Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of Ja'far bin Abi Talib رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایاتھا کہ تم صورت اور سیرت میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہو ۔ حضرت جعفر ؓ علیؓ سے دس سال بڑے تھے، ان کا لقب ذوالجناحین ہے۔ اسلام قبول کرتے ہوئے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے بائیں جانب کھڑے ہوکر نماز ادا کی تھی۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جیسے تم نے میرے ساتھ مل کر نماز پڑھی ہے اللہ پاک تم کو جنت میں دوبازو عطا فرمائے گا اور تم جنت میں اڑتے پھروگے۔ بعمر 41سال جنگ موتہ 8 ھ میں جام شہادت نوش فرمایا، ان کی چھاتی میں تلواروں اور نیزوں کے نوے زخم پائے گئے تھے۔ ( ؓ)
3708.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت احادیث بیان کرتا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ میں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ہر وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہتا تھا، نہ تو میں خمیری روٹی کھاتا اور نہ عمدہ لباس ہی پہنتا، نہ میری خدمت کے لیے فلاں مرد اور فلاں عورت ہی تھی۔ میں بھوک کی شدت کیوجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیاکرتا۔ بعض اوقات میں کسی سے کوئی آیت پوچھتا، حالانکہ وہ آیت مجھے یاد ہوتی تھی۔ میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ مجھے گھر لے جا کر کھانا کھلادے۔ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ مساکین کے حق میں تمام لوگوں سے زیادہ بہتر تھے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے اور جو کچھ گھر میں میسر ہوتا وہ ہمیں کھلاتے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا کہ وہ شہد یا گھی کی کپی ہی لے آتے جس میں کچھ نہ ہوتا وہ اسے پھاڑ دیتے اور اس میں جو کچھ ہوتا ہم اسے چاٹ لیتے تھے۔
تشریح:
1۔حضرت ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہروقت حاضر رہتے اور کھانے کو جو میسر آتا اسی پر اکتفا کرتے ،احادیث نبویہ کی سماعت اور حفاظت میں مصروف رہتے۔2۔اس حدیث میں حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کی فضیلت کا بیان ہے کہ وہ مساکین سے بہت محبت کرتے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کی کنیت ابوالمساکین رکھی تھی کیونکہ مساکین کے ساتھ اکثر بیٹھا کرتے تھے اور ان کی خدمت میں مصروف رہتے تھے۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ جب کسی آیت کے متعلق پوچھتے توحضرت جعفر بن ابی طالب انھیں اپنے گھر لے جاتے اور اپنی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس ؓ سے کہتے:ہمیں کوئی چیزکھلاؤ،جب ہم کھانا کھالیتے تو وہ مجھے آیت کا مفہوم سمجھاتے۔( جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3766) بہرحال حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ غرباء اور مساکین کے بہت قدردان تھے اور ان کی خیر خواہی کرنےمیں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3569
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3708
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3708
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3708
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقیقی بھائی اور ان سے دس سال بڑے تھے۔قدیم الاسلام ہیں۔پہلے انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔نجاشی کے دربار میں اسلام کی حقانیت کے متعلق بڑی پراثر اوردلنشین تقریر کی جس سے نجاشی بہت متاثر ہوا۔آپ بہت زیادہ سخی تھے ۔غزوہ موتہ میں کفار سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔8ہجری میں اکتالیس سال کے تھے۔جب شہید ہوئے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے مناقب میں دوحدیثوں کا انتخاب کیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی معلق روایت صحیح بخاری ہی سے متصل سند سے مروی ہے۔( صحیح البخاری الصلح حدیث 2699۔)
