باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ میں آنا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The arrival of the Prophet (saws) at Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3932.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو عوالی مدینہ میں ایک قبیلے کے پاس اقامت فرمائی، جنہیں بنوعمرو بن عوف کہا جاتا تھا۔ آپ ان کے ہاں چودہ دن ٹھہرے۔ پھر آپ نے بنو نجار کے سرداروں کو پیغام بھیجا تو وہ مسلح ہو کر آئے۔ گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اونٹنی پر سوار ہیں اور حضرت ابوبکر ؓ آپ کے پیچھے (دوسری اونٹنی پر) سوار ہیں۔ بنو نجار کے سردار آپ کے اردگرد ہیں، یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر کے صحن میں اپنا سامان رکھ دیا۔ پہلے معمول یہ تھا کہ جس جگہ آپ کو نماز کا موقع مل جاتا وہاں نماز پڑھ لیتے تھے، کوئی مسجد نہ تھی یہاں تک کہ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا، چنانچہ آپ نے بنونجار کے سرداروں کو بلایا۔ وہ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے انہیں فرمایا: ’’اے بنو نجار! تم اپنا یہ باغ مجھے فروخت کر دو۔‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم اس کی قیمت اللہ تعالٰی سے وصول کریں گے۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: اس باغ میں جو چیزیں تھیں وہ میں تمہیں بتاتا ہوں: اس میں مشرکین کی قبریں، کچھ گڑھے اور چند ایک کھجور کے درخت تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی قبروں کے متعلق حکم دیا کہ انہیں اکھاڑ دیا جائے۔ گڑھوں کو ہموار کر دیا گیا اور کھجوروں کے درخت کاٹ دیے گئے۔ صحابہ کرام ؓ نے کھجوروں کے تنوں کو مسجد کے قبلے میں کھڑا کر دیا اور اس کی دونوں طرف پتھر رکھ دیے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام پتھر اٹھاتے اور یہ رجز بھی پڑھتے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی ان کے ساتھ (پتھر اٹھاتے اور شعر پڑھتے) تھے: ’’اے اللہ! بھلائی صرف آخرت کی بھلائی ہے۔ انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔‘‘
تشریح:
1۔ مدینہ طیبہ سےنجد کی طرف جہت کو عالیہ اور تہامہ کی جہت کو سافلہ کہا جاتا تھا قباء عوالی مدینہ میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا علو مدینہ میں نزول فرمانا سر فرازی اور بلندی کے شگون کے لیے تھا۔ 2۔اس باغ کے متعلق پہلے ایک حدیث میں وضاحت تھی کہ وہ کھجوریں خشک کرنے کی جگہ تھی۔ ممکن ہے کہ پہلے باغ ہوں پھر ویران ہو کر کھجوروں کے لیے جگہ بن گئی ہو۔ وہ باغ عمرو کے بیٹوں سہل اور سہیل کے لیے تھا جو یتیم ہو چکے تھے اور وہ حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کی کفالت میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس باغ کی قیمت ادا کریں چنانچہ انھوں نے دس دینار بطور قیمت ادا کیے۔ 3۔رسول اللہ ﷺ کے آنے سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ ؓ وہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو کھجوروں کی چھڑیوں سے مسجد کا ڈھانچہ تیار کیا اور ہجرت کے چار سال بعد اینٹوں اور گارے سے تعمیر کیا۔ (فتح الباري:308/7) 4۔ چونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی ہجرت اور مدینہ تشریف لانے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔ واللہ اعلم۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ ربیع الاول میں مکہ مکرمہ کو خیر باد کہا لیکن بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد ماہ محرم ہی میں ہجرت کا عزم کر لیا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ یا بارہ ربیع الاول بروز سوموار کو مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے۔اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ سے پہلے مدینہ طیبہ پہنچ چکے تھے اس کی تفصیل ہجرت کے باب میں بیان ہو چکی ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو عوالی مدینہ میں ایک قبیلے کے پاس اقامت فرمائی، جنہیں بنوعمرو بن عوف کہا جاتا تھا۔ آپ ان کے ہاں چودہ دن ٹھہرے۔ پھر آپ نے بنو نجار کے سرداروں کو پیغام بھیجا تو وہ مسلح ہو کر آئے۔ گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اونٹنی پر سوار ہیں اور حضرت ابوبکر ؓ آپ کے پیچھے (دوسری اونٹنی پر) سوار ہیں۔ بنو نجار کے سردار آپ کے اردگرد ہیں، یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر کے صحن میں اپنا سامان رکھ دیا۔ پہلے معمول یہ تھا کہ جس جگہ آپ کو نماز کا موقع مل جاتا وہاں نماز پڑھ لیتے تھے، کوئی مسجد نہ تھی یہاں تک کہ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا، چنانچہ آپ نے بنونجار کے سرداروں کو بلایا۔ وہ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے انہیں فرمایا: ’’اے بنو نجار! تم اپنا یہ باغ مجھے فروخت کر دو۔‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم اس کی قیمت اللہ تعالٰی سے وصول کریں گے۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: اس باغ میں جو چیزیں تھیں وہ میں تمہیں بتاتا ہوں: اس میں مشرکین کی قبریں، کچھ گڑھے اور چند ایک کھجور کے درخت تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی قبروں کے متعلق حکم دیا کہ انہیں اکھاڑ دیا جائے۔ گڑھوں کو ہموار کر دیا گیا اور کھجوروں کے درخت کاٹ دیے گئے۔ صحابہ کرام ؓ نے کھجوروں کے تنوں کو مسجد کے قبلے میں کھڑا کر دیا اور اس کی دونوں طرف پتھر رکھ دیے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام پتھر اٹھاتے اور یہ رجز بھی پڑھتے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی ان کے ساتھ (پتھر اٹھاتے اور شعر پڑھتے) تھے: ’’اے اللہ! بھلائی صرف آخرت کی بھلائی ہے۔ انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ مدینہ طیبہ سےنجد کی طرف جہت کو عالیہ اور تہامہ کی جہت کو سافلہ کہا جاتا تھا قباء عوالی مدینہ میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا علو مدینہ میں نزول فرمانا سر فرازی اور بلندی کے شگون کے لیے تھا۔ 2۔اس باغ کے متعلق پہلے ایک حدیث میں وضاحت تھی کہ وہ کھجوریں خشک کرنے کی جگہ تھی۔ ممکن ہے کہ پہلے باغ ہوں پھر ویران ہو کر کھجوروں کے لیے جگہ بن گئی ہو۔ وہ باغ عمرو کے بیٹوں سہل اور سہیل کے لیے تھا جو یتیم ہو چکے تھے اور وہ حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کی کفالت میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس باغ کی قیمت ادا کریں چنانچہ انھوں نے دس دینار بطور قیمت ادا کیے۔ 3۔رسول اللہ ﷺ کے آنے سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ ؓ وہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو کھجوروں کی چھڑیوں سے مسجد کا ڈھانچہ تیار کیا اور ہجرت کے چار سال بعد اینٹوں اور گارے سے تعمیر کیا۔ (فتح الباري:308/7) 4۔ چونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی ہجرت اور مدینہ تشریف لانے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا (دوسری سند) اور ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی، کہا کہ میں نے اپنے والد عبدالوارث سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ا بو التیاح یزید بن حمید ضبعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بلند جانب قباء کے ایک محلہ میں آپ نے (سب سے پہلے) قیام کیا جسے بنی عمرو بن عوف کا محلہ کہا جاتا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ حضور ﷺ نے وہاں چودہ رات قیام کیا پھر آپ نے قبیلہ بنی النجار کے لوگوں کو بلا بھیجا۔ انہوں نے بیان کیا کہ انصاربنی النجار آپ کی خدمت میں تلواریں لٹکا ئے ہوئے حاضر ہوئے۔ راوی نے بیان کیا گویا اس وقت بھی وہ منظر میری نظروں کے سامنے ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی سواری پر سوار ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اسی سواری پر آپ کے پیچھے سوار ہیں اور بنی النجار کے انصار آپ کے چاروں طرف حلقہ بنائے ہوئے مسلح پیدل چلے جارہے ہیں۔ آخر آپ حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر کے قریب اتر گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ ابھی تک جہاں بھی نماز کا وقت ہوجاتا وہیں آپ نماز پڑھ لیتے تھے۔ بکریوں کے ریوڑ جہاں رات کو باندھے جاتے وہاں بھی نماز پڑھ لی جاتی تھی۔ بیان کیا کہ پھر حضور ﷺ نے مسجد کی تعمیر کا حکم فرمایا۔ آپ نے اس کے لئے قبیلہ بنی النجار کے لوگوں کو بلا بھیجا۔ وہ حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: اے بنو النجار! اپنے اس باغ کی قیمت طے کرلو۔ انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت اللہ کے سوا اور کسی سے نہیں لے سکتے۔ راوی نے بیان کیا کہ اس باغ میں وہ چیزیں تھیں جو میں تم سے بیان کروں گا۔ اس میں مشرکین کی قبریں تھیں، کچھ اس میں کھنڈر تھا اور کھجوروں کے درخت بھی تھے۔ آنحضرت ﷺ کے حکم سے مشرکین کی قبریں اکھاڑ دی گئیں، جہاں کھنڈر تھا اسے برابر کیا گیا اور کھجوروں کے درخت کاٹ دیئے گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ کھجور کے تنے مسجد کی طرف ایک قطار میں بطور دیوار رکھ دیئے گئے اور دروازہ میں (چوکھٹ کی جگہ) پتھر رکھ دیئے، حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ صحابہ جب پتھر ڈھو رہے تھے تو شعر پڑھتے جاتے تھے آنحضرت ﷺ بھی ان کے ساتھ خود پتھر ڈھوتے اور شعر پڑھتے۔ صحابہ یہ شعر پڑھتے کہ اے اللہ! آخرت ہی کی خیر، خیر ہے، پس تو انصار اور مہاجرین کی مدد فر ما۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ترجمہ میں حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے الفاظ ویُصلي في مرابضِ الغنمِ کا ترجمہ چھوڑ دیا ہے، غالباً مرحوم کا یہ سہو ہے۔ اس حدیث میں بھی ہجرت کا ذکر ہے یہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): When Allah's Apostle (ﷺ) arrived at Medina, he alighted at the upper part of Madinah among the people called Bani 'Amr bin 'Auf and he stayed with them for fourteen nights. Then he sent for the chiefs of Bani An-Najjar, and they came, carrying their swords. As if I am just now looking at Allah's Apostle (ﷺ) on his she-camel with Abu Bakr (RA) riding behind him (on the same camel) and the chiefs of Bani An-Najjar around him till he dismounted in the courtyard of Abu Aiyub's home. The Prophet (ﷺ) used to offer the prayer wherever the prayer was due, and he would pray even in sheepfolds. Then he ordered that the mosque be built. He sent for the chiefs of Banu An-Najjar, and when they came, he said, "O Banu An-Najjar! Suggest to me the price of this garden of yours." They replied "No! By Allah, we do not demand its price except from Allah." In that garden there were the (following) things that I will tell you: Graves of pagans, unleveled land with holes and pits etc., and date-palm trees. Allah's Apostle (ﷺ) ordered that the graves of the pagans be dug up and, the unleveled land be leveled and the date-palm trees be cut down. The trunks of the trees were arranged so as to form the wall facing the Qibla. The Stone pillars were built at the sides of its gate. The companions of the Prophet (ﷺ) were carrying the stones and reciting some lyrics, and Allah's Apostle (ﷺ) . . was with them and they were saying, "O Allah! There is no good Excel the good of the Hereafter, so bestow victory on the Ansar and the Emigrants. "