Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Khaibar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4202.
حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ خیبر پر حملہ کرنے کے لیے نکلے یا کہا: جب رسول اللہ ﷺ خیبر کی طرف متوجہ ہوئے تو لوگوں نے ایک وادی پر چڑھ کر نعرہ تکبیر بلند کیا اور کہنے لگے: ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا إله الا اللہ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنے آپ پر کچھ نرمی کرو۔ تم کسی بہرے یا غیر حاضر کو نہیں پکار رہے بلکہ تم ایک خوب سننے والے اور انتہائی قریب اللہ کو پکار رہے ہو۔ وہ ہر لمحہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی سواری کے پیچھے تھا۔ آپ نے مجھے یہ کہتے ہوئے سنا: لا حول ولا قوة الا بالله تو مجھے فرمایا: ’’اے عبداللہ بن قیس!‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا میں تجھے ایک کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں آپ ضرور بتائیں، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپ نے فرمایا: ’’وہ لا حول ولا قوة الا بالله ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس قصے کے متعلق مختلف روایات ہیں کہ یہ غزوہ اُحد میں پیش آیا یا خیبر میں۔ آگے آنے والی حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں وضاحت ہے کہ خیبر کے وقت یہ واقعہ ہواتھا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو غزوہ خیبر کے عنوان میں بیان کرکے اپنا رجحان بتایا ہے کہ یہ واقعہ خیبر میں پیش آیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس شخص کا انجام بذریعہ وحی معلوم ہوچکا تھا کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے، یاخود کشی کو حلال سمجھنے کی وجہ سے مرتد ہے یا معصیت کی سزا بھگت کر بالآخر جہنم سے نکل آئے گا۔بہرحال انسان کو اپنے اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ آخری فیصلہ انسان کے انجام پر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہماراخاتمہ ایمان پرفرمائے۔ آمین
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4039
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4202
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4203
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4202
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
خیبر ایک بہت بڑا شہر ہے جو عمالقہ قوم خیبر نامی شخص کی یہاں اقامت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس میں بہت سے قلعے ہیں۔ یہ زرعی علاقہ اور زرخیز خطہ مدینہ طیبہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے 184کلو میٹر پر واقع ہے۔ اس مقام پر یہودی آباد تھے۔ آئے دن وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کر لیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غزوہ خیبر سے متعلقہ احادیث اس عنوان کے تحت بیان کی ہیں۔
حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ خیبر پر حملہ کرنے کے لیے نکلے یا کہا: جب رسول اللہ ﷺ خیبر کی طرف متوجہ ہوئے تو لوگوں نے ایک وادی پر چڑھ کر نعرہ تکبیر بلند کیا اور کہنے لگے: ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا إله الا اللہ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنے آپ پر کچھ نرمی کرو۔ تم کسی بہرے یا غیر حاضر کو نہیں پکار رہے بلکہ تم ایک خوب سننے والے اور انتہائی قریب اللہ کو پکار رہے ہو۔ وہ ہر لمحہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی سواری کے پیچھے تھا۔ آپ نے مجھے یہ کہتے ہوئے سنا: لا حول ولا قوة الا بالله تو مجھے فرمایا: ’’اے عبداللہ بن قیس!‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا میں تجھے ایک کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں آپ ضرور بتائیں، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپ نے فرمایا: ’’وہ لا حول ولا قوة الا بالله ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس قصے کے متعلق مختلف روایات ہیں کہ یہ غزوہ اُحد میں پیش آیا یا خیبر میں۔ آگے آنے والی حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں وضاحت ہے کہ خیبر کے وقت یہ واقعہ ہواتھا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو غزوہ خیبر کے عنوان میں بیان کرکے اپنا رجحان بتایا ہے کہ یہ واقعہ خیبر میں پیش آیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس شخص کا انجام بذریعہ وحی معلوم ہوچکا تھا کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے، یاخود کشی کو حلال سمجھنے کی وجہ سے مرتد ہے یا معصیت کی سزا بھگت کر بالآخر جہنم سے نکل آئے گا۔