Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: Narrations about Usama bin Zaid)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3734.
حضرت عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے مسجد میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس کے کسی گوشے میں کپڑے پھیلاٍرہا ہے۔ آپ نے فرمایا: دیکھو یہ کون ہے؟ کاش یہ میرے قریب ہوتا!ایک شخص نے کہا: اے عبد الرحمٰن ؓ! کیا آپ انھیں نہیں جانتے؟یہ تو محمد بن اسامہ ؓ ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اپنا سر جکالیااور دونوں ہاتھوں سے زمین کرید نے لگے۔ پھر فرمایا: اگر انھیں رسول اللہ ﷺ دیکھتے تو یقیناً آپ ان سے محبت کرتے۔
تشریح:
1۔حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا : کاش وہ شخص میرے پاس ہوتا تو میں اسے وعظ و نصیحت کرتا لیکن جب انھیں پتہ چلا کہ یہ محمد بن اسامہ ہیں تو تعظیم کے لیے اپنا سر جھکا لیا۔ ممکن ہے کہ بعض حالات یا د آگئے ہوں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے باپ اور دادا سے کس قدر محبت کرتے تھے نیز فرمایا : اگر رسول اللہ ﷺ اسے دیکھتے تو وہ بھی اس سے محبت کرتے۔2۔اس حدیث سے بھی حضرت اسامہ ؓ کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ ان کا رسول اللہ ﷺ کے ہاں بہت مقام و احترام تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3592
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3734
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3734
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3734
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
اسامہ ، زید بن حارثہ قضاعی کے بیٹے ہیں، باپ اور بیٹے دونوں رسول اللہ ﷺکے خاص الخاص محبوب تھے، ان کی والدہ ام ایمن ہیں۔ جن کی گود میں رسول کریم ﷺ کی پرورش ہوئی۔ یہ حضور ﷺکے والد ماجد حضرت عبداللہ کی لونڈی تھیں جن کو بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کردیا تھا۔ وفات نبوی کے وقت حضرت اسامہ ؓ کی عمر بیس سال کی تھی۔ وادی القریٰ میں بعد شہادت عثمانؓ ان کی وفات ہوئی۔رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔
حضرت عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے مسجد میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس کے کسی گوشے میں کپڑے پھیلاٍرہا ہے۔ آپ نے فرمایا: دیکھو یہ کون ہے؟ کاش یہ میرے قریب ہوتا!ایک شخص نے کہا: اے عبد الرحمٰن ؓ! کیا آپ انھیں نہیں جانتے؟یہ تو محمد بن اسامہ ؓ ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اپنا سر جکالیااور دونوں ہاتھوں سے زمین کرید نے لگے۔ پھر فرمایا: اگر انھیں رسول اللہ ﷺ دیکھتے تو یقیناً آپ ان سے محبت کرتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا : کاش وہ شخص میرے پاس ہوتا تو میں اسے وعظ و نصیحت کرتا لیکن جب انھیں پتہ چلا کہ یہ محمد بن اسامہ ہیں تو تعظیم کے لیے اپنا سر جھکا لیا۔ ممکن ہے کہ بعض حالات یا د آگئے ہوں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے باپ اور دادا سے کس قدر محبت کرتے تھے نیز فرمایا : اگر رسول اللہ ﷺ اسے دیکھتے تو وہ بھی اس سے محبت کرتے۔2۔اس حدیث سے بھی حضرت اسامہ ؓ کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ ان کا رسول اللہ ﷺ کے ہاں بہت مقام و احترام تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے حسن بن محمد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابوعباد بن عباد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ماجشون نے بیان کیا ، انہیں عبداللہ بن دینار نے خبردی کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک دن ایک صاحب کو مسجد میں دیکھا کہ اپنا کپڑا ایک کونے میں پھیلا رہے تھے ، انہوں نے کہا دیکھو یہ کون صاحب ہیں ؟ کاش ! یہ میرے قریب ہوتے ۔ ایک شخص نے کہا اے ابوعبدالرحمن ! کیا آپ انہیں نہیں پہچانتے ؟ یہ محمد بن اسامہ ؓ ہیں ۔ ابن دینار نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنا سر جھکا لیا اور اپنے ہاتھوں سے زمین کرید نے لگے پھر بولے اگر رسول اللہ ﷺ انہیں دیکھتے تو یقینا آپ ان سے محبت فرماتے ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Dinar (RA): One day Ibn 'Umar (RA), while in the Mosque, looked at a man who was dragging his clothes while walking in one of the corners of the Mosque He said, "See who is that. I wish he was near to me." Somebody then said (to Ibn 'Umar (RA)), "Don't you know him, O Abu 'Abdur-Rahman? He is Muhammad bin Usama." On that Ibn 'Umar (RA) bowed his head and dug the earth with his hands and then, said, "If Allah's Apostle (ﷺ) saw him, he would have loved him."