Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of Al-Hudaibiya)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح میں) ارشاد ”بیشک اللہ تعالیٰ مومنین سے راضی ہو گیا جب انہوں نے آپ سے درخت کے نیچے بیعت کی۔“
4180.
امام ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہوں نے حضرت مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ ؓ سے سنا، وہ دونوں رسول اللہ ﷺ سے عمرہ حدیبیہ کا قصہ بیان کرتے ہیں (امام زہری نے کہا:) عروہ نے مجھے ان دونوں سے جو خبر دی اس میں یہ بھی تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے دن سہیل بن عمرو سے ایک مقررہ مدت تک کے لیے صلح نامہ لکھنے کا ارادہ کیا تو سہیل بن عمرو کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ آپ کے پاس ہم سے جو شخص بھی آئے گا، اگرچہ وہ آپ کے دین پر ہو، آپ کو اسے ہمارے پاس واپس کرنا ہو گا۔ آپ ہمارے اور اس کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کریں گے۔ سہیل، اسی شرط پر رسول اللہ ﷺ سے صلح کرنے میں اڑا رہا لیکن مسلمان اس شرط پر صلح کرنے سے بہت کبیدہ خاطر تھے۔ وہ اسے بہت گراں خیال کرتے تھے اور اس بارے میں گفتگو کر رہے تھے جبکہ سہیل کو اسی شرط پر رسول اللہ ﷺ سے صلح کرنے پر اصرار تھا۔ بالآخر رسول اللہ ﷺ نے یہ شرط بھی صلح نامہ میں لکھ دی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسی دن سہیل کے بیٹے حضرت ابو جندل ؓ کو اس کے باپ سہیل بن عمرو کے پاس لوٹا دیا، بلکہ اس کے بعد جو بھی مرد مسلمان ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آتا آپ اسے معینہ مدت میں واپس کرتے رہے۔ اس دوران میں کچھ اہل ایمان خواتین (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں۔ عقبہ بن ابی معیط کی بیٹی حضرت ام کلثوم ؓ بھی ان مہاجر خواتین میں سے تھیں جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہجرت کر کے آئی تھیں اور وہ نوجوان عورت تھیں۔ اس کے اہل خانہ آئے اور رسول اللہ ﷺ سے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے مہاجر خواتین کے متعلق آیات نازل فرمائیں۔
تشریح:
1۔ مقام حدیبیہ میں جو دفعات صلح طے ہوئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر محمد ﷺ کے پاس جائے گا وہ اسے واپس کردیں گے لیکن محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس آئے گا وہ اسے واپس نہیں کریں گے۔ ابھی صلح نامے کی تحریر مکمل نہیں ہوئی تھی کہ سہیل نے بیٹے ابوجندل ؓ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے وہاں آپہنچے، انھوں نے خود کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دیا۔ اس پر سہیل نے کہا: یہ پہلا شخص ہے جس کی واپسی کا میں مطالبہ کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی تو ہم نے صلح نامے کی تحریر مکمل نہیں کی۔‘‘ بہرحال سہیل کے اصرار پر ابوجندل ؓ کو واپس کردیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ’’ابوجندل! صبر کرو اور اسے باعث ثواب خیال کرو۔اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ پیدا کرے گا۔ ہم نے چونکہ قریش سے صلح کرلی ہے۔ اس لیے ہم بدعہدی نہیں کرسکتے۔‘‘ 2۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ ایماندار عورتیں ہجرت کر کے مدینے آئیں تو ان کے گھر والوں نے معاہدے کی رو سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ مطالبہ اس دلیل کی بنیاد پر مستردکردیا کہ واپسی کی دفعہ کا اطلاق مردوں پر ہوتا ہے عورتوں پر نہیں کیونکہ اس کے الفاظ یہ تھے: ’’ہماری جو آدمی آپ کے پاس آجائےگا آپ اسے لازمی طور پر واپس کردیں گے خواہ وہ آپ ہی کےدین پر کیوں نہ ہو۔‘‘ نیز قرآن کریم میں صراحت ہے کہ اگر تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ عورتیں فی الواقع ایماندار ہیں تو انھیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، ایسی عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں اور نہ کافر ہی ان کےلیے حلال ہیں۔ (الممتحنة:10/60) اس سے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، لہذا ام کلثوم ؓ سمیت دوسری مہاجر عورتیں واپس نہیں کی گئیں۔ 3۔ صلح حدیبیہ کی تفصیلات اورحضرت ابوبصیر ؓ کا واقعہ جاننے کے لیے صحیح بخاری حدیث 2732 کا مطالعہ کریں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4018
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4180
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4180
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4180
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