بہرحال انسان کو اپنے اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ آخری فیصلہ انسان کے انجام پر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہماراخاتمہ ایمان پرفرمائے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یعقوب بن عبد الرحمن نے بیان کیا‘ ان سے ابو حازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے لشکر کے ساتھ) مشرکین (یعنی) یہود خیبر کا مقابلہ کیا‘ دونوں طرف سے لوگوں نے جنگ کی‘ پھر جب آپ اپنے خیمے کی طرف واپس ہوئے اور یہودی بھی اپنے خیموں میں واپس چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی کے متعلق کسی نے ذکر کیا کہ یہودیوں کا کوئی بھی آدمی اگر انہیں مل جائے تو وہ اس کا پیچھا کرکے اسے قتل کئے بغیر نہیں رہتے۔ کہا گیا کہ آج فلاں شخص ہماری طرف سے جتنی بہادری اور ہمت سے لڑا ہے شاید اتنی بہادری سے کوئی بھی نہیں لڑا ہوگا لیکن حضور ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ ایک صحابی ؓ نے اس پر کہا کہ پھر میں ان کے ساتھ ساتھ رہوں گا، بیان کیا کہ پھر وہ ان کے پیچھے ہو لئے جہاں وہ ٹھہرتے یہ بھی ٹھہرجاتے اور جہاں وہ دوڑ کر چلتے یہ بھی دوڑنے لگتے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صاحب زخمی ہو گئے‘ انتہائی شدید طور پر اور چاہا کہ جلدی موت آجائے۔ اس لیے انہوں نے اپنی تلوار زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک سینہ کے مقابل کرکے اس پر گر پڑے اور اس طرح خود کشی کرلی۔ اب دوسرے صحابی (جو ان کی جستجو میں لگے ہوئے تھے) حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پوچھا کیا بات ہے؟ ان صحابی ؓ نے عرض کیا کہ جن کے متعلق ابھی آنحضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہیں تو لوگوں پر آپ کا یہ فرمانا بڑا شاق گزرا تھا‘ میں نے ان سے کہا کہ میں تمہارے لیے ان کے پیچھے پیچھے جاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ ایک موقع پر جب وہ شدید زخمی ہو گئے تو اس خواہش میں کہ موت جلدی آجائے اپنی تلوار انہوں نے زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک کو اپنے سینہ کے سامنے کرکے اس پر گر پڑ ے اور اس طرح انہوں نے خود اپنی جان کو ہلاک کردیا۔ اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ انسان زندگی بھر جنت والوں کے عمل کرتا ہے‘ حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرا شخص زندگی بھر اہل دوزخ کے عمل کرتا ہے‘ حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کو بذریعہ وحی اس شخص کا انجام معلوم ہوچکا تھا۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا ویسا ہی ہوا کہ وہ شخص خود کشی کرکے حرام موت مر گیا اور دوزخ میں داخل ہوا۔ اسی لیے انجام کا فکر ضروری ہے کہ فیصلہ انجام ہی کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ تعالی خاتمہ بالخیر نصیب کرے۔ اس حدیث میں جنگ خیبر کا ذکر ہے۔ یہی باب سے مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad As Saidi (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) (and his army) encountered the pagans and the two armies.,, fought and then Allah's Apostle (ﷺ) returned to his army camps and the others (i.e. the enemy) returned to their army camps. Amongst the companions of the Prophet (ﷺ) there was a man who could not help pursuing any single isolated pagan to strike him with his sword. Somebody said, "None has benefited the Muslims today more than so-and-so." On that Allah's Apostle (ﷺ) said, "He is from the people of the Hell-Fire certainly." A man amongst the people (i.e. Muslims) said, "I will accompany him (to know the fact)." So he went along with him, and whenever he stopped he stopped with him, and whenever he hastened, he hastened with him. The (brave) man then got wounded severely, and seeking to die at once, he planted his sword into the ground and put its point against his chest in between his breasts, and then threw himself on it and committed suicide. On that the person (who was accompanying the deceased all the time) came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "I testify that you are the Apostle of Allah (ﷺ) ." The Prophet (ﷺ) said, "Why is that (what makes you say so)?" He said "It is concerning the man whom you have already mentioned as one of the dwellers of the Hell-Fire. The people were surprised by your statement, and I said to them, "I will try to find out the truth about him for you." So I went out after him and he was then inflicted with a severe wound and because of that, he hurried to bring death upon himself by planting the handle of his sword into the ground and directing its tip towards his chest between his breasts, and then he threw himself over it and committed suicide." Allah's Apostle (ﷺ) then said, "A man may do what seem to the people as the deeds of the dwellers of Paradise but he is from the dwellers of the Hell-Fire and another may do what seem to the people as the deeds of the dwellers of the Hell-Fire, but he is from the dwellers of Paradise."