Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of Autas)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4323.
حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو عامر ؓ کو سپہ سالار بنا کر ایک لشکر کے ہمراہ اوطاس کی طرف روانہ کیا جو وہاں پہنچ کر درید بن صمہ سے نبرد آز ہوئے۔ درید تو جنگ میں مارا گیا اور اللہ تعالٰی نے اس کے ساتھیوں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھے بھی ابو عامر ؓ کے ہمراہ روانہ کیا تھا۔ حضرت ابو عامر ؓ کے گھٹنے میں ایک جثمی آدمی نے تیر مارا جو کہ وہاں پیوست ہو کر رہ گیا۔ میں حضرت ابو عامر ؓ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا: چچا جان! آپ کو کس نے تیر مارا ہے؟ انہوں نے ابو موسٰی اشعری کو اشارے سے بتایا کہ وہ میرا قاتل ہے جس نے مجھے تیر مارا ہے۔ میں دوڑ کر اس کے پاس جا پہنچا مگر جب اس نے مجھے دیکھا تو بھاگ نکلا۔ میں اس کے پیچھے ہو لیا اور کہنے لگا کہ تجھے شرم نہیں آتی اب تو ٹھہرتا کیوں نہیں ہے؟ آخر وہ رک گیا۔ پھر میرے اور اس کے درمیان تلوار کے دو وار ہوئے۔ بالآخر میں نے اسے مار ڈالا۔ پھر واپس آ کر میں نے ابو عامر ؓ سے کہا کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے قاتل کو ہلاک کر دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اب یہ تیر نکالو۔ میں نے تیر نکالا تو زخم سے پانی بہنے لگا۔ انہوں نے مجھے فرمایا: بھتیجے! نبی ﷺ کو میری طرف سے سلام عرض کرنا اور آپ سے کہنا کہ میرے لیے بخشش کی دعا فرمائیں۔ پھر ابو عامر ؓ نے مجھے اپنی جگہ لوگوں کا سپہ سالار مقرر کیا، چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد وہ انتقال کر گئے۔ میں واپس آ کر نبی ﷺ کی خدمت میں آپ کے گھر حاضر ہوا۔ اس وقت آپ بان سے بنی ہوئی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے جس پر ہلکا سا بستر تھا۔ چار پائی کی رسیوں کے نشانات آپ کے پہلو اور پشت پر پڑ گئے تھے۔ میں نے آپ سے تمام حالات بیان کیے اور حضرت ابو عامر ؓ کی شہادت کا واقعہ بھی بیان کیا اوران کی دعائے مغفرت کی درخواست بھی پیش کی۔ آپ نے پانی منگوایا، وضو کرنے کے بعد ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! عبید، یعنی ابو عامر ؓ کو بخش دے۔‘‘ اس وقت میں آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا۔ آپ نے پھر فرمایا:’’اے اللہ! اسے قیامت کے دن انسانوں میں سے اکثر پر برتری عطا فرما۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے بھی مغفرت کی دعا فرمائیں۔ آپ نے دعا کی: ’’اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ بخش دے اور روز قیامت اسے مقام عزت عطا فرما۔‘‘ (راوی حدیث) ابو بردہ نے کہا کہ ان میں سے ایک دعا ابو عامر ؓ کے لیے اور دوسری ابو موسٰی اشعری ؓ کے لیے تھی۔
تشریح:
1۔ حضرت ابو عامر ؓ کو تیر مارنے والا سلمہ بن درید ین صمہ تھا جو قبیلہ جشم سے تعلق رکھتا تھا جب حضرت ابو عامر ؓ شہید ہو گئے تو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے جھنڈا پکڑلیا اور مشرکین سے جنگ لڑی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح و کامرانی عطا فرمائی۔ 2۔ واضح رہے کہ ابو عامر ؓ کے زخم سے پانی نکلنا ان کے زخمی اور قریب المرگ ہونے کی علامت تھی۔ 3۔ اس حدیث میں دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے جس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو دعا میں ہاتھ اٹھانا صرف بارش طلب کرنے کے ساتھ خاص کرتے ہیں نیز دعا کے لیے باوضو ہونے کا استحباب بھی ثابت ہوتا ہے لیکن اس سے تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا استدلال محل نظر ہے کیونکہ تعزیت کے وقت مخصوص جگہ پر بیٹھ کر فاتحہ خوانی کرنا اور ہاتھ اٹھانا اس سے ثابت نہیں ہوتا کیونکہ حضرت ابو عامر ؓ نے شہادت کے وقت رسول اللہ ﷺ سے دعا کی درخواست کی تھی جسے پورا کیا گیا، اس کا مروجہ تعزیت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ واللہ اعلم۔ 4۔ درید ین صمہ مشہور شاعر تھا۔ اسے ربیعہ بن رفیع نے قتل کیا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے اس کے قاتل حضرت زبیر بن عوام ؓ تھے درید جب قتل ہوا تو اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ (فتح الباري:53/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4143
