Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Khaibar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4232.
حضرت ابوبردہ ؓ نے حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں اشعری احباب کے قرآن پڑھنے کی آواز پہچان لیتا ہوں جبکہ وہ رات کے وقت آتے ہیں۔ اگرچہ میں نے دن کے وقت ان کی اقامت گاہوں کو نہیں دیکھا، تاہم ان کی آوازوں میں سے ان کی اقامت گاہوں کو پہچان لیتا ہوں۔ ان میں سے ایک حکیم ہیں کہ جب کہیں اس کی دشمنوں سے مڈبھیڑ ہو جاتی ہے تو ان سے کہتا ہے: میرے دوستوں کے کہنے کے مطابق تم تھوڑی دیر کے لیے ان کا انتظار کر لو۔‘‘
تشریح:
1۔حدیبیہ کے سال جب کفار کے ساتھ صلح ہوگئی تورسول اللہ ﷺ نے عمرو بن امیہ ضمری ؓ کو نجاشی کے پاس روانہ کیا کہ وہ جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں کو حبشے سے مدینہ طیبہ بھیج دے، چنانچہ نجاشی نے ان حضرات کو نہایت اعزاز واحترام سے واپس کیا۔جب یہ واپس آئے تورسول اللہ ﷺ اس وقت خیبر میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں خیبر کی غنیمت سےحصہ دیا۔ آپ نے انھیں حصہ دینے سے پہلے دیگرمجاہدین کو اعتماد میں لیا، ان سے گفتگو کی،پھر انھیں مال غنیمت میں شریک کیا۔ ( فتح الباری 603/7۔)2۔حضرت اسماء بنت عمیس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:اللہ کے رسول ﷺ ! لوگ ہم پر فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم اولین مہاجرین میں سے نہیں ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تمہاری دوہجرتیں ہیں: پہلے تم نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، پھر حبشہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔‘‘(فتح الباري:607/7۔) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سفینہ کو دوسرے مہاجرین اولین پر مطلقاً فضیلت حاصل ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھاہے کہ اس حیثیت سے ان کو برتری حاصل ہوگی، یہ جزوی فضیلت ہے جو کلی فضیلت کے منافی نہیں۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:261/8)3۔واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے جو باتیں حضرت اسماء ؓ سے کی تھیں، ان سے تفاخر مقصود نہ تھا بلکہ تحدیث نعمت کے طور پرایسا کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے ہجرت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ایسی گفتگو بسا اوقات ساتھیوں اور دوستوں میں ہوجاتی ہے، اس سے فخر ومباہات قطعاً مقصود نہیں۔ واللہ اعلم۔ 4۔امام بخاری ؒ نے غزوہ خیبر کی مناسبت سے یہ واقعہ بیان کیا ہے، دیگر تفصیلات کتاب الجہاد میں بیان ہوچکی ہیں۔ خیبر سے ملنی والی غنیمت اور اس کی تفصیل آئندہ احادیث میں بیان ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4066
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4232
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4232
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4232
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
خیبر ایک بہت بڑا شہر ہے جو عمالقہ قوم خیبر نامی شخص کی یہاں اقامت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس میں بہت سے قلعے ہیں۔ یہ زرعی علاقہ اور زرخیز خطہ مدینہ طیبہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے 184کلو میٹر پر واقع ہے۔ اس مقام پر یہودی آباد تھے۔ آئے دن وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کر لیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غزوہ خیبر سے متعلقہ احادیث اس عنوان کے تحت بیان کی ہیں۔
حضرت ابوبردہ ؓ نے حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں اشعری احباب کے قرآن پڑھنے کی آواز پہچان لیتا ہوں جبکہ وہ رات کے وقت آتے ہیں۔ اگرچہ میں نے دن کے وقت ان کی اقامت گاہوں کو نہیں دیکھا، تاہم ان کی آوازوں میں سے ان کی اقامت گاہوں کو پہچان لیتا ہوں۔ ان میں سے ایک حکیم ہیں کہ جب کہیں اس کی دشمنوں سے مڈبھیڑ ہو جاتی ہے تو ان سے کہتا ہے: میرے دوستوں کے کہنے کے مطابق تم تھوڑی دیر کے لیے ان کا انتظار کر لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔حدیبیہ کے سال جب کفار کے ساتھ صلح ہوگئی تورسول اللہ ﷺ نے عمرو بن امیہ ضمری ؓ کو نجاشی کے پاس روانہ کیا کہ وہ جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں کو حبشے سے مدینہ طیبہ بھیج دے، چنانچہ نجاشی نے ان حضرات کو نہایت اعزاز واحترام سے واپس کیا۔