باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: “…and on the day of Hunain when you rejoiced at your great number….”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4318.
حضرت مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر آیا تو آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے آپ سے یہ درخواست کی کہ ان کے مال اور قیدی واپس کر دیے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’میرے ساتھ میرے صحابہ کرام بھی ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو اور دیکھو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ تم دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کر لو: قیدی لے لو یا مال واپس لے جاؤ۔ میں نے تمہارا انتظار کیا تھا۔‘‘ واقعی رسول اللہ ﷺ نے طائف سے واپسی پر تقریبا دس دن دن ان کا انتظار کیا تھا۔ آخر جب ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ انہیں صرف ایک چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ تب رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، مسلمانوں کو خطاب کیا۔ آپ نے پہلے اللہ کے شایان شان حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: ’’اما بعد! تمہارے بھائی تائب (مسلمان) ہو کر ہمارے پاس آئے ہیں، میری رائے یہ ہے کہ میں ان کے قیدی انہیں واپس کر دوں، لہذا تم میں سے جو کوئی اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہے وہ واپس کر دے، یہ بہتر ہے۔ اور جو لوگ اپنا حصہ نہ چھوڑنا چاہتے ہوں ان کا حق قائم رہے گا۔ اس کی صورت یہ ہو گی کہ اللہ تعالٰی سب سے پہلے ہمیں جو غنیمت عطا کرے گا اس میں سے ہم انہیں اس کے بدلے میں دے دیں گے۔‘‘ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم بخوشی قیدی آزاد کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے بخوشی اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی۔ تم سب اپنے خیموں میں واپس چلے جاؤ حتی کہ تمہارے نمائندہ حضرات تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔‘‘ چنانچہ تمام صحابہ چلے گئے۔ پھر ان کے نمائندوں نے ان سے بات کی اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صحابہ کرام ؓ کی رائے آپ سے عرض کی کہ وہ خوش ہیں اور فراخدلی سے اجازت دیتے ہیں۔ (امام زہری ؓ نے فرمایا: ) یہ واقعہ ہے جو قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق مجھے پہنچا ہے۔
تشریح:
1۔ عرب کا دستور تھا کہ جب وہ سخت لڑائی کا ارادہ کرتے تو اہل و عیال اور مال و مویشی اپنے ہمراہ لے آتے تاکہ لڑنے والے کو معلوم رہے کہ اگر اس نے شکست کھائی تو سب مال واسباب اور اہل عیال دشمن کے قبضے میں چلا جائے گا۔ بنو ہوازن نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا : "اگر اللہ نے چاہا تو یہ سب مال و متاع ہمارے پاس بطور غنیمت آئے گا۔" چنانچہ ایسا ہی ہوا گھمسان کی جنگ ہوئی قبیلہ ہوازن بری طرح شکست کھا کربھاگ نکلا ان کا مال واسباب اور بچے عورتیں سب مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کافی دن ان کا انتظار کیا آپ کی خواہش تھی کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ مسلمان ہو کر ہمارے پاس آئیں تو میں مجاہدین سے کہہ دوں گا۔ کہ ان کامال انھیں واپس کردیا جائے۔ لیکن جب انھوں نے کافی تاخیر کی تو آپ نے مقام جعرانہ میں مال غنیمت تقسیم کردیا۔ تقسیم کے بعد چوبیس افراد پر مشتمل ہوازن کا ایک وفد آیا جن میں ابو برقان سعدی بھی تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ان قیدیوں میں آپ کے دودھ کے رشتے سے آپ کی کئی مائیں، خالائیں، اور دودھ کی بہنیں ہیں، آپ ہم پر احسان فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو جواب دیا وہ حدیث میں مذکورہ ہے بہر حال آپ نے تمام قیدیوں کو آزادکردیا۔ (فتح الباري:43/8) قیدی واپس کرنے سے پہلے آپ نے مہاجرین سے مشورہ کیا تو انھوں نے عرض کی: ہمارا سب مال آپ کے لیے ہے انصار نے بھی یہی جواب دیا۔ اقرع بن حابس نے کہا: میں اور بنو تمیم اس پر راضی نہیں ہیں عیینہ نے کہا: میں اور بنو فزارہ بھی مال واپس دینے کے لیے تیار نہیں۔ عباس بن مرداس نے کہا کہ میں اور بنو سلیم بھی بخوشی ایسا نہیں کر سکتے۔ چونکہ یہ مال مجاہدین کا تھا اس لیے نبی ﷺ نے ان سے اجازت لینے کے لیے نمائندگی کا طریقہ اختیار کیا، اس طرح بنو ہوازن کے بچے اور عورتیں واپس کی گئی۔ (فتح الباري:43/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4140
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4318
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4318
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4318
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
