باب: غزوئہ احزاب سے نبی کریم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنااور ان کا محاصرہ کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The return of the Prophet (saws) from Ahzab and his going out to Bani Quraiza)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4119.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے احزاب کے دن فرمایا: ’’ہر شخص نماز عصر بنو قریظہ پہنچ کر ہی ادا کرے۔‘‘ بعض حضرات کو نماز عصر کا وقت راستے میں آ گیا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ پہنچ کر ہی نماز ادا کریں گے جبکہ بعض نے کہا: ہم تو ابھی نماز پڑھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ہمارے متعلق یہ ارادہ نہیں کیا کہ ہم نماز نہ پڑھیں۔ بعد میں نبی ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے کسی پر بھی خفگی کا اظہار نہ فرمایا۔
تشریح:
1۔ جب رسول اللہ ﷺ غزو ہ خندق سے کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے تو ظہر کے وقت حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور کہا: آپ کے لیے اللہ کا حکم یہ ہے کہ آپ فوراً بنوقریظہ پر فوج کشی کریں، چنانچہ آپ نے حضرت بلال ؓ کو اعلان کرنے کا حکم دیا کہ جو بھی سمع واطاعت کا خوگر ہے اسے چاہیے کہ وہ نمازعصر بنوقریظہ پہنچ کر ادا کرے۔ راستے میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے والے دونوں فریق اجروثواب کےحقدار ہوئے لیکن جن لوگوں نے نماز کا وقت ہونے پر راستے میں اد اکرلی انھوں نے دوفضیلتوں کو حاصل کرلیا: ایک بروقت نماز عصر ادا کرنے کی اوردوسری بنوقریظہ بروقت پہنچے کی جبکہ دوسرے فریق نے رسول اللہ ﷺ کے ظاہر فرمان کے پیش نظر نماز عصر تاخیر سے اداکی، اس لیے ان پر بھی کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی۔ (فتح الباري:512/7) 2۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کے متعلق حکم دیا کہ اسے بنوقریظہ پہنچ کر ادا کیاجائے۔ (صحیح مسلم، الجھاد والسیر، حدیث:4602) ان روایات میں تضاد نہیں کیونکہ جن لوگوں نے نمازظہر پڑھ لی تھی انھیں فرمایا کہ نمازعصر بنوقریظہ جا کر ادا کریں اور جنھوں نے ابھی نماز ظہر نہ پڑھی تھی انھیں حکم دیا کہ نماز ظہر بنوقریظہ پہنچ کر پڑھیں۔ (فتح الباري:511/7) 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجتہد سے غلط اور صحیح دونوں صادر ہوسکتے ہیں اور خطا صادر ہونے پر اسے گناہگار نہیں قراردیا جاسکتا مگر جب اسے قرآن وحدیث سے ا پنی اجتہادی غلطی کا علم ہوجائے تواسے اجتہاد ترک کرنا اورکتاب وسنت پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3966
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4119
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4119
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4119
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مختلف قبائل سے صلح کرکے انھیں اپنا حلیف بنالیاتھا۔بنوقریظہ بھی ان میں شامل تھے لیکن غزوہ احزاب کے موقع پر کفار قریش اور قبائل غطفان سے ساز باز کرکے بنوقریظہ نے مسلمانوں سے غداری کی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ ہجری 23 ذوالقعدہ کو تین ہزار مجاہدین اور چھتیس گھوڑوں کے ساتھ بنوقریظہ پرچڑھائی کی۔جب انھیں پتہ چلا کہ ہم مسلمانوں کے غضب کا نشانہ بنیں گے توخیبر کے رئیس حی بن اخطب کے ہمراہ قلعہ بند ہوگئے۔رسول اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پچیس دن تک ان کا محاصرہ کیا۔اس عنوان کے تحت بنوقریظہ کے متعلق احادیث بیان ہوں گی۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے احزاب کے دن فرمایا: ’’ہر شخص نماز عصر بنو قریظہ پہنچ کر ہی ادا کرے۔