Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Khaibar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4230.
حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ یمن میں تھے جب ہمیں نبی ﷺ کی (مکہ سے) روانگی کی اطلاع ملی۔ ہم بھی ہجرت کر کے آپ کی طرف چل پڑے۔ ایک میں اور دو میرے بھائی۔ میں سب سے چھوٹا تھا۔ بھائیوں میں سے ایک کا نام ابو بردہ اور دوسرے کا نام ابو رہم تھا۔ انہوں نے کہا: ہمارے ساتھ ہماری قوم کے پچاس سے کچھ زیادہ یا انہوں نے کہا: تریپن (53) یا باون (52) افراد اور بھی تھے۔ ہم سب کشتی میں سوار ہوئے تو ہماری کشتی نے ہمیں نجاشی کی سرزمین حبشہ میں جا اتارا۔ وہاں ہماری ملاقات حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ سے ہوئی اور ہم نے ان کے پاس ہی قیام کیا۔ پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے تو نبی ﷺ سے اس وقت ملاقات ہوئی جب آپ خیبر فتح کر چکے تھے۔ دوسرے لوگ ہم اہل سفینہ سے کہنے لگے کہ ہم ہجرت کے اعتبار تم تم پر سبقت رکھتے ہیں۔ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ بھی ہمارے ساتھ آئی تھیں۔ وہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت حفصہ ؓ کے پاس ملاقات کے لیے گئیں جبکہ اسماء ؓ نے بھی نجاشی کی طرف جماعت مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ حضرت عمر ؓ حضرت حفصہ ؓ کے پاس آئے تو اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس ؓ بھی ان کے ہاں موجود تھیں۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت اسماء ؓا کو دیکھ کر پوچھا: یہ کون ہے؟ حضرت حفصہ ؓ نے کہا: یہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: وہی حبشہ سے ہجرت کر کے آنے والی؟ سمندری راستے سے آنے والی؟حضرت اسماء ؓ نے کہا: ہاں، وہی ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے، اس بنا پر ہم رسول اللہ ﷺ پر تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ یہ بات سن کر حضرت اسماء ؓ غصے میں آ گئیں اور کہنے لگیں: اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، تم میں سے اگر کوئی بھوکا ہوتا تو آپ اسے کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہلوں کو نصیحت کرتے تھے۔ لیکن ہم ایسی جگہ میں یا سرزمین حبشہ کے ایسے ایسے علاقے میں رہتے تھے جو نہ صرف دور تھا بلکہ دین اسلام سے وہاں نفرت تھی۔ یہ سب کچھ ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر برداشت کیا تھا۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت تک نہ تو کھانا کھاؤں گی اور نہ کچھ پیوں گی جب تک میں رسول اللہ ﷺ سے ان باتوں کا ذکر نہ کر لوں جو آپ نے کہی ہیں۔ وہاں ہمیں ایذا دی جاتی تھی اور ہم خوف و ہراس میں مبتلا رہتے تھے۔ میں یہ سب کچھ نبی ﷺ سے ضرور بیان کروں گی اور آپ سے دریافت کروں گی۔ اللہ کی قسم! میں نہ جھوٹ بولوں گی اور نہ غلط کہوں گی اور نہ اپنی طرف سے کوئی بات بڑھاؤں گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4065
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4230
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4230
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4230
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
خیبر ایک بہت بڑا شہر ہے جو عمالقہ قوم خیبر نامی شخص کی یہاں اقامت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس میں بہت سے قلعے ہیں۔ یہ زرعی علاقہ اور زرخیز خطہ مدینہ طیبہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے 184کلو میٹر پر واقع ہے۔ اس مقام پر یہودی آباد تھے۔ آئے دن وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کر لیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غزوہ خیبر سے متعلقہ احادیث اس عنوان کے تحت بیان کی ہیں۔
حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ یمن میں تھے جب ہمیں نبی ﷺ کی (مکہ سے) روانگی کی اطلاع ملی۔ ہم بھی ہجرت کر کے آپ کی طرف چل پڑے۔ ایک میں اور دو میرے بھائی۔ میں سب سے چھوٹا تھا۔ بھائیوں میں سے ایک کا نام ابو بردہ اور دوسرے کا نام ابو رہم تھا۔ انہوں نے کہا: ہمارے ساتھ ہماری قوم کے پچاس سے کچھ زیادہ یا انہوں نے کہا: تریپن (53) یا باون (52) افراد اور بھی تھے۔ ہم سب کشتی میں سوار ہوئے تو ہماری کشتی نے ہمیں نجاشی کی سرزمین حبشہ میں جا اتارا۔ وہاں ہماری ملاقات حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ سے ہوئی اور ہم نے ان کے پاس ہی قیام کیا۔ پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے تو نبی ﷺ سے اس وقت ملاقات ہوئی جب آپ خیبر فتح کر چکے تھے۔ دوسرے لوگ ہم اہل سفینہ سے کہنے لگے کہ ہم ہجرت کے اعتبار تم تم پر سبقت رکھتے ہیں۔ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ بھی ہمارے ساتھ آئی تھیں۔ وہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت حفصہ ؓ کے پاس ملاقات کے لیے گئیں جبکہ اسماء ؓ نے بھی نجاشی کی طرف جماعت مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ حضرت عمر ؓ حضرت حفصہ ؓ کے پاس آئے تو اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس ؓ بھی ان کے ہاں موجود تھیں۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت اسماء ؓا کو دیکھ کر پوچھا: یہ کون ہے؟ حضرت حفصہ ؓ نے کہا: یہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: وہی حبشہ سے ہجرت کر کے آنے والی؟ سمندری راستے سے آنے والی؟حضرت اسماء ؓ نے کہا: ہاں، وہی ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے، اس بنا پر ہم رسول اللہ ﷺ پر تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ یہ بات سن کر حضرت اسماء ؓ غصے میں آ گئیں اور کہنے لگیں: اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، تم میں سے اگر کوئی بھوکا ہوتا تو آپ اسے کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہلوں کو نصیحت کرتے تھے۔ لیکن ہم ایسی جگہ میں یا سرزمین حبشہ کے ایسے ایسے علاقے میں رہتے تھے جو نہ صرف دور تھا بلکہ دین اسلام سے وہاں نفرت تھی۔ یہ سب کچھ ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر برداشت کیا تھا۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت تک نہ تو کھانا کھاؤں گی اور نہ کچھ پیوں گی جب تک میں رسول اللہ ﷺ سے ان باتوں کا ذکر نہ کر لوں جو آپ نے کہی ہیں۔ وہاں ہمیں ایذا دی جاتی تھی اور ہم خوف و ہراس میں مبتلا رہتے تھے۔ میں یہ سب کچھ نبی ﷺ سے ضرور بیان کروں گی اور آپ سے دریافت کروں گی۔ اللہ کی قسم! میں نہ جھوٹ بولوں گی اور نہ غلط کہوں گی اور نہ اپنی طرف سے کوئی بات بڑھاؤں گی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن علاءنے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے برید بن عبد اللہ نے بیان کیا‘ ان سے ابو بردہ نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ جب ہمیں نبی کریم ﷺ کی ہجرت کے متعلق خبر ملی تو ہم یمن میں تھے۔ اس لیے ہم بھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میںہجرت کی نیت سے نکل پڑے۔ میں اور میرے دو بھائی‘ میں دونوں سے چھوٹا تھا۔ میرے ایک بھائی کا نام ابو بردہ ؓ تھا اور دوسرے کا ابو رہم۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اوپر پچاس یا انہوںنے یوں بیان کیا کہ تریپن (۳۵) یا باون (۲۵) میری قوم کے لوگ ساتھ تھے۔ ہم کشتی پر سوار ہوئے لیکن ہماری کشتی نے ہمیں نجاشی کے ملک حبشہ میں لا ڈالا۔ وہاں ہماری ملاقات جعفر بن ابی طالب ؓ سے ہوگئی‘ جو پہلے ہی مکہ سے ہجرت کر کے وہا ںپہنچ چکے تھے۔ ہم نے وہاں انہیں کے ساتھ قیام کیا‘ پھر ہم سب مدینہ ساتھ روانہ ہوئے۔ یہاں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب آپ خیبر فتح کر چکے تھے۔ کچھ لوگ ہم کشتی والوں سے کہنے لگے کہ ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے اور اسماءبنت عمیس ؓ جو ہمارے ساتھ مدینہ آئی تھیں‘ ام المومنین حفصہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں‘ ان سے ملاقات کے لیے وہ بھی نجاشی کے ملک میں ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کر کے چلی گئی تھیں۔ عمر ؓ بھی حفصہ ؓ کے گھر پہنچے۔ اس وقت اسماءبنت عمیس ؓ وہیں تھیں۔ جب عمر ؓ نے انہیں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ یہ کون ہیں؟ ام المومنین ؓ نے بتایا کہ اسماءبنت عمیس۔ عمر ؓ نے اس پر کہا اچھا وہی جو حبشہ سے بحری سفر کر کے آئی ہیں۔ اسماءؓ نے کہا کہ جی ہاں۔ عمر ؓ نے ان سے کہا کہ ہم تم لوگوں سے ہجرت میں آگے ہیں اس لیے رسول اللہ ﷺ سے ہم تمہارے مقابلہ میں زیادہ قریب ہیں۔ اسماءؓ اس پر بہت غصہ ہو گئیںاور کہا ہر گز نہیں‘ خدا کی قسم ! تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے ہو‘ تم میں جو بھوکے ہوتے تھے اسے آنحضور ﷺ کھانا کھلاتے تھے اور جونا واقف ہوتے اسے آنحضور ﷺ نصیحت و موعظت کیا کرتے تھے۔ لیکن ہم بہت دور حبشہ میں غیروں اور دشمنوں کے ملک میں رہتے تھے‘ یہ سب کچھ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کے راستے ہی میں تو کیا اور خدا کی قسم ! میں اس وقت تک نہ کھانا کھا ؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک تمہاری بات رسول اللہ ﷺ سے نہ کہہ لوں۔ ہمیں اذیت دی جاتی تھی‘ دھمکایا ڈرایا جاتا تھا‘ میں آنحضور ﷺ سے اس کا ذکر کروں گی اور آپ سے اس کے متعلق پوچھوں گی۔ خدا کی قسم نہمیں جھوٹ بولوں گی‘ نہ کج روی اختیار کروں گی اور نہ کسی (خلاف واقعہ بات کا) اضافہ کروں گی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : The news of the migration of the Prophet (ﷺ) (from Makkah to Medina) reached us while we were in Yemen. So we set out as emigrants towards him. We were (three) I and my two brothers. I was the youngest of them, and one of the two was Abu Burda, and the other, Abu Ruhm, and our total number was either 53 or 52 men from my people. We got on board a boat and our boat took us to Negus in Ethiopia. There we met Ja'far bin Abi Talib and stayed with him. Then we all came (to Medina) and met the Prophet (ﷺ) at the time of the conquest of Khaibar. Some of the people used to say to us, namely the people of the ship, "We have migrated before you." Asma' bint 'Umais who was one of those who had come with us, came as a visitor to Hafsah (RA), the wife the Prophet (ﷺ) . She had migrated along with those other Muslims who migrated to Negus. 'Umar came to Hafsah (RA) while Asma' bint 'Umais was with her. 'Umar, on seeing Asma,' said, "Who is this?" She said, "Asma' bint 'Umais," 'Umar said, "Is she the Ethiopian? Is she the sea-faring lady?" Asma' replied, "Yes." 'Umar said, "We have migrated before you (people of the boat), so we have got more right than you over Allah's Apostle (ﷺ) " On that Asma' became angry and said, "No, by Allah, while you were with Allah's Apostle (ﷺ) who was feeding the hungry ones amongst you, and advised the ignorant ones amongst you, we were in the far-off hated land of Ethiopia, and all that was for the sake of Allah's Apostle (ﷺ) . By Allah, I will neither eat any food nor drink anything till I inform Allah's Apostle (ﷺ) of all that you have said. There we were harmed and frightened. I will mention this to the Prophet (ﷺ) and will not tell a lie or curtail your saying or add something to it."