklace got broken (and lost). Allah's Apostle (ﷺ) stopped to search for it and the people too stopped with him. There was no water at that place and they had no water with them. So they went to Abu Bakr (RA) and said, "Don't you see what 'Aisha (RA) has done? She has made Allah's Apostle (ﷺ) and the people stop where there is no water and they have no water with them. Abu Bakr (RA) came while Allah's Apostle (ﷺ) was sleeping with his head on my thigh and said, "You detained Allah Apostle (ﷺ) and the people where there is no water and they have no water." He then admonished me and said what Allah wished and pinched me at my flanks with his hands, but I did not move because the head of Allah's Apostle (ﷺ) was on my thigh . Allah's Apostle (ﷺ) kept on sleeping till be got up in the morning and found no water. Then Allah revealed the Divine Verse of Tayammum, and the people performed Tayammum. Usaid bin AlHudair said. "O family of Abu Bakr! This is not the first blessings of yours." We urged the camel on which I was sitting to get up from its place and the necklace was found under it.