اور رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایاتھا کہ تم صورت اور سیرت میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہو ۔ حضرت جعفر ؓ علیؓ سے دس سال بڑے تھے، ان کا لقب ذوالجناحین ہے۔ اسلام قبول کرتے ہوئے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے بائیں جانب کھڑے ہوکر نماز ادا کی تھی۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جیسے تم نے میرے ساتھ مل کر نماز پڑھی ہے اللہ پاک تم کو جنت میں دوبازو عطا فرمائے گا اور تم جنت میں اڑتے پھروگے۔ بعمر 41سال جنگ موتہ 8 ھ میں جام شہادت نوش فرمایا، ان کی چھاتی میں تلواروں اور نیزوں کے نوے زخم پائے گئے تھے۔ ( ؓ)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت احادیث بیان کرتا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ میں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ہر وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہتا تھا، نہ تو میں خمیری روٹی کھاتا اور نہ عمدہ لباس ہی پہنتا، نہ میری خدمت کے لیے فلاں مرد اور فلاں عورت ہی تھی۔ میں بھوک کی شدت کیوجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیاکرتا۔ بعض اوقات میں کسی سے کوئی آیت پوچھتا، حالانکہ وہ آیت مجھے یاد ہوتی تھی۔ میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ مجھے گھر لے جا کر کھانا کھلادے۔ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ مساکین کے حق میں تمام لوگوں سے زیادہ بہتر تھے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے اور جو کچھ گھر میں میسر ہوتا وہ ہمیں کھلاتے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا کہ وہ شہد یا گھی کی کپی ہی لے آتے جس میں کچھ نہ ہوتا وہ اسے پھاڑ دیتے اور اس میں جو کچھ ہوتا ہم اسے چاٹ لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہروقت حاضر رہتے اور کھانے کو جو میسر آتا اسی پر اکتفا کرتے ،احادیث نبویہ کی سماعت اور حفاظت میں مصروف رہتے۔2۔اس حدیث میں حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کی فضیلت کا بیان ہے کہ وہ مساکین سے بہت محبت کرتے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کی کنیت ابوالمساکین رکھی تھی کیونکہ مساکین کے ساتھ اکثر بیٹھا کرتے تھے اور ان کی خدمت میں مصروف رہتے تھے۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ جب کسی آیت کے متعلق پوچھتے توحضرت جعفر بن ابی طالب انھیں اپنے گھر لے جاتے اور اپنی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس ؓ سے کہتے:ہمیں کوئی چیزکھلاؤ،جب ہم کھانا کھالیتے تو وہ مجھے آیت کا مفہوم سمجھاتے۔( جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3766) بہرحال حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ غرباء اور مساکین کے بہت قدردان تھے اور ان کی خیر خواہی کرنےمیں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: " تم صورت وسیرت میں میرے مشابہ ہو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن ابی بکر نے بیان کیا ، کہاہم سے محمد بن ابراہیم بن دینار ابوعبداللہ جہنی نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی ذئب نے ، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریر ہ ؓ بہت احادیث بیان کرتاہے ، حالانکہ پیٹ بھرنے کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہروقت رہتاتھا ، میں خمیری روٹی نہ کھاتا اور نہ عمدہ لباس پہنتا تھا ( یعنی میرا وقت علم کے سواکسی دوسری چیز کے حاصل کرنے میں نہ جاتا ) اور نہ میری خدمت کے لیے کوئی فلاں یافلانی تھی بلکہ میں بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ سے پتھر باندھ لیا کرتا ۔ بعض وقت میں کسی کو کوئی آیت اس لیے پڑھ کر اس کا مطلب پوچھتا تھا کہ وہ اپنے گھر لے جاکر مجھے کھانا کھلادے ، حالانکہ مجھے اس آیت کا مطلب معلوم ہوتا تھا ، مسکینوں کے ساتھ سب سے بہتر سلوک کرنے والے حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ تھے ، ہمیں اپنے گھر لے جاتے اور جو کچھ بھی گھر میں موجود ہوتا وہ ہم کو کھلاتے ۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا کہ صرف شہد یا گھی کی کپی ہی نکال کر لاتے اور اسے ہم پھاڑ کر اس میں جوکچھ ہوتا اسے ہی چاٹ لیتے ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The people used to say, " Abu Hurairah (RA) narrates too many narrations." In fact I used to keep close to Allah's Apostle (ﷺ) and was satisfied with what filled my stomach. I ate no leavened bread and dressed no decorated striped clothes, and never did a man or a woman serve me, and I often used to press my belly against gravel because of hunger, and I used to ask a man to recite a Qur'anic Verse to me although I knew it, so that he would take me to his home and feed me. And the most generous of all the people to the poor was Ja'far bin Abi Talib. He used to take us to his home and offer us what was available therein. He would even offer us an empty folded leather container (of butter) which we would split and lick whatever was in it.