Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of Sa'd bin Abi Waqqas رضي الله عنهما)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
بنو زہرہ نبی کریم ﷺ کے ماموں ہوتے تھے ، ان کا اصل نام سعد بن ابی مالک ہے ۔ یہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ قریشی زہری ہیں۔ سترہ سال کی عمر میں اسلام لائے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں سب سے پہلے تیر اندازی کرنے والے تھے۔ مستجاب الدعوات مشہور تھے۔ حضرت عثمانؓ نے ان کو کوفہ کا گورنر بنایا تھا۔ حضور ﷺ نے ارم فداک ابی و امی تیر اندازی کرو تم پر میرے ماں باپ فداہوں ، ان کے لیے فرمایا تھا۔ بعمر ستر سال 55ھ میں وفات پائی۔ مدینہ میں دفن کئے گئے، ؓوارضاہ۔ ان کا نسب نامہ یہ ہے سعد بن ابی وقاص بن وہیب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ۔ یہ کلاب پر آنحضرت ﷺسے مل جاتے ہیں اور وہیب حضرت آمنہ آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ کے چچا تھے۔
3727.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا؛ کوئی بھی مسلمان نہیں ہوا مگر اسی روز جس میں میں نے اسلام قبول کیا۔ اور میں سات روز تک اسی حالت میں رہا کہ میں اسلام کا تیسرا فرد تھا۔ ابواسامہ نے اس روایت کو بیان کرنے میں ابن ابی زائدہ کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس مجلس میں حضرت سعد بن وقاص ؓ مسلمان ہوئے اس میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ صرف تین شخص مسلمان تھے ایک ابو بکر ؓ ، دوسرے حضرت بلال ؓ اور تیسرے حضرت سعد بن وقاص ؓ اس سے انھوں نے یہی خیال کیا کہ ان کے علاوہ اور کوئی مسلمان نہیں ہے۔بعض نے کہا ہے جس دن وہ مسلمان ہوئے اس دن اور کوئی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منذہ کے حوالے سے اس طرح حدیث کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ اس صورت میں کوئی اشکال نہیں رہتا کیونکہ جس دن انھوں نے اسلام قبول کیا ممکن ہے کہ اس دن اور کوئی مسلمان نہ ہوا ہو۔(فتح الباري:107/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3585
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3727
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3727
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3727
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں سترہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے۔اللہ کے راستے میں سب سے پہلے انھوں نے تیرا اندازی کی۔ بڑے مستجاب الدعوات تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ بھی بنو زہرہ خاندان سے تھیں جو مدینہ طیبہ میں آباد ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اکثر فارس ، قادسیہ اور بہت سے علاقے فتح کیے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے مناقب میں چار احادیث پیش کی ہیں۔
بنو زہرہ نبی کریم ﷺ کے ماموں ہوتے تھے ، ان کا اصل نام سعد بن ابی مالک ہے ۔ یہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ قریشی زہری ہیں۔ سترہ سال کی عمر میں اسلام لائے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں سب سے پہلے تیر اندازی کرنے والے تھے۔ مستجاب الدعوات مشہور تھے۔ حضرت عثمانؓ نے ان کو کوفہ کا گورنر بنایا تھا۔ حضور ﷺ نے ارم فداک ابی و امی تیر اندازی کرو تم پر میرے ماں باپ فداہوں ، ان کے لیے فرمایا تھا۔ بعمر ستر سال 55ھ میں وفات پائی۔ مدینہ میں دفن کئے گئے، ؓوارضاہ۔ ان کا نسب نامہ یہ ہے سعد بن ابی وقاص بن وہیب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ۔ یہ کلاب پر آنحضرت ﷺسے مل جاتے ہیں اور وہیب حضرت آمنہ آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ کے چچا تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا؛ کوئی بھی مسلمان نہیں ہوا مگر اسی روز جس میں میں نے اسلام قبول کیا۔ اور میں سات روز تک اسی حالت میں رہا کہ میں اسلام کا تیسرا فرد تھا۔ ابواسامہ نے اس روایت کو بیان کرنے میں ابن ابی زائدہ کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس مجلس میں حضرت سعد بن وقاص ؓ مسلمان ہوئے اس میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ صرف تین شخص مسلمان تھے ایک ابو بکر ؓ ، دوسرے حضرت بلال ؓ اور تیسرے حضرت سعد بن وقاص ؓ اس سے انھوں نے یہی خیال کیا کہ ان کے علاوہ اور کوئی مسلمان نہیں ہے۔بعض نے کہا ہے جس دن وہ مسلمان ہوئے اس دن اور کوئی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منذہ کے حوالے سے اس طرح حدیث کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ اس صورت میں کوئی اشکال نہیں رہتا کیونکہ جس دن انھوں نے اسلام قبول کیا ممکن ہے کہ اس دن اور کوئی مسلمان نہ ہوا ہو۔(فتح الباري:107/7)
ترجمۃ الباب:
بنوزہرہ نبی کریم ﷺ کے ننھیال تھے ان کا اصل نام سعد بن مالک ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابن ابی زائدہ نے خبردی ، کہا ہم سے ہاشم بن ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا ، کہا کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے سنا ، انہوں نے کہا کہ جس دن میں اسلام لایا ، اسی دن دوسرے ( سب سے پہلے اسلام میں داخل ہونے والے حضرات صحابہ ) بھی اسلام میں داخل ہوئے ہیں اور میں سات دن تک اسی طور پر رہا کہ میں اسلام کا تیسرا فرد تھا ۔ ابن ابی زائدہ کے ساتھ اس حدیث کو ابواسامہ نے بھی روایت کیا ۔
حدیث حاشیہ:
اس پر یہ اعتراض ہوا ہے کہ ابوبکر ؓ اور حضرت خدیجہ ؓ اور کئی آدمی سعد سے پہلے اسلام لائے تھے۔ بعض نے کہا کہ سعد نے اپنے علم کی روسے کہا مگر صحیح نہیں، کیونکہ ابن عبدالبر ؒ نے سعد سے نقل کیا کہ میں انیس برس کی عمر میں اسلام لایا، ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر۔ اس وقت میں ساتواں مسلمان تھا، بعض نے کہا صحیح اس حدیث کی یوں ہے۔ ''ما أسلم أحمد فی الیوم الذي أسلمت فیه'' یعنی جس دن میں مسلمان ہوا اس دن کوئی مسلمان نہیں ہوا۔ حافظ نے کہا ابن مندہ نے معرفت میں اس حدیث کویوں ہی نقل کیا ہے اس صورت میں کوئی اشکال نہ رہے گا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sad bin Abi Waqqas (RA): No man embraced Islam before the day on which I embraced Islam, and no doubt, I remained for seven days as one third of the then extant Muslims.