حدیبیہ،مکہ مکرمہ کے قریب ایک چشمے کانام ہے۔غزوہ خندق کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سمیت اس مقام پر پڑاؤ کیا تھا۔آ پ عمرے کی نیت سے آئے تھے لیکن کفار قریش نے آپ کو عمرہ نہ کرنے دیا۔مقام حدیبیہ میں درخت کے نیچے آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بیعت لی تھی،جوبیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔مذکورہ آیت کریمہ اسی موقع پر نازل ہوئی۔واللہ اعلم۔
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح میں) ارشاد ”بیشک اللہ تعالیٰ مومنین سے راضی ہو گیا جب انہوں نے آپ سے درخت کے نیچے بیعت کی۔“
حدیث ترجمہ:
امام ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہوں نے حضرت مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ ؓ سے سنا، وہ دونوں رسول اللہ ﷺ سے عمرہ حدیبیہ کا قصہ بیان کرتے ہیں (امام زہری نے کہا:) عروہ نے مجھے ان دونوں سے جو خبر دی اس میں یہ بھی تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے دن سہیل بن عمرو سے ایک مقررہ مدت تک کے لیے صلح نامہ لکھنے کا ارادہ کیا تو سہیل بن عمرو کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ آپ کے پاس ہم سے جو شخص بھی آئے گا، اگرچہ وہ آپ کے دین پر ہو، آپ کو اسے ہمارے پاس واپس کرنا ہو گا۔ آپ ہمارے اور اس کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کریں گے۔ سہیل، اسی شرط پر رسول اللہ ﷺ سے صلح کرنے میں اڑا رہا لیکن مسلمان اس شرط پر صلح کرنے سے بہت کبیدہ خاطر تھے۔ وہ اسے بہت گراں خیال کرتے تھے اور اس بارے میں گفتگو کر رہے تھے جبکہ سہیل کو اسی شرط پر رسول اللہ ﷺ سے صلح کرنے پر اصرار تھا۔ بالآخر رسول اللہ ﷺ نے یہ شرط بھی صلح نامہ میں لکھ دی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسی دن سہیل کے بیٹے حضرت ابو جندل ؓ کو اس کے باپ سہیل بن عمرو کے پاس لوٹا دیا، بلکہ اس کے بعد جو بھی مرد مسلمان ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آتا آپ اسے معینہ مدت میں واپس کرتے رہے۔ اس دوران میں کچھ اہل ایمان خواتین (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں۔ عقبہ بن ابی معیط کی بیٹی حضرت ام کلثوم ؓ بھی ان مہاجر خواتین میں سے تھیں جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہجرت کر کے آئی تھیں اور وہ نوجوان عورت تھیں۔ اس کے اہل خانہ آئے اور رسول اللہ ﷺ سے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے مہاجر خواتین کے متعلق آیات نازل فرمائیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مقام حدیبیہ میں جو دفعات صلح طے ہوئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر محمد ﷺ کے پاس جائے گا وہ اسے واپس کردیں گے لیکن محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس آئے گا وہ اسے واپس نہیں کریں گے۔ ابھی صلح نامے کی تحریر مکمل نہیں ہوئی تھی کہ سہیل نے بیٹے ابوجندل ؓ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے وہاں آپہنچے، انھوں نے خود کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دیا۔ اس پر سہیل نے کہا: یہ پہلا شخص ہے جس کی واپسی کا میں مطالبہ کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی تو ہم نے صلح نامے کی تحریر مکمل نہیں کی۔‘‘ بہرحال سہیل کے اصرار پر ابوجندل ؓ کو واپس کردیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ’’ابوجندل! صبر کرو اور اسے باعث ثواب خیال کرو۔اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ پیدا کرے گا۔ ہم نے چونکہ قریش سے صلح کرلی ہے۔ اس لیے ہم بدعہدی نہیں کرسکتے۔‘‘ 2۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ ایماندار عورتیں ہجرت کر کے مدینے آئیں تو ان کے گھر والوں نے معاہدے کی رو سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ مطالبہ اس دلیل کی بنیاد پر مستردکردیا کہ واپسی کی دفعہ کا اطلاق مردوں پر ہوتا ہے عورتوں پر نہیں کیونکہ اس کے الفاظ یہ تھے: ’’ہماری جو آدمی آپ کے پاس آجائےگا آپ اسے لازمی طور پر واپس کردیں گے خواہ وہ آپ ہی کےدین پر کیوں نہ ہو۔‘‘ نیز قرآن کریم میں صراحت ہے کہ اگر تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ عورتیں فی الواقع ایماندار ہیں تو انھیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، ایسی عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں اور نہ کافر ہی ان کےلیے حلال ہیں۔ (الممتحنة:10/60) اس سے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، لہذا ام کلثوم ؓ سمیت دوسری مہاجر عورتیں واپس نہیں کی گئیں۔ 3۔ صلح حدیبیہ کی تفصیلات اورحضرت ابوبصیر ؓ کا واقعہ جاننے کے لیے صحیح بخاری حدیث 2732 کا مطالعہ کریں۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی: "بلاشبہ یقینا اللہ تعالٰی اہل ایمان سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے ۔۔"
