Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of Al-Hasan and Al-Husain رضي الله عنهما)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جنت میں اپنے آگے میں نے تمہارے قدموں کی چاپ سنی تھی ۔ رسول کریم ﷺکے مشہور مؤذن ہیں جن کے حالات بڑی تفصیل چاہتے ہیں، اسلام لانے پر اہل مکہ نے ان کو بہت ہی ستایا تھا، خود امیہ بن خلف اپنے ہاتھ سے ان کو انتہائی اذیت دیتا تھا، خدا کی شان کہ جنگ بدر میں یہ ملعون حضرت بلال ؓ ہی کی تلوار سے داخل جہنم ہوا۔ اصلاً یہ حبشی تھے 20 ھ میں دمشق میں ان کا انتقال ہوا۔ؓو ارضاہ
3746.
حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا۔ جبکہ حضرت حسن ؓ آپ کے پہلو میں تھے۔ آپ ایک بار لوگوں کو دیکھتے دوسری مرتبہ حضرت حسن ؓ کی طرف نظر کرکے فرماتے: ’’میرا یہ بیٹا(سردار)ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے باعث مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘
تشریح:
حضرت حسن ؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حضرت معاویہ ؓ کے زمانے میں پوری ہوئی۔ حضرت حسن ؓ کے ہمراہ تقریباً چالیس ہزار فدائی تھے۔اسی طرح حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہمراہ بھی بہت بڑا لشکر تھا۔ حضرت حسن ؓ نے قلت یا ذلت کی وجہ سے نہیں بلکہ محض امت پر شفقت کرتے ہوئے ملک اور دنیا کو چھوڑدیا اور حکومت حضرت معاویہ ؓ کے حوالے کردی۔اس صلح عظیم سے ایک جنگ عظیم کا خطرہ ٹل گیا۔ اللہ والوں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ خود نقصان برداشت کر لیتے ہیں مگر فتنہ و فساد برپا نہیں کرتے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3602
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3746
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3746
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3746
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش ماہ رمضان 3ہجری میں ہوئی ۔ ان کی کنیت ابو محمد تھی اور وفات 50ہجری میں ہے جبکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش شعبان 4ہجری اور شہادت 61ہجری کو ہوئی ۔ ان کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ دونوں شہزادے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی پیارے تھے۔ان کی پیدائش کے ساتوایں روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عقیقہ کیا۔ اسی روز ان کے بال منڈوا کر ان کے برابر چاندی صدقہ کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے کے بیان میں ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت حسن سینے سے سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے اور حضرت حسین سینے کے نچلے حصے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملتے جلتے تھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں حضرات کے مناقب میں آٹھ احادیث بیان کی ہیں چونکہ اکثر فضائل میں یہ دونوں مشترک ہیں اس لیے آپ نے دونوں کے لیے ایک ہی عنوان قائم کیا ہے زیر عنوان معلق روایت کو آپ نے کتاب البیوع میں متصل سندسے بیان کیا ہے۔( فتح الباری:۔7/120۔)
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جنت میں اپنے آگے میں نے تمہارے قدموں کی چاپ سنی تھی ۔ رسول کریم ﷺکے مشہور مؤذن ہیں جن کے حالات بڑی تفصیل چاہتے ہیں، اسلام لانے پر اہل مکہ نے ان کو بہت ہی ستایا تھا، خود امیہ بن خلف اپنے ہاتھ سے ان کو انتہائی اذیت دیتا تھا، خدا کی شان کہ جنگ بدر میں یہ ملعون حضرت بلال ؓ ہی کی تلوار سے داخل جہنم ہوا۔ اصلاً یہ حبشی تھے 20 ھ میں دمشق میں ان کا انتقال ہوا۔ؓو ارضاہ
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا۔ جبکہ حضرت حسن ؓ آپ کے پہلو میں تھے۔ آپ ایک بار لوگوں کو دیکھتے دوسری مرتبہ حضرت حسن ؓ کی طرف نظر کرکے فرماتے: ’’میرا یہ بیٹا(سردار)ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے باعث مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت حسن ؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حضرت معاویہ ؓ کے زمانے میں پوری ہوئی۔ حضرت حسن ؓ کے ہمراہ تقریباً چالیس ہزار فدائی تھے۔اسی طرح حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہمراہ بھی بہت بڑا لشکر تھا۔ حضرت حسن ؓ نے قلت یا ذلت کی وجہ سے نہیں بلکہ محض امت پر شفقت کرتے ہوئے ملک اور دنیا کو چھوڑدیا اور حکومت حضرت معاویہ ؓ کے حوالے کردی۔اس صلح عظیم سے ایک جنگ عظیم کا خطرہ ٹل گیا۔ اللہ والوں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ خود نقصان برداشت کر لیتے ہیں مگر فتنہ و فساد برپا نہیں کرتے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت نافع بن جبیر نے حضرت ابو ہریرہؓ سے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے حضرت حسن ؓ کو گلے سے لگایا
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوموسیٰ نے بیان کیا ، ان سے حسن نے ، انہوں نے حضرت ابوبکرہ ؓ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آنحضرت ﷺ منبر پر تشریف فرماتھے ، اور حضرت حسن ؓ آپ کے پہلو میں تھے ، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور پھر حسن ؓ کی طرف اور فرماتے : میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دوجماعتوں میں صلح کرائے گا ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت حسن ؓ کے متعلق پیش گوئی حضرت امیر معاویہ ؓ کے زمانہ میں پوری ہوئی جب کہ حضرت حسن ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی صلح سے جنگ کا ایک بڑا خطرہ ٹل گیا، اللہ والوں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ خود نقصان برداشت کرلیتے ہیں مگر فتنہ فساد نہیں چاہتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA): I heard the Prophet (ﷺ) talking at the pulpit while Al-Hasan was sitting beside him, and he (i.e. the Prophet) was once looking at the people and at another time Al-Hasan, and saying, "This son of mine is a Saiyid (i.e. chief) and perhaps Allah will bring about an agreement between two sects of the Muslims through him."