Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
()
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4304.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی تو اس عورت کی قوم حضرت اسامہ بن زید ؓ کے پاس گھبرائی ہوئی آئی تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے (اس کی معافی کے متعلق) اس کی سفارش کر دیں۔ عروہ نے کہا:جب حضرت اسامہ ؓ نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی تو آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم مجھ سے اللہ کی حد کے متعلق گفتگو کرتے ہو؟‘‘ حضرت اسامہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے (اس جسارت پر) دعائے مغفرت کر دیں۔ جب شام ہوئی تو رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی جس کے وہ لائق ہے، پھر فرمایا: ’’اما بعد! تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور چوری کر لیتا تو اس پر حد جاری کر دیتے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹوں گا۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم فرمایا۔ اس کے بعد اس عورت نے صدق دل سے توبہ کی اور نکاح کر لیا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد وہ میرے پاس آتی تو میں اس کی حاجت رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کرتی تھی۔
تشریح:
حدیث نمبر4304۔فوائد ومسائل:۔1۔روایت میں جس عورت کامقدمہ پیش ہوا اس کا نام فاطمہ مخزومیہ ہے۔ اس نے بعد میں بنو سلیم کے ایک شخص سے شادی کر لی تھی۔ 2۔بنو مخزوم کو اس کے چوری کرنے کے سلسلے میں پریشانی ہوئی تو انھوں نے حضرت اسامہ ؓ کو سفارش کرنے کے لیے تیار کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے اس عورت پر حد جاری کردی۔ ایک روایت میں ہے۔ (مسند أحمد:409/5) کہ بنو مخزوم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ پیش کش کی کہ ہم چالیس اوقیے چاندی بطور فدیہ دیتے ہیں آپ اس کا ہاتھ نہ کاٹیں تو آپ نے فرمایا:"اس پر حد جاری کر کے اسے پاک کردینا ہی اس کے لیےبہترہے۔'' (مسند أحمد:409/5)ایک روایت میں ہے کہ اس عورت کی قوم نے پانچ سو دینار بطور فدیہ پیش کیے لیکن رسول اللہ ﷺ نےاس کا ہاتھ کاٹ دیا تو اس عورت نے کہا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: "کیوں نہیں توبہ کرنے کے بعد توایسی ہے جیسے اس دن تھی جس دن اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔'' (مسند أحمد:177/2)3۔حد قائم کرنے کا دروازہ بند ہوتا ہے جیسا کہ سعودی عرب میں اس منظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں بھی اللہ کی حدود قائم ہوں گی جرائم بہت کم ہوں گے۔ 4۔چونکہ یہ واقعہ فتح مکہ کے دن پیش آیا تھا اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4129
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4304
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4304
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4304
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی تو اس عورت کی قوم حضرت اسامہ بن زید ؓ کے پاس گھبرائی ہوئی آئی تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے (اس کی معافی کے متعلق) اس کی سفارش کر دیں۔ عروہ نے کہا:جب حضرت اسامہ ؓ نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی تو آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم مجھ سے اللہ کی حد کے متعلق گفتگو کرتے ہو؟‘‘ حضرت اسامہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے (اس جسارت پر) دعائے مغفرت کر دیں۔ جب شام ہوئی تو رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی جس کے وہ لائق ہے، پھر فرمایا: ’’اما بعد! تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور چوری کر لیتا تو اس پر حد جاری کر دیتے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹوں گا۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم فرمایا۔ اس کے بعد اس عورت نے صدق دل سے توبہ کی اور نکاح کر لیا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد وہ میرے پاس آتی تو میں اس کی حاجت رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کرتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