‘‘ بعض حضرات کو نماز عصر کا وقت راستے میں آ گیا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ پہنچ کر ہی نماز ادا کریں گے جبکہ بعض نے کہا: ہم تو ابھی نماز پڑھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ہمارے متعلق یہ ارادہ نہیں کیا کہ ہم نماز نہ پڑھیں۔ بعد میں نبی ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے کسی پر بھی خفگی کا اظہار نہ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ جب رسول اللہ ﷺ غزو ہ خندق سے کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے تو ظہر کے وقت حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور کہا: آپ کے لیے اللہ کا حکم یہ ہے کہ آپ فوراً بنوقریظہ پر فوج کشی کریں، چنانچہ آپ نے حضرت بلال ؓ کو اعلان کرنے کا حکم دیا کہ جو بھی سمع واطاعت کا خوگر ہے اسے چاہیے کہ وہ نمازعصر بنوقریظہ پہنچ کر ادا کرے۔ راستے میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے والے دونوں فریق اجروثواب کےحقدار ہوئے لیکن جن لوگوں نے نماز کا وقت ہونے پر راستے میں اد اکرلی انھوں نے دوفضیلتوں کو حاصل کرلیا: ایک بروقت نماز عصر ادا کرنے کی اوردوسری بنوقریظہ بروقت پہنچے کی جبکہ دوسرے فریق نے رسول اللہ ﷺ کے ظاہر فرمان کے پیش نظر نماز عصر تاخیر سے اداکی، اس لیے ان پر بھی کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی۔ (فتح الباري:512/7) 2۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کے متعلق حکم دیا کہ اسے بنوقریظہ پہنچ کر ادا کیاجائے۔ (صحیح مسلم، الجھاد والسیر، حدیث:4602) ان روایات میں تضاد نہیں کیونکہ جن لوگوں نے نمازظہر پڑھ لی تھی انھیں فرمایا کہ نمازعصر بنوقریظہ جا کر ادا کریں اور جنھوں نے ابھی نماز ظہر نہ پڑھی تھی انھیں حکم دیا کہ نماز ظہر بنوقریظہ پہنچ کر پڑھیں۔ (فتح الباري:511/7) 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجتہد سے غلط اور صحیح دونوں صادر ہوسکتے ہیں اور خطا صادر ہونے پر اسے گناہگار نہیں قراردیا جاسکتا مگر جب اسے قرآن وحدیث سے ا پنی اجتہادی غلطی کا علم ہوجائے تواسے اجتہاد ترک کرنا اورکتاب وسنت پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبد اللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا‘ کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ غزوئہ احزاب (سے فارغ ہوکر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمام مسلمان عصر کی نماز بنو قریظہ تک پہنچنے کے بعد ہی ادا کریں۔ بعض حضرات کی عصر کی نماز کا وقت راستے ہی میں ہو گیا۔ ان میں سے کچھ صحابہ ؓ نے تو کہا کہ ہم راستے میں نماز نہیں پڑھیں گے۔ (کیونکہ حضور ﷺ نے بنو قریظہ میں نماز عصر پڑھنے کے لیے فرمایا ہے۔) اور بعض صحابہ نے کہا کہ حضور ﷺ کے ارشاد کا منشا یہ نہیں تھا۔ بعد میں حضور ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے کسی پر خفگی نہیں فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
جب رسول کریم ﷺ غزوئہ خندق سے کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے تو ظہر کے وقت حضرت جبریل ؑ تشریف لا کر کہنے لگے کہ اللہ تعالی کا حکم آپ کے لیے یہ ہے کہ آپ فوراًبنو قریظہ کی طرف چلیں ۔ آپ نے حضرت بلال ؓ کو پکارنے کے لیے حکم فرمایا کہ من کان سامعا مطیعا فلا یصلین العصر إلا في بني قریظة۔ یعنی جو بھی سننے والا فرمانبردارمسلمان ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عصرکی نماز بنی قریظہ میں پہنچ کر پڑھے۔