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھتیجے ابن شہاب نے بیان کیا‘ ان سے ان کے چچا محمد بن مسلم بن شہاب نے کہا کہ مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ ؓ سے سنا‘ دونوں راویوں نے رسول اللہ ﷺ سے عمرہ حدیبیہ کے بارے میں بیان کیا تو عروہ نے مجھے اس میں جو کچھ خبر دی تھی‘ اس میں یہ بھی تھا کہ جب حضور اکرم ﷺ اور (قریش کا نمائندہ) سہیل بن عمرو حدیبیہ میں ایک مقررہ مدت تک کے لیے صلح کی دستاویز لکھ رہے تھے اور اس میں سہیل نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ ہمارا اگر کوئی آدمی آپ کے یہاں پناہ لے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہوجائے تو آپ کو اسے ہمارے حوالے کرنا ہی ہوگا تاکہ ہم اس کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ سہیل اس شرط پر اڑگیا اور کہنے لگا کہ حضور اکرم ﷺ اس شرط کو قبول کر لیں اور مسلمان اس شرط پر کسی طرح راضی نہ تھے‘ مجبوراً انہوں نے اس پر گفتگو کی (کہا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ مسلمان کو کافر کے سپرد کردیں) سہیل نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا تو صلح بھی نہیں ہوسکتی۔ آنحضرت ﷺ نے یہ شرط بھی تسلیم کر لی اور ابو جندل بن سہیل ؓ کو ان کے والد سہیل بن عمرو کے سپرد کر دیا (جو اسی وقت مکہ سے فرار ہوکر بیڑی کو گھسیٹتے ہوئے مسلمانوں کے پاس پہنچے تھے) (شرط کے مطابق مدت صلح میں مکہ سے فرار ہوکر) جو بھی آتا حضور ﷺ اسے واپس کردیتے‘ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوتا۔ اس مدت میں بعض مومن عورتیں بھی ہجرت کرکے مکہ سے آئیں‘ ام کلثوم بنت عقبہ ابن ابی معیط بھی ان میں سے ہیں جو اس مدت میں حضور اکرم ﷺ کے پاس آئی تھیں‘ وہ اس وقت نوجوان تھیں‘ ان کے گھر والے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے مطالبہ کیا کہ انہیں واپس کردیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے بارے میں وہ آیت نازل کی جو شرط کے مناسب تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Urwa bin Az-Zubair (RA) : That he heard Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama relating one of the events that happened to Allah's Apostle (ﷺ) in the 'Umra of Al-Hudaibiya. They said, "When Allah's Apostle (ﷺ) concluded the truce with Suhail bin 'Amr on the day of Al-Hudaibiya, one of the conditions which Suhail bin 'Amr stipulated, was his saying (to the Prophet), "If anyone from us (i.e. infidels) ever comes to you, though he has embraced your religion, you should return him to us, and should not interfere between us and him." Suhail refused to conclude the truce with Allah's Apostle (ﷺ) except on this condition. The believers disliked this condition and got disgusted with it and argued about it. But when Suhail refused to conclude the truce with Allah's Apostle (ﷺ) except on that condition, Allah's Apostle (ﷺ) concluded it. Accordingly, Allah's Apostle (ﷺ) then returned Abu Jandal bin Suhail to his father, Suhail bin 'Amr, and returned every man coming to him from them during that period even if he was a Muslim. The believing women Emigrants came (to Medina) and Um Kulthum, the daughter of 'Uqba bin Abi Mu'ait was one of those who came to Allah's Apostle (ﷺ) and she was an adult at that time. Her relatives came, asking Allah's Apostle (ﷺ) to return her to them, and in this connection, Allah revealed the Verses dealing with the believing (women). Aisha (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) used to test all the believing women who migrated to him, with the following Verse:-- "O Prophet! When the believing Women come to you, to give the pledge of allegiance to you." (60.12) 'Urwa's uncle said, "We were informed when Allah ordered His Apostle (ﷺ) to return to the pagans what they had given to their wives who lately migrated (to Medina) and we were informed that Abu Basir..." relating the whole narration.