Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The days of Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3843.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اہل جاہلیت اونٹ کے گوشت کی خریدوفروخت حبل الحبله کی مدت تک کرتے تھے۔ اور حبل الحبله یہ ہے کہ کوئی حاملہ اونٹنی اپنا بچہ جنے، پھر نوزائیدہ بچہ جب حاملہ ہو تو قیمت کی ادائیگی کی جائے۔ نبی ﷺ نے اس قسم کی خرید و فروخت ممنوع قرار دی ہے۔
تشریح:
حدیث میں مذکورہ خرید فروخت دور جاہلیت کی یاد ہے نیز اس میں کئی خرابیاں ہیں مثلاً:نہ معلوم اونٹنی کو حمل ہے یاویسے ہی پیٹ پھولا ہوا ہے جیسا کہ عورتوں کو بھی حمل کا ذب ہوجاتا ہے۔ اگر حمل ہے تو وہ بچہ ہوتا ہے یا نہیں زندہ رہ کر زمانہ حمل قبول کرتا ہے یا نہیں کئی ایک ایسے احتمالات ہیں جو جھگڑے کا باعث ہیں اور جھگڑے والی خرید و فروخت جس میں قیمت نامعلوم ہو یا بیچی جانے والی چیز مجہول ہو یا مدت ادا ئیگی معلوم نہ ہو خرید و فروخت کی ایسی تمام صورتیں ناجائز ہیں۔ واللہ اعلم۔
اسلام سے پہلے کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا جس میں کوئی اخلاقی اور شرعی قانون نہ تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی تحدید وقت سے نہیں بلکہ قانون وضابطے کے اعتبار سے ہونی چاہیے یعنی طرز زندگی کا ہر وہ اقدام جاہلیت ہے جو اللہ سے بغاوت پر مبنی ہو۔ اگر اس کا تعلق اسلام سے پہلے وقت کے ساتھ ہے تو اسے جاہلیت قدیم کہتے ہیں۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں چار مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے:(ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ)( آل عمران:3/154۔) (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ)( المائدہ5/50۔) )تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ )( الاحزاب33۔33۔))حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)( الفتح 48۔26۔)اگر جاہلیت کا تعلق اسلام کے بعد سے ہے تو اسے جاہلیت جدیدہ کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل روشن خیالی کی آڑ میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہے۔عہد جاہلیت اس زمانے کو بھی کہتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر زمانہ جاہلیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آپ کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔( فتح الباری:7/188۔)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اہل جاہلیت اونٹ کے گوشت کی خریدوفروخت حبل الحبله کی مدت تک کرتے تھے۔ اور حبل الحبله یہ ہے کہ کوئی حاملہ اونٹنی اپنا بچہ جنے، پھر نوزائیدہ بچہ جب حاملہ ہو تو قیمت کی ادائیگی کی جائے۔ نبی ﷺ نے اس قسم کی خرید و فروخت ممنوع قرار دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں مذکورہ خرید فروخت دور جاہلیت کی یاد ہے نیز اس میں کئی خرابیاں ہیں مثلاً:نہ معلوم اونٹنی کو حمل ہے یاویسے ہی پیٹ پھولا ہوا ہے جیسا کہ عورتوں کو بھی حمل کا ذب ہوجاتا ہے۔ اگر حمل ہے تو وہ بچہ ہوتا ہے یا نہیں زندہ رہ کر زمانہ حمل قبول کرتا ہے یا نہیں کئی ایک ایسے احتمالات ہیں جو جھگڑے کا باعث ہیں اور جھگڑے والی خرید و فروخت جس میں قیمت نامعلوم ہو یا بیچی جانے والی چیز مجہول ہو یا مدت ادا ئیگی معلوم نہ ہو خرید و فروخت کی ایسی تمام صورتیں ناجائز ہیں۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے کہا، مجھ کو نافع نے خبر دی اور ان سے عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ حبل الحبله تک قیمت کی ادائگی کے وعدہ پر، اونٹ کا گوشت ادھا ر بیچا کر تے تھے عبد اللہ ؓ نے بیان کیا کہ حبل الحبله کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حاملہ اوٹنی اپنا بچہ جنے پھر وہ نو زائیدہ بچہ (بڑھ کر) حاملہ ہو، نبی کریم ﷺ نے اس طرح کی خرید و فروخت ممنوع قرار دے دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): In the pre-lslamic period of ignorance the people used to bargain with the meat of camels on the principle of Habal-al-Habala which meant the sale of a she-camel that would be born by a she-camel that had not yet been born. The Prophet (ﷺ) forbade them such a transaction.