وقال ابن القیم في الھدي ما حصله کل من الفریقین ما جور بقصدہ إلا أن من صلی حاز الفضیلتین امتثال الأمر في الإسراع وامتثال الأمر في المحافظة علی الوقت ولا سیما ما في ھذہ الصلاة بعینها من الحث علی المحافظة علیها وإن من فاته حبط و إنما لم یعنف الذین أخروھا لقیام عذرھم في التمسك بظاهر الأمر اجتھدوا فأخروا لامتثالھم الأمر لکنھم لم یصلوا إلی أن یکون اجتھادھم أصوب من اجتھادالطائفة الأخری الخ وقد استدل به الجمھور علی عدم تأثیم من اجتھد لأنه صلی اللہ علیه وسلم لم یعنف أحدا من الطائفتین فلو کا ن ھناك أثم لعنف من أثم(فتح الباري)خلاصہ یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اعلان کرایا کہ جو بھی مسلمان سننے والا اور فرمانبرداری کرنے والا ہے اس کا فرض ہے کہ نماز عصر بنوقریظہ ہی میں ادا کرے۔ علامہ ابن قیم ؒ نے زاد المعاد میں کہا ہے کہ دونوں فریق اجر وثواب کے حقدار ہوئے۔ مگر جس نے وقت ہونے پر راستہ ہی میں نماز ادا کرلی اس نے دونوں فضیلتوں کو حاصل کر لیا۔ پہلی فضیلت نماز عصر کی اس کے اول وقت میں ادا کرنے کی کیونکہ اس نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنے کی خاص تاکید ہے اور یہاں تک ہے کہ جس کی نماز عصر فوت ہو گئی اس کا عمل ضائع ہو گیا۔ اس طرح اس فریق کو اول وقت نماز پڑھنے اور پھر بنو قریظہ پہنچ جانے کا ثواب حاصل ہوا اور دوسرا فریق جس نے نمازعصر میں تاخیر کی اور ظاہر فرما ن رسول پر عمل کیا ان پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی کیو نکہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے فرمان رسالت پر عمل کرنے کے لیے نماز کو تاخیر سے بنو قریظہ ہی میں جاکر ادا کیا۔ ان کا اجتہاد پہلی جماعت سے زیادہ صواب کے قریب رہا۔ اسی سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ اجتہاد کرنے والا گنہگار نہیں ہے۔ (اگر وہ اجتہاد میں غلطی بھی کر جائے۔) اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے دونوں قسم کے لوگوں میں سے کسی پر بھی نکتہ چینی نہیں فرمائی۔ اگر ان میں کوئی گنہگار قرار پاتا تو آنحضرت ﷺ ضرور اس کو تنبیہ فرماتے۔ راقم الحروف کہتا ہے کہ اس بنا پر یہ اصول قرار پایا کہ المجتھد قد یخطی ویصیب مجتہد سے خطااور ثواب دونوں ہو سکتے ہیں اور خطا پر بھی گنہگار قرار نہیں دیا جا سکتا مگر جب اس کو قرآن و حدیث سے اپنے اجتہادی غلطی کی اطلاع ہو جائے تو اس پر اجتہاد کا ترک کرنا اور کتاب و سنت پر عمل کرنا واجب ہو جاتا ہے اسی لیے مجتہدین امت ائمہ اربعہ ؒ نے واضح لفظوں میں وصیت کر دی ہے کہ ہمارے اجتہادی فتاوی اگر کتاب وسنت سے کسی جگہ ٹکرائیں تو کتاب وسنت کو مقدم رکھو اور ہمارے اجتہادی غلط فتاووں کو چھوڑ دو۔ مگر افسوس ہے کہ ان کے پیرو کاروں نے ان کی اس قیمتی وصیت کو پس پشت ڈال کر ان کی تقلید پر ایسا جمود اختیار کیا کہ آج مذاہب اربعہ ایک الگ الگ دین الگ الگ امت نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ: دین حق را چار مذہب سا ختند آج جبکہ یہ چودھویں صدی ختم ہونے جارہی ہے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان فرضی گروہ بندیوں کو ختم کر کے کلمہ اور قرآن اور قبلہ پر اتحا د امت قائم کریں ورنہ حالات اس قدر نازک ہیں کہ اس افتراق وانشقاق کے نتیجہ بد میں مسلمان اور بھی زیادہ ہلاک وبرباد ہو جائیں گے۔ وما علینا إلا البلاغ المبین والحمد للہ رب العالمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): On the day of Al-Ahzab (i.e. Clans) the Prophet (ﷺ) said, "None of you Muslims) should offer the 'Asr prayer but at Banu Quraiza's place." The 'Asr prayer became due for some of them on the way. Some of those said, "We will not offer it till we reach it, the place of Banu Quraiza," while some others said, "No, we will pray at this spot, for the Prophet (ﷺ) did not mean that for us." Later on It was mentioned to the Prophet (ﷺ) and he did not berate any of the two groups.