Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of Fatima عليها السلام)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان کہ فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں ۔ آنحضرت کی سب سے چھوٹی صاحب زادی اور آپ ﷺکو نہایت عزیز تھیں۔ ان کا نکاح حضرت علی ؓسے 2 ھ میں ہوا ، حسنؓ حسین ؓ اور محسن ؓ تین لڑکے اور تین لڑکیاں زینب ، ام کلثوم اور رقیہ پیدا ہوئیں۔ آنحضرت ﷺکی وفات کے چھ مہینے یا آٹھ مہینے بعد ان کا انتقال ہوا۔ چوبیس یا انتیس یا تیس برس کی عمر پائی، علی اختلاف الاقوال ۔ ؓ ( وحیدی ) ۔
3767.
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فاطمہ ؓ میرے جسم کا ایک حصہ ہے۔ جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
تشریح:
1۔حضرت فاطمہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔پندرہ سال کی عمر میں حضرت علی ؓ سے ان کی شادی ہوئی۔2۔اس حدیث میں حضرت فاطمہ کی بہت بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے جسم اطہر کا حصہ قراردیا اور ان کی ناراضی کو اپنی ناراضی کہا ہے۔ اس سے علامہ سہیلی نے استنباط کیا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کو بُرا بھلا کہنا کفر ہے کیونکہ بُرا بھلا کہنے والے پر سیدہ ناراض ہوں گی اور آپ کو ناراض کرنا گویا رسول اللہ ﷺ کو ناراض کرنا ہے۔اس طرح آپ کی ناراضی کفر ہے،لہذا فاطمہ ؓ کو ناراض کرنا بھی کفر ہے۔لیکن یہ استدلال محل نظر ہے۔(فتح الباري:133/7)3۔ایک روایت میں ہے کہ خواتین جنت میں افضل حضرت خدیجہ ؓ اور سیدہ فاطمہ ؓ بنت محمد ﷺ ہیں۔(مسند أحمد:293/1، رقم:2668) ایک اور حدیث میں ہے کہ خواتین جنت کی سردار سید ہ فاطمہ ؓ ہوں گی۔(صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3624) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ تمام عورتوں سے افضل ہیں۔(فتح الباري:175/7) ہمارا رجحان یہ ہے کہ اس سلسلے میں توقف کیاجائے،ہر ایک کسی نہ کسی سلسلے میں وجہ فضیلت حاصل ہے اگرچہ جگر گوشہ ہونے میں دوسرا کوئی شریک نہیں۔اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہمیں ان کی میعت ورفاقت نصیب کرے اورجنت الفردوس میں ہم سب کو اکھٹا کردے۔آمین
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3625
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3767
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3767
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3767
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاربیٹیاں ہیں۔بڑی سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ان سے چھوٹی سیدہ رقیہ جن کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔ان کی وفات کے بعد سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجیت میں آئیں۔سب سے چھوٹی دختر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں جن کی اولاد کا سلسلہ آگے چلا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف چھ ماہ زندہ رہیں۔معلق روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علامات النبوۃ میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے بشارت دی کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،خواتین جنت کی سردار ہیں۔( المستدرک للحاکم 152/3۔)
اور نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان کہ فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں ۔ آنحضرت کی سب سے چھوٹی صاحب زادی اور آپ ﷺکو نہایت عزیز تھیں۔ ان کا نکاح حضرت علی ؓسے 2 ھ میں ہوا ، حسنؓ حسین ؓ اور محسن ؓ تین لڑکے اور تین لڑکیاں زینب ، ام کلثوم اور رقیہ پیدا ہوئیں۔ آنحضرت ﷺکی وفات کے چھ مہینے یا آٹھ مہینے بعد ان کا انتقال ہوا۔ چوبیس یا انتیس یا تیس برس کی عمر پائی، علی اختلاف الاقوال ۔ ؓ ( وحیدی ) ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فاطمہ ؓ میرے جسم کا ایک حصہ ہے۔ جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت فاطمہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔پندرہ سال کی عمر میں حضرت علی ؓ سے ان کی شادی ہوئی۔2۔اس حدیث میں حضرت فاطمہ کی بہت بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے جسم اطہر کا حصہ قراردیا اور ان کی ناراضی کو اپنی ناراضی کہا ہے۔ اس سے علامہ سہیلی نے استنباط کیا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کو بُرا بھلا کہنا کفر ہے کیونکہ بُرا بھلا کہنے والے پر سیدہ ناراض ہوں گی اور آپ کو ناراض کرنا گویا رسول اللہ ﷺ کو ناراض کرنا ہے۔اس طرح آپ کی ناراضی کفر ہے،لہذا فاطمہ ؓ کو ناراض کرنا بھی کفر ہے۔لیکن یہ استدلال محل نظر ہے۔(فتح الباري:133/7)3۔ایک روایت میں ہے کہ خواتین جنت میں افضل حضرت خدیجہ ؓ اور سیدہ فاطمہ ؓ بنت محمد ﷺ ہیں۔(مسند أحمد:293/1، رقم:2668) ایک اور حدیث میں ہے کہ خواتین جنت کی سردار سید ہ فاطمہ ؓ ہوں گی۔(صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3624) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ تمام عورتوں سے افضل ہیں۔(فتح الباري:175/7) ہمارا رجحان یہ ہے کہ اس سلسلے میں توقف کیاجائے،ہر ایک کسی نہ کسی سلسلے میں وجہ فضیلت حاصل ہے اگرچہ جگر گوشہ ہونے میں دوسرا کوئی شریک نہیں۔اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہمیں ان کی میعت ورفاقت نصیب کرے اورجنت الفردوس میں ہم سب کو اکھٹا کردے۔آمین
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے ، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے حضرت مسور بن مخرمہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ ؓ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے باب علامات النبوۃ میں دوسری سند سے وصل کیا ہے، حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث قوی دلیل ہے اس بات پر کہ حضرت فاطمہ ؓ اپنے زمانہ والی اور اپنے بعد والی سب عورتوں سے افضل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Miswar bin Makhrama (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Fatima is a part of me, and whoever makes her angry, makes me angry."