باب: نبی کریم ﷺکا انصار سے یہ فرمانا کہ تم’’صبر سے کام لینا یہاں تک کہ تم مجھ سے حوض پر ملاقات کرو “
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: “Be patient till you meet me at Al-Haud (Al-Kauthar)”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ قول حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کیا ہے ۔
3794.
حضرت یحییٰ بن سعید انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت انس ؓ سے سنا جب وہ حضرت انس ؓ کے ساتھ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے ہاں جانے کے لیے نکلے، (وہاں جا کر) انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا علاقہ ان کے لیے بطور جاگیر لکھ دیں۔ انصار نے کہا: جب تک آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو اس جیسی جاگیر عطا نہیں فرمائیں گے ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو کیونکہ میرے بعد عنقریب ہی تمہیں نظر انداز کیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی شروع ہو جائے گی۔‘‘
تشریح:
1۔ انصار کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد عنقریب تمھیں ترجیحات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے غیر مستحق لوگ عہد پر فائز ہوں گے اور تمھیں محروم کیا جائے گا۔‘‘ چنانچہ بنوامیہ کے دور میں ایسا ہی ہوارسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی مگر انصار نے فی الواقع صبر سے کام لے کر وصیت نبوی پر پورا پورا عمل کیا۔ 2۔مذکورہ حدیث میں حضرت انس ؓ کے نکلنے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ کو حاکم بصرہ حجاج نے تنگ کیا تو انھوں نےدمشق جا کر ولید بن عبدالملک سے شکایت کی۔ آخر دمشق کے حاکم نے انھیں حق دلایا۔ (فتح الباري:149/7)
یہ عنوان ایک حدیث کا حصہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے متعلق پیش گوئی فرمائی کہ تمھیں آئندہ زندگی میں مشکلات اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لوگ تمھارے مقابلے میں دوسروں کو ترجیح دیں گے۔ تمھیں ان تلخیوں کو برداشت کرنا ہوگا۔ اس میں انصار کو جنت رحمت اور حوض کوثر پر ملنے کی بشارت ہے۔ عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی حدیث نمبر:4330۔کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
یہ قول حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کیا ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت یحییٰ بن سعید انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت انس ؓ سے سنا جب وہ حضرت انس ؓ کے ساتھ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے ہاں جانے کے لیے نکلے، (وہاں جا کر) انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا علاقہ ان کے لیے بطور جاگیر لکھ دیں۔ انصار نے کہا: جب تک آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو اس جیسی جاگیر عطا نہیں فرمائیں گے ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو کیونکہ میرے بعد عنقریب ہی تمہیں نظر انداز کیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی شروع ہو جائے گی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ انصار کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد عنقریب تمھیں ترجیحات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے غیر مستحق لوگ عہد پر فائز ہوں گے اور تمھیں محروم کیا جائے گا۔‘‘ چنانچہ بنوامیہ کے دور میں ایسا ہی ہوارسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی مگر انصار نے فی الواقع صبر سے کام لے کر وصیت نبوی پر پورا پورا عمل کیا۔ 2۔مذکورہ حدیث میں حضرت انس ؓ کے نکلنے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ کو حاکم بصرہ حجاج نے تنگ کیا تو انھوں نےدمشق جا کر ولید بن عبدالملک سے شکایت کی۔ آخر دمشق کے حاکم نے انھیں حق دلایا۔ (فتح الباري:149/7)
ترجمۃ الباب:
اس بات کو حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے نبی ﷺسے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہاہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، انہوں نے انس ؓ سے سنا.... جب وہ انس ؓ کے ساتھ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے یہاں جانے کے لیے نکلے.... نبی کریم ﷺ نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا ملک بطور جاگیر انہیں عطا فرما دیں، انصار نے کہا جب تک آپ ہمارے بھائی مہاجرین کو بھی اسی جیسی جاگیر نہ عطا فرمائیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا دیکھو جب آج تم قبول نہیں کرتے ہو تو پھر میرے بعد بھی صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو، کیونکہ میرے بعد قریب ہی تمہاری حق تلفی ہونے والی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی دوسرے غیر مستحق لوگ عہدوں پر مقرر ہوں گے اور تم کو محروم کردیا جائے گا، بنی امیہ کے زمانے میں ایسا ہی ہوا اور رسول کریم ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی، مگر انصار نے فی الواقع صبر سے کام لے کر وصیت نبوی پر پورا عمل کیا۔ رضي اللہ عنهم ورضوا عنه، یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت انس ؓ کو عبدالملک بن مروان نے ستایا تھا اور وہ بصرہ سے دمشق جاکر ولید بن عبدالملک کے ہاں اپنی شکایات لے کر پہنچے تھے، آخر ولید بن عبدالملک (حاکم وقت) نے ان کا حق دلایا۔ (فتح الباری)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Yahya bin Said (RA): That he heard Anas bin Malik (RA) when he went with him to Al-Walid, saying, "Once the Prophet (ﷺ) called the Ansar in order to give them the territory of Bahrain they said, 'No, unless you give to our emigrant brethren a similar share.' On that he said 'If you do not agree to it, then be patient till you meet me, for after me others will be given preference to you."'