حدیث نمبر4304۔فوائد ومسائل:۔1۔روایت میں جس عورت کامقدمہ پیش ہوا اس کا نام فاطمہ مخزومیہ ہے۔ اس نے بعد میں بنو سلیم کے ایک شخص سے شادی کر لی تھی۔ 2۔بنو مخزوم کو اس کے چوری کرنے کے سلسلے میں پریشانی ہوئی تو انھوں نے حضرت اسامہ ؓ کو سفارش کرنے کے لیے تیار کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے اس عورت پر حد جاری کردی۔ ایک روایت میں ہے۔ (مسند أحمد:409/5) کہ بنو مخزوم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ پیش کش کی کہ ہم چالیس اوقیے چاندی بطور فدیہ دیتے ہیں آپ اس کا ہاتھ نہ کاٹیں تو آپ نے فرمایا:"اس پر حد جاری کر کے اسے پاک کردینا ہی اس کے لیےبہترہے۔'' (مسند أحمد:409/5)ایک روایت میں ہے کہ اس عورت کی قوم نے پانچ سو دینار بطور فدیہ پیش کیے لیکن رسول اللہ ﷺ نےاس کا ہاتھ کاٹ دیا تو اس عورت نے کہا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: "کیوں نہیں توبہ کرنے کے بعد توایسی ہے جیسے اس دن تھی جس دن اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔'' (مسند أحمد:177/2)3۔حد قائم کرنے کا دروازہ بند ہوتا ہے جیسا کہ سعودی عرب میں اس منظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں بھی اللہ کی حدود قائم ہوں گی جرائم بہت کم ہوں گے۔ 4۔چونکہ یہ واقعہ فتح مکہ کے دن پیش آیا تھا اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبردی، انہیں یونس نے خبر دی ، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ غزوہ‘ فتح (مکہ) کے موقع پر ایک عورت نے نبی کریم ﷺ کے عہد میں چوری کرلی تھی۔ اس عورت کی قوم گھبرائی ہوئی اسامہ بن زید ؓ کے پاس آ ئی تاکہ وہ حضور ﷺ سے اس کی سفارش کردیں (کہ اس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نہ کاٹا جائے) عروہ نے بیان کیا کہ جب اسامہ ؓ نے اس کے بارے میں آنحضور ﷺ سے گفتگو کی تو آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آ پ نے فرمایا! تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو۔ اسامہ ؓ نے عرض کیا، میرے لیے دعاء مغفرت کیجئے، یا رسول اللہ ! پھر دو پہر بعد آنحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کے شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد فرمایا، اما بعد ! تم میں سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کوئی معززشخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کرلیتاا تو اس پر حد قائم کر تے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد ؓ بھی چوری کرلے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوںگا ۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے اس عورت کے لیے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ پھر اس عورت نے صدق دل سے توبہ کرلی اور شادی بھی کرلی ۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ بعد میں وہ میرے یہاں آتی تھیں۔ ان کو اور کوئی ضرورت ہوتی تو میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کردیتی۔
حدیث حاشیہ:
امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس عورت نے خود آنحضرت ﷺ سے عرض کیا تھا کہ حضور ﷺ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا آج تو تو ایسی ہے جیسے اس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ حدود اسلامی کا پس منظر ہی یہ ہے ان کے قائم ہونے کے بعد مجرم گناہ سے بالکل پاک صاف ہو کر مقبول الہی ہو جاتا ہے اور حدود کے قائم ہونے سے جرائم کا سد باب بھی ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ مملکت سعودیہ أیدھا اللہ بنصرہ میں موجود ہے، جہاں حدود شرعی قائم ہوتے ہیں۔ اس لیے جرائم بہت کم پائے جاتے ہیں۔ آیت شریفہ ﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ﴾(البقرة: 179) میں اسی طرف اشارہ ہے۔ روایت میں جس عورت کا مقدمہ مذکور ہے اس کا نام فاطمہ مخزومیہ تھا، بعد میں بنو سلیم کے ایک شخص سے اس نے شادی بھی کر لی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa bin Az-Zubair (RA) : A lady committed theft during the lifetime of Allah's Apostle (ﷺ) in the Ghazwa of Al-Fath, ((i.e. Conquest of Makkah). Her folk went to Usama bin Zaid to intercede for her (with the Prophet). When Usama interceded for her with Allah's Apostle, the color of the face of Allah's Apostle (ﷺ) changed and he said, "Do you intercede with me in a matter involving one of the legal punishments prescribed by Allah?" Usama said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Ask Allah's Forgiveness for me." So in the afternoon, Allah's Apostle (ﷺ) got up and addressed the people. He praised Allah as He deserved and then said, "Amma ba'du ! The nations prior to you were destroyed because if a noble amongst them stole, they used to excuse him, and if a poor person amongst them stole, they would apply (Allah's) Legal Punishment to him. By Him in Whose Hand Muhammad's soul is, if Fatima, the daughter of Muhammad stole, I would cut her hand." Then Allah's Apostle (ﷺ) gave his order in the case of that woman and her hand was cut off. Afterwards her repentance proved sincere and she got married. 'Aisha (RA) said, "That lady used to visit me and I used to convey her demands to Allah's Apostle