Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of Ja'far bin Abi Talib رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایاتھا کہ تم صورت اور سیرت میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہو ۔ حضرت جعفر ؓ علیؓ سے دس سال بڑے تھے، ان کا لقب ذوالجناحین ہے۔ اسلام قبول کرتے ہوئے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے بائیں جانب کھڑے ہوکر نماز ادا کی تھی۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جیسے تم نے میرے ساتھ مل کر نماز پڑھی ہے اللہ پاک تم کو جنت میں دوبازو عطا فرمائے گا اور تم جنت میں اڑتے پھروگے۔ بعمر 41سال جنگ موتہ 8 ھ میں جام شہادت نوش فرمایا، ان کی چھاتی میں تلواروں اور نیزوں کے نوے زخم پائے گئے تھے۔ ( ؓ)
3709.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ کو سلام کہتے تو یوں کہتے: اے ذوالجناحین کے بیٹے!تم پر سلامتی ہو۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ) کہتے ہیں: جناحان سے مراد ہر دوکنارے ہیں۔
تشریح:
حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تجھے مبارک ہو! میں نے اسے فرشتوں کے ہمراہ آسمان میں اڑتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ اس روایت کو طبرانی نے حسن سند سے بیان کیا ہے۔( مجمع الزوائد 273/9۔ رقم:15498) امام ترمذی ؒنے بھی اسے بیان کیا ہے۔( جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3763) لیکن اس کی سند میں کچھ ضعف ہے لیکن دوسرے شواہد کی بناپر اس کے ضعف کی تلافی ہوسکتی ہے۔(فتح الباري:98/7) دراصل حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ جنگ موتہ میں بڑی بے جگری سے لڑے تھے کہ ان کےبازو کٹ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے کٹے ہوئے بازؤں کے عوض انھیں ایسے طاقتور دوپردیے ہیں کہ وہ جنت میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں۔‘‘ اسی بنا پر انھیں جعفر طیار کہا جاتا ہے۔واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3570
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3709
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3709
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3709
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقیقی بھائی اور ان سے دس سال بڑے تھے۔قدیم الاسلام ہیں۔پہلے انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔نجاشی کے دربار میں اسلام کی حقانیت کے متعلق بڑی پراثر اوردلنشین تقریر کی جس سے نجاشی بہت متاثر ہوا۔آپ بہت زیادہ سخی تھے ۔غزوہ موتہ میں کفار سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔8ہجری میں اکتالیس سال کے تھے۔جب شہید ہوئے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے مناقب میں دوحدیثوں کا انتخاب کیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی معلق روایت صحیح بخاری ہی سے متصل سند سے مروی ہے۔( صحیح البخاری الصلح حدیث 2699۔)
اور رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایاتھا کہ تم صورت اور سیرت میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہو ۔ حضرت جعفر ؓ علیؓ سے دس سال بڑے تھے، ان کا لقب ذوالجناحین ہے۔ اسلام قبول کرتے ہوئے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے بائیں جانب کھڑے ہوکر نماز ادا کی تھی۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جیسے تم نے میرے ساتھ مل کر نماز پڑھی ہے اللہ پاک تم کو جنت میں دوبازو عطا فرمائے گا اور تم جنت میں اڑتے پھروگے۔ بعمر 41سال جنگ موتہ 8 ھ میں جام شہادت نوش فرمایا، ان کی چھاتی میں تلواروں اور نیزوں کے نوے زخم پائے گئے تھے۔ ( ؓ)
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ کو سلام کہتے تو یوں کہتے: اے ذوالجناحین کے بیٹے!تم پر سلامتی ہو۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ) کہتے ہیں: جناحان سے مراد ہر دوکنارے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تجھے مبارک ہو! میں نے اسے فرشتوں کے ہمراہ آسمان میں اڑتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ اس روایت کو طبرانی نے حسن سند سے بیان کیا ہے۔( مجمع الزوائد 273/9۔ رقم:15498) امام ترمذی ؒنے بھی اسے بیان کیا ہے۔( جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3763) لیکن اس کی سند میں کچھ ضعف ہے لیکن دوسرے شواہد کی بناپر اس کے ضعف کی تلافی ہوسکتی ہے۔(فتح الباري:98/7) دراصل حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ جنگ موتہ میں بڑی بے جگری سے لڑے تھے کہ ان کےبازو کٹ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے کٹے ہوئے بازؤں کے عوض انھیں ایسے طاقتور دوپردیے ہیں کہ وہ جنت میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں۔‘‘ اسی بنا پر انھیں جعفر طیار کہا جاتا ہے۔واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: " تم صورت وسیرت میں میرے مشابہ ہو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ، انہیں شعبی نے خبردی کہ جب حضرت عبداللہ بن عمر ؓ حضرت جعفر ؓ کے صاحبزادے کو سلام کرتے تو یوں کہا کرتے ''السلام علیک یا ابن ذی الجناحین'' اے دو پروں والے بزرگ کے صاحبزادے تم پر سلام ہو ، ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا حدیث میں جو جناحین کا لفظ ہے اس سے مراد دوگوشے ہیں ( دوکونے )
حدیث حاشیہ:
ان کے والد حضرت جعفر بن ابی طالب جنگ موتی میں شہید ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نے ان کو جنت میں دیکھا ان کے جسم پر دوبازو لگے ہوئے ہیں۔ وہ فرشتوں کے ساتھ اڑتے پھرتے ہیں۔ اسی لیے ان کو جعفر طیار کہاگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ash-Sha'bi (RA): Whenever Ibn 'Umar (RA) greeted Ibn Jafar, he used to say: "As-salamu-'Alaika (i.e. Peace be on you) O son of Dhu-l-Janahain (son of the two-winged person)."