حنین مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان عرفات کی طرف ایک وادی کا نام ہے۔دراصل یہ وادی ایک شخص کے نام سے موسوم ہے۔فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ مالک بن عوف نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے چند قبائل کو تیار کر رکھا ے جن میں ہوازن اور ثقیف سر فہرست ہیں۔ ان کی تعداد تقریباً چار ہزارتھی جبکہ مسلمانوں کی نفری بارہ ہزار پر مشتمل تھی۔ مسلمانوں کو کثرت پر کچھ غرور ہو گیا۔ کسی نے کہا:آج یہ قبائل ہم پر غلبہ نہیں پا سکتے۔یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی کیونکہ تعداد کی کثرت پر فتح و نصرت موقوف نہیں ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس غرور کو توڑنے کے لیے پہلے مسلمانوں کو سخت آزمائش سے دوچار کیا، اس کے بعد اس نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل اسلام کی مدد فرمائی اور آخری فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔
حضرت مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر آیا تو آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے آپ سے یہ درخواست کی کہ ان کے مال اور قیدی واپس کر دیے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’میرے ساتھ میرے صحابہ کرام بھی ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو اور دیکھو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ تم دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کر لو: قیدی لے لو یا مال واپس لے جاؤ۔ میں نے تمہارا انتظار کیا تھا۔‘‘ واقعی رسول اللہ ﷺ نے طائف سے واپسی پر تقریبا دس دن دن ان کا انتظار کیا تھا۔ آخر جب ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ انہیں صرف ایک چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ تب رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، مسلمانوں کو خطاب کیا۔ آپ نے پہلے اللہ کے شایان شان حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: ’’اما بعد! تمہارے بھائی تائب (مسلمان) ہو کر ہمارے پاس آئے ہیں، میری رائے یہ ہے کہ میں ان کے قیدی انہیں واپس کر دوں، لہذا تم میں سے جو کوئی اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہے وہ واپس کر دے، یہ بہتر ہے۔ اور جو لوگ اپنا حصہ نہ چھوڑنا چاہتے ہوں ان کا حق قائم رہے گا۔ اس کی صورت یہ ہو گی کہ اللہ تعالٰی سب سے پہلے ہمیں جو غنیمت عطا کرے گا اس میں سے ہم انہیں اس کے بدلے میں دے دیں گے۔‘‘ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم بخوشی قیدی آزاد کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے بخوشی اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی۔ تم سب اپنے خیموں میں واپس چلے جاؤ حتی کہ تمہارے نمائندہ حضرات تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔‘‘ چنانچہ تمام صحابہ چلے گئے۔ پھر ان کے نمائندوں نے ان سے بات کی اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صحابہ کرام ؓ کی رائے آپ سے عرض کی کہ وہ خوش ہیں اور فراخدلی سے اجازت دیتے ہیں۔ (امام زہری ؓ نے فرمایا: ) یہ واقعہ ہے جو قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق مجھے پہنچا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عرب کا دستور تھا کہ جب وہ سخت لڑائی کا ارادہ کرتے تو اہل و عیال اور مال و مویشی اپنے ہمراہ لے آتے تاکہ لڑنے والے کو معلوم رہے کہ اگر اس نے شکست کھائی تو سب مال واسباب اور اہل عیال دشمن کے قبضے میں چلا جائے گا۔ بنو ہوازن نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا : "اگر اللہ نے چاہا تو یہ سب مال و متاع ہمارے پاس بطور غنیمت آئے گا۔" چنانچہ ایسا ہی ہوا گھمسان کی جنگ ہوئی قبیلہ ہوازن بری طرح شکست کھا کربھاگ نکلا ان کا مال واسباب اور بچے عورتیں سب مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کافی دن ان کا انتظار کیا آپ کی خواہش تھی کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ مسلمان ہو کر ہمارے پاس آئیں تو میں مجاہدین سے کہہ دوں گا۔ کہ ان کامال انھیں واپس کردیا جائے۔ لیکن جب انھوں نے کافی تاخیر کی تو آپ نے مقام جعرانہ میں مال غنیمت تقسیم کردیا۔ تقسیم کے بعد چوبیس افراد پر مشتمل ہوازن کا ایک وفد آیا جن میں ابو برقان سعدی بھی تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ان قیدیوں میں آپ کے دودھ کے رشتے سے آپ کی کئی مائیں، خالائیں، اور دودھ کی بہنیں ہیں، آپ ہم پر احسان فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو جواب دیا وہ حدیث میں مذکورہ ہے بہر حال آپ نے تمام قیدیوں کو آزادکردیا۔ (فتح الباري:43/8) قیدی واپس کرنے سے پہلے آپ نے مہاجرین سے مشورہ کیا تو انھوں نے عرض کی: ہمارا سب مال آپ کے لیے ہے انصار نے بھی یہی جواب دیا۔ اقرع بن حابس نے کہا: میں اور بنو تمیم اس پر راضی نہیں ہیں عیینہ نے کہا: میں اور بنو فزارہ بھی مال واپس دینے کے لیے تیار نہیں۔ عباس بن مرداس نے کہا کہ میں اور بنو سلیم بھی بخوشی ایسا نہیں کر سکتے۔ چونکہ یہ مال مجاہدین کا تھا اس لیے نبی ﷺ نے ان سے اجازت لینے کے لیے نمائندگی کا طریقہ اختیار کیا، اس طرح بنو ہوازن کے بچے اور عورتیں واپس کی گئی۔ (فتح الباري:43/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے (محمد بن عبد للہ بن شہاب نے) بیان کیا کہ محمد بن شہاب نے کہا کہ ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ انہیں مروان بن حکم اور مسوربن مخرمہ ؓ نے خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہوکرحاضر ہوا تو رسو ل اللہ ارخصت دینے کھڑے ہوئے، انہوں نے آپ سے یہ درخواست کی کہ ان کا مال اور ان کے (قبیلے کے قیدی) انہیں واپس دے دئےے جائیں۔ آنحضرت انے فرمایا جیسا کہ تم لوگ دیکھ رہے ہو، میرے ساتھ کتنے اور لوگ بھی ہیں اور دیکھوسچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس لیے تم لوگ ایک ہی چیز پسند کرلویا تو اپنے قیدی لے لو یامال لے لو۔ میں نے تم ہی لوگوں کے خیال سے (قیدیوں کی تقسیم میں) تاخیر کی تھی۔ حضور اکرم ﷺ نے طائف سے واپس ہو کر تقریباً دس دن ان کا انتظارکیا تھا۔ آخر جب ان پر واضح ہو گیا کہ آنحضرتﷺ انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا کہ پھر ہم اپنے (قبیلے کے) قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ انے مسلمانوں کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق ثنا کرنے کے بعدفرمایا امابعد ! تمہارے بھائی (قبیلہ ہوازن کے لوگ) توبہ کر کے ہمارے پاس آئے ہیں، مسلمان ہوکراور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دیے جائیں۔ اس لیے جو شخص (بلاکسی دنیا وی صلہ کے) انہیں اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہے وہ واپس کردے یہ بہتر ہے اور جو لوگ اپنا حصہ نہ چھوڑنا چاہتے ہوں، ان کا حق قائم رہے گا۔ وہ یوں کر لیں کہ اس کے بعد جو سب سے پہلے غنیمت اللہ تعالیٰ ہمیں عنایت فرمائے گا اس میں سے ہم انہیں اس کے بدلہ دے دیں گے تو وہ ان کے قیدی واپس کردیں۔ تمام صحابہ ؓ نے کہا یارسول اللہ! ہم خوشی سے (بلا کسی بدلہ کے) واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن حضور ﷺ نےفرمایا اس طرح ہمیں اس کا علم نہیں ہوگا کہ کس نے اپنی خوشی سے واپس کیا ہے اور کس نے نہیں، اس لیے سب لوگ جائیں اور تمہارے چودھری لوگ تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب واپس آگئے اور ان کے چودھریوں نے ان سے گفتگو کی پھر وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سب نے خوشی اور فراخ دلی کے ساتھ اجازت دے دی ہے۔ ابن عباس ؓ نے کہا یہی ہے وہ حدیث جو مجھے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق پہنچی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ہوازن کے وفد میں24 آدمی آئے تھے جن میں ابو بر قان سعدی بھی تھا، اس نے کہا یارسول اللہ! ان قیدیوں میں آپ کے دودھ کے رشتہ سے آپ کی کئی مائیں اور خالہ ہیں اور دودھ کی بہنیں بھی ہیں۔ آپ ہم پر کرم فرمائیں اور ان سب کو آزاد فرما دیں۔ آپ پر اللہ بہت کرم کرے گا۔ آپ نے جو جواب دیا وہ روایت میں یہاں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ آپ نے سارے قیدیو ں کو آزاد فرما دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Marwan and Al-Miswar bin Makhrama (RA) : When the delegate of Hawazin came to Allah's Apostle (ﷺ) declaring their conversion to Islam and asked him to return their properties and captives, Allah's Apostle (ﷺ) got up and said to them, "There Is involved in this matter, the people whom you see with me, and the most beloved talk to me, is the true one. So choose one of two alternatives: Either the captives or the properties. I have been waiting for you (i.e. have not distributed the booty)." Allah's Apostle (ﷺ) had delayed the distribution of their booty over ten nights after his return from Ta'if. So when they came to know that Allah's Apostle (ﷺ) was not going to return to them but one of the two, they said, "We prefer to have our captives." So Allah's Apostle (ﷺ) got up amongst the Muslims, and praising Allah as He deserved, said, "To proceed! Your brothers have come to you with repentance and I see (it logical) to return their captives. So, whoever of you likes to do that as a favor then he can do it. And whoever of you likes to stick to his share till we give him from the very first booty which Allah will give us, then he can do so." The people said, "We do that (i.e. return the captives) willingly as a favor, 'O Allah's Apostle! (ﷺ) " Allah's Apostle (ﷺ) said, "We do not know which of you have agreed to it and which have not; so go back and let your chiefs forward us your decision." They went back and their chief's spoke to them, and they (i.e. the chiefs) returned to Allah's Apostle (ﷺ) and informed him that all of them had agreed (to give up their captives) with pleasure, and had given their permission (i.e. that the captives be returned to their people). (The sub-narrator said, "That is what has reached me about the captives of Hawazin tribe.")