Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The mention of Al-'Abbas رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3710.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ جب قحط سالی سے دوچار ہوتے تو حضرت عباس ؓ سے بارش کی دعا کراتے اور دعا کرتے: اے اللہ!پہلے ہم اپنے نبی کریم ﷺ سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں بارش سے سیراب کرتا تھا، اب ہم اپنے نبی کے چچا سے بارش کی دعا کراتے ہیں، اس لیے ہمیں بارش سے سیراب کر۔ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد خوب بارش ہوتی۔
تشریح:
1۔حضرت عباس ؓ کی بزرگی اور فضیلت کا اعتراف حضرت عمر ؓ کرتے تھے،لیکن اس کےباوجود انھوں نے اپنی مجلس شوریٰ میں شامل نہیں کیا تھا کیونکہ وہ فتح مکہ تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس کے بعد مسلمان ہوئے۔جنگ بدر میں قید ہوئے۔اپنا اور اپنے بھتیجے کا فدیہ دیا اورآزادی ملی۔ان کی کنیت ابوالفضل تھی۔آپ 12 رجب 32 بمطابق 17فروری 653ء بروز جمعہ فوت ہوئے۔حضرت عثمان ؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔پھر انھیں جنت البقیع میں سپرد خا ک کیا گیا۔2۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندہ بزرگ سے دعا کرانا تو جائز ہے لیکن کسی فوت شدہ کا وسیلہ پکڑنا درست نہیں۔واللہ أعلم۔3۔بہرحال حضرت عباس ؓ بڑے سمجھ دار اور دانا تھے۔رسول اللہ ﷺ کے متعلق بات چیت کریں تو حضرت علی ؓ نے فرمایا:اگرآپ نے ہمیں منع کردیا توآئندہ ہمیشہ کے لیے دروازہ بند ہوجائے گا۔اس لیے میں تو اس معاملے میں آپ سے بات نہیں کروں گا۔(صحیح البخاري، المغازی، حدیث:4447)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3571
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3710
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3710
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3710
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت عباس بن عبدالمطلب کے متعلق کوئی ایسی مرفوع حدیث نہیں ملی جوان کی شرط کے مطابق ہو اور وہ آپ کی کسی فضیلت پر مشتمل ہو،اس لیے اسلوب میں تبدیلی لائے ہیں۔ مناقب کے بجائے ذکر کا عنوان اختیار کیا ہے۔ اگرچہ ان کے فضائل بے شمار ہیں۔آپ رسول اللہ ﷺ کے حقیقی چچا اورآپ سے دو تین سال بڑے تھے۔خود رسول اللہ ﷺ انھیں بڑے احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں فوت ہوئے۔
حضرت عباس ؓ آنحضرت ﷺ سے دوتین برس بڑے تھے، اور آپ کے حقیقی چچا تھے، کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار سخت قحط ہوا۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بنی اسرائیل پر جب قحط پڑا تھا وہ ان کے پیغمبروں کی اولاد کا وسیلہ لیاکرتے ، اللہ تعالیٰ پانی برساتا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہمارے یہاں بھی عباس ؓموجود ہیں وہ ہمارے پیغمبر ﷺ کے چچا ہیں۔ چچا باپ کی طرح ہوتا ہے۔ پھر ان کے پاس گئے اور ان کو ساتھ لے کر منبر پر آکر دعا کی۔ اللہ نے خوب پانی برسایا۔ باوجود اس کے کہ حضرت عباس ؓ کو اتنی فضیلت حاصل تھی مگر حضرت عمر ؓ نے اہل شوریٰ یعنی ارکان مجلس میں جن میں مہاجرین اولین شریک تھے ان کو داخل نہیں کیا کیونکہ وہ فتح مکہ تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بعد مسلمان ہوئے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ جب قحط سالی سے دوچار ہوتے تو حضرت عباس ؓ سے بارش کی دعا کراتے اور دعا کرتے: اے اللہ!پہلے ہم اپنے نبی کریم ﷺ سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں بارش سے سیراب کرتا تھا، اب ہم اپنے نبی کے چچا سے بارش کی دعا کراتے ہیں، اس لیے ہمیں بارش سے سیراب کر۔ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد خوب بارش ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عباس ؓ کی بزرگی اور فضیلت کا اعتراف حضرت عمر ؓ کرتے تھے،لیکن اس کےباوجود انھوں نے اپنی مجلس شوریٰ میں شامل نہیں کیا تھا کیونکہ وہ فتح مکہ تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس کے بعد مسلمان ہوئے۔جنگ بدر میں قید ہوئے۔اپنا اور اپنے بھتیجے کا فدیہ دیا اورآزادی ملی۔ان کی کنیت ابوالفضل تھی۔آپ 12 رجب 32 بمطابق 17فروری 653ء بروز جمعہ فوت ہوئے۔حضرت عثمان ؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔پھر انھیں جنت البقیع میں سپرد خا ک کیا گیا۔2۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندہ بزرگ سے دعا کرانا تو جائز ہے لیکن کسی فوت شدہ کا وسیلہ پکڑنا درست نہیں۔واللہ أعلم۔3۔بہرحال حضرت عباس ؓ بڑے سمجھ دار اور دانا تھے۔رسول اللہ ﷺ کے متعلق بات چیت کریں تو حضرت علی ؓ نے فرمایا:اگرآپ نے ہمیں منع کردیا توآئندہ ہمیشہ کے لیے دروازہ بند ہوجائے گا۔اس لیے میں تو اس معاملے میں آپ سے بات نہیں کروں گا۔(صحیح البخاري، المغازی، حدیث:4447)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ، ان سے ابوعبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا ، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اورکہتے کہ اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی ﷺ سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں سیرابی عطاکرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فر ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد خوب بارش ہوئی ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عباس ؓ رسول کریم ﷺ کے محترم چچا ہیں، عمر میں آپ سے دوسال بڑے تھے۔ ان کی ماں نمر بنت قاسط وہ خاتون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کو غلاف سے مزین کیا، حضرت عباس ؓ قریش کے بڑے سرداروں میں سے تھے۔ مجاہد ؒ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنی موت کے وقت ستر غلام آزاد کئے۔ بروز جمعہ12 رجب32 ھ میں بعمر 88سال وفات پائی۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Whenever there was drought, 'Umar bin Al-Khattab (RA) used to ask Allah for rain through Al'Abbas bin 'Abdul Muttalib, saying, "O Allah! We used to request our Prophet (ﷺ) to ask You for rain, and You would give us. Now we request the uncle of our Prophet (ﷺ) to ask You for rain, so give us rain." And they would be given rain."