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4323
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4323
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4323
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
وادی حنین اور وادی اوطاس دونوں الگ الگ ہیں وادی حنین میں قبیلہ ہوازن سے جنگ ہوئی تو ہوازن شکست کھا کر بھاگ نکلے۔ ان میں سے ایک گروہ طائف میں چلا گیا کچھ بجیلہ کی طرف اور ایک گروہ اوطاس کی طرف بھاگ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ یہ لوگ درید بن صمہ کے ساتھ مل کر دوبارہ حملہ نہ کریں لہٰذا انھیں جمع نہ ہونے دیا جائے ۔آپ نے اوطاس والوں کی طرف حضرت ابو عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لشکر دے کر روانہ کیا۔ ان کے ساتھ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جو ان کے بعد امیر لشکر بنے۔ اوطاس والوں کی سر کوبی کرنے کے بعد یہ فوجی دستہ بھی لشکر طائف میں شامل ہو گیا۔
حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو عامر ؓ کو سپہ سالار بنا کر ایک لشکر کے ہمراہ اوطاس کی طرف روانہ کیا جو وہاں پہنچ کر درید بن صمہ سے نبرد آز ہوئے۔ درید تو جنگ میں مارا گیا اور اللہ تعالٰی نے اس کے ساتھیوں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھے بھی ابو عامر ؓ کے ہمراہ روانہ کیا تھا۔ حضرت ابو عامر ؓ کے گھٹنے میں ایک جثمی آدمی نے تیر مارا جو کہ وہاں پیوست ہو کر رہ گیا۔ میں حضرت ابو عامر ؓ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا: چچا جان! آپ کو کس نے تیر مارا ہے؟ انہوں نے ابو موسٰی اشعری کو اشارے سے بتایا کہ وہ میرا قاتل ہے جس نے مجھے تیر مارا ہے۔ میں دوڑ کر اس کے پاس جا پہنچا مگر جب اس نے مجھے دیکھا تو بھاگ نکلا۔ میں اس کے پیچھے ہو لیا اور کہنے لگا کہ تجھے شرم نہیں آتی اب تو ٹھہرتا کیوں نہیں ہے؟ آخر وہ رک گیا۔ پھر میرے اور اس کے درمیان تلوار کے دو وار ہوئے۔ بالآخر میں نے اسے مار ڈالا۔ پھر واپس آ کر میں نے ابو عامر ؓ سے کہا کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے قاتل کو ہلاک کر دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اب یہ تیر نکالو۔ میں نے تیر نکالا تو زخم سے پانی بہنے لگا۔ انہوں نے مجھے فرمایا: بھتیجے! نبی ﷺ کو میری طرف سے سلام عرض کرنا اور آپ سے کہنا کہ میرے لیے بخشش کی دعا فرمائیں۔ پھر ابو عامر ؓ نے مجھے اپنی جگہ لوگوں کا سپہ سالار مقرر کیا، چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد وہ انتقال کر گئے۔ میں واپس آ کر نبی ﷺ کی خدمت میں آپ کے گھر حاضر ہوا۔ اس وقت آپ بان سے بنی ہوئی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے جس پر ہلکا سا بستر تھا۔ چار پائی کی رسیوں کے نشانات آپ کے پہلو اور پشت پر پڑ گئے تھے۔ میں نے آپ سے تمام حالات بیان کیے اور حضرت ابو عامر ؓ کی شہادت کا واقعہ بھی بیان کیا اوران کی دعائے مغفرت کی درخواست بھی پیش کی۔ آپ نے پانی منگوایا، وضو کرنے کے بعد ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! عبید، یعنی ابو عامر ؓ کو بخش دے۔‘‘ اس وقت میں آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا۔ آپ نے پھر فرمایا:’’اے اللہ! اسے قیامت کے دن انسانوں میں سے اکثر پر برتری عطا فرما۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے بھی مغفرت کی دعا فرمائیں۔ آپ نے دعا کی: ’’اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ بخش دے اور روز قیامت اسے مقام عزت عطا فرما۔‘‘ (راوی حدیث) ابو بردہ نے کہا کہ ان میں سے ایک دعا ابو عامر ؓ کے لیے اور دوسری ابو موسٰی اشعری ؓ کے