Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of Bilal bin Rabah, the freed slave of Abu Bakr رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جنت میں اپنے آگے میں نے تمہارے قدموں کی چاپ سنی تھی۔تشریخ:رسول کریمﷺکے مشہور مؤذن ہیں جن کے حالات بڑی تفصیل چاہتے ہیں اسلام لانے پر اہل مکہ نے ان کو بہت ہی ستایا تھا۔خود امیہ بن خلف اپنے ہاتھ سے ان کو انتہائی اذیت دیتا تھا خدا کی شان کہ جنگ بدر میں یہ ملعون حضرت بلالؓ ہی کی تلوار سے داخل جہنم ہوا۔اصلاً یہ حبشی تھے 20ھ میں دمشق میں ان کا انتقال ہوا ؓ
3755.
حضرت قیس ؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلال ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا: اگر آپ نے مجھے اپنی ذات کے لیے خریداہے تو مجھے (اپنی غلامی میں)روک رکھیں اور اگر آپ نے مجھے اللہ کے لیے خریدا ہے تو مجھے آزاد کردیں تاکہ میں اللہ کے لیے عمل کروں۔
تشریح:
1۔حضرت بلال ؓ نے یہ پسند کیا کہ اب وہ محض اللہ کے ہوکررہیں گے۔یہ بہت بڑی خوبی اور فضیلت ہے۔2۔سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت بلال نے حدیث میں مذکورہ گفتگو خریداری کے وقت کی تھی لیکن طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت بلال ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا:افضل عمل اللہ کی راہ میں جہاد کرناہے،اس لیے اب میں جہاد کرنا چاہتا ہوں تو ابوبکر ؓ نے فرمایا:میں تجھے اللہ واسطہ اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم میرے ہاں قیام کرو،چنانچہ حضرت بلال ؓ ان کی وفات تک مدینے میں رک گئے۔جب حضرت ابوبکر ؓ انتقال کرگئے توحضرت عمر ؓ نے انھیں اجازت دے دی اور علاقہ شام میں چلے گئے،وہاں طاعونِ عمواس میں ان کا انتقال ہوا۔ (فتح الباري:126/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3611
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3755
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3755
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3755
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن اور خادم خاص کرحیثیت رکھتے ہیں۔جب وہ مسلمان ہوئے تو کفار نے انھیں سخت سے سخت اذیت میں مبتلا کیا۔خود امیہ بن خلف انھیں اپنے ہاتھ سے اذیت دیتاتھا۔اللہ کی شان کہ غزوہ بدر میں یہ ملعون حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خرید کر آزاد کردیا تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کو پسند کیا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ شام چلے گئے۔وہیں 19ہجری بمطابق 539 م وفات پائی۔آپ کو حلب میں دفن کیا گیا۔ان کے بے شمار مناقب ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف دوحدیثوں کا انتخاب کیا ہے۔امام بخاری نے پیش کردہ معلق روایات کو خود ہی حدیث نمبر۔1149۔کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جنت میں اپنے آگے میں نے تمہارے قدموں کی چاپ سنی تھی۔تشریخ:رسول کریمﷺکے مشہور مؤذن ہیں جن کے حالات بڑی تفصیل چاہتے ہیں اسلام لانے پر اہل مکہ نے ان کو بہت ہی ستایا تھا۔خود امیہ بن خلف اپنے ہاتھ سے ان کو انتہائی اذیت دیتا تھا خدا کی شان کہ جنگ بدر میں یہ ملعون حضرت بلالؓ ہی کی تلوار سے داخل جہنم ہوا۔اصلاً یہ حبشی تھے 20ھ میں دمشق میں ان کا انتقال ہوا ؓ
حدیث ترجمہ:
حضرت قیس ؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلال ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا: اگر آپ نے مجھے اپنی ذات کے لیے خریداہے تو مجھے (اپنی غلامی میں)روک رکھیں اور اگر آپ نے مجھے اللہ کے لیے خریدا ہے تو مجھے آزاد کردیں تاکہ میں اللہ کے لیے عمل کروں۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت بلال ؓ نے یہ پسند کیا کہ اب وہ محض اللہ کے ہوکررہیں گے۔یہ بہت بڑی خوبی اور فضیلت ہے۔2۔سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت بلال نے حدیث میں مذکورہ گفتگو خریداری کے وقت کی تھی لیکن طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت بلال ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا:افضل عمل اللہ کی راہ میں جہاد کرناہے،اس لیے اب میں جہاد کرنا چاہتا ہوں تو ابوبکر ؓ نے فرمایا:میں تجھے اللہ واسطہ اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم میرے ہاں قیام کرو،چنانچہ حضرت بلال ؓ ان کی وفات تک مدینے میں رک گئے۔جب حضرت ابوبکر ؓ انتقال کرگئے توحضرت عمر ؓ نے انھیں اجازت دے دی اور علاقہ شام میں چلے گئے،وہاں طاعونِ عمواس میں ان کا انتقال ہوا۔ (فتح الباري:126/7)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺ نے فرمایا: "میں نے جنت میں اپنے آگے تمھارے قدموں کی چاپ سنی تھی۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابن نمیر نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عبید نے کہا ، ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، اور ان سے قیس نے کہ حضرت بلال ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا ، اگر آپ نے مجھے اپنے لیے خریدا ہے تو پھر اپنے پاس ہی رکھئے اور اگر اللہ کے لیے خریدا ہے تو پھر مجھے آزاد کردیجئے اور اللہ کے راستے میں عمل کرنے دیجئے ۔
حدیث حاشیہ:
ہوایہ تھا کہ بلال ؓ سے آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد صبر نہ ہوسکا، ہر وقت اذان میں آپ کا نام آتا، آپ کی یاد سے قبر شریف کو دیکھ کر زخم تازہ ہوتا۔ اس لیے بلال ؓ مدینہ منورہ سے چلے گئے، چھ مہینے کے بعد آئے تو آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا، فرماتے ہیں: بلال ! کیا ظلم ہے، تو نے ہم کو چھوڑ دیا، بلال نے حضرت فاطمہ ؓ کا حال پوچھا، معلوم ہوا کہ انتقال پاگئیں، حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کو بلاکر گلے لگایا، خوب روئے، لوگوں نے حسن ؓ سے کہا آپ کہو تو بلال اذان دیں گے۔ انہوں نے فرمائش کی، بلال اذان کے لیے کھڑے ہوئے جب ''اشھد ان محمدا رسول اللہ'' پر پہنچے تو روتے روتے بے ہوش ہوکر گرے، لوگ بھی رونے لگے، نبی کریم ﷺ کی یاد سے ایک کہرام مچ گیا، اللھم صل علیه وبارك وسلم، ہمارے پیرومرشد شیخ احمد مجدد ؒ فرماتے ہیں: بلال ؓ حبشی تھے۔ اذان میں أشهد کے بدل أسهد کہتے شین کو سین کہتے مگر ان کا أسهد ہم لوگوں کے ہزار بار اشہد پر فضیلت رکھتا تھا۔ وہ عاشق رسول تھے ہم گنہگار نابکار، یا اللہ ! بلا ل ؓ کے کفش برداروں ہی میں ہم کو رکھ لے۔ آمین یار ب العالمین (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qais (RA): Bilal (RA) said to Abu Bakr, "If you have bought me for yourself then keep me (for yourself), but if you have bought me for Allah's Sake, then leave me for Allah's Work."