جب یہ واپس آئے تورسول اللہ ﷺ اس وقت خیبر میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں خیبر کی غنیمت سےحصہ دیا۔ آپ نے انھیں حصہ دینے سے پہلے دیگرمجاہدین کو اعتماد میں لیا، ان سے گفتگو کی،پھر انھیں مال غنیمت میں شریک کیا۔ ( فتح الباری 603/7۔)2۔حضرت اسماء بنت عمیس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:اللہ کے رسول ﷺ ! لوگ ہم پر فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم اولین مہاجرین میں سے نہیں ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تمہاری دوہجرتیں ہیں: پہلے تم نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، پھر حبشہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔‘‘(فتح الباري:607/7۔) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سفینہ کو دوسرے مہاجرین اولین پر مطلقاً فضیلت حاصل ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھاہے کہ اس حیثیت سے ان کو برتری حاصل ہوگی، یہ جزوی فضیلت ہے جو کلی فضیلت کے منافی نہیں۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:261/8)3۔واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے جو باتیں حضرت اسماء ؓ سے کی تھیں، ان سے تفاخر مقصود نہ تھا بلکہ تحدیث نعمت کے طور پرایسا کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے ہجرت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ایسی گفتگو بسا اوقات ساتھیوں اور دوستوں میں ہوجاتی ہے، اس سے فخر ومباہات قطعاً مقصود نہیں۔ واللہ اعلم۔ 4۔امام بخاری ؒ نے غزوہ خیبر کی مناسبت سے یہ واقعہ بیان کیا ہے، دیگر تفصیلات کتاب الجہاد میں بیان ہوچکی ہیں۔ خیبر سے ملنی والی غنیمت اور اس کی تفصیل آئندہ احادیث میں بیان ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو بردہ ؓ نے بیان کیا کہ اسماء ؓ نے بیان کیا کہ ابو موسیٰ ؓ مجھ سے اس حدیث کو بار بار سنتے تھے۔ ابو بردہ ؓ نے بیان کیا اور ان سے ابو موسیٰ ؓ نے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب میرے اشعری احباب رات میں آتے ہیں تو میں انکی قرآن کی تلاوت کی آواز پہچان جاتا ہوں۔ اگر چہ دن میں‘ میں نے ان کی اقامت گاہوں کو نہ دیکھا ہو لیکن جب رات میں وہ قرآن پڑھتے ہیں تو ان کی آواز سے میں ان کی اقامت گاہوں کو پہچان لیتا ہوں۔ میرے انہی اشعری احباب میں ایک مرد دانا بھی ہے کہ جب کہیں اس کی سواروں سے مڈ بھیڑ ہو جاتی ہے‘ یا آپ نے فرمایا کہ دشمن سے‘ تو ان سے کہتا ہے کہ میرے دوستوں نے کہا ہے کہ تم تھوڑی دیر کے لیے ان کا انتظار کرلو۔
حدیث حاشیہ:
روایت کے آخر میں ایک اشعری حکیم کا ذکر ہے حکیم ا س کا نام ہے یاوہ حکمت جاننے والا ہے۔ روایت کے آخر میں اس حکیم کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ساتھ لڑ نے کو تیار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حکیم بڑا بہادر ہے دشمنوں کے مقابلہ سے بھاگتا نہیں ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ ذرا صبر کرو ہم تم سے لڑنے کے لیے حاضر ہیں یا یہ مطلب ہے کہ وہ بڑی حکمت اور دانائی والا ہے۔ دشمنوں کو اس طرح ڈرا کر اپنے تئیں ان سے بچا لیتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اکیلا نہیں ہے اس کے ساتھی اور آرہے ہیں۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے جب وہ مسلمان سواروں سے ملتا ہے تو کہتا ہے ڈرا ٹھیرو یعنی ہمارے ساتھیوں کو جو پیدل ہیں آجا نے دو ہم تم سب مل کر کافروں سے لڑیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Burdah (RA): Abu Musa (RA) said, "The Prophet (ﷺ) said, "I recognize the voice of the group of Al- Ashariyun, when they recite the Qur'an, when they enter their homes at night, and I recognize their houses by (listening) to their voices when they are reciting the Qur'an at night although I have not seen their houses when they came to them during the day time. Amongst them is Hakim who, on meeting the cavalry or the enemy, used to say to them (i.e. the enemy). My companions order you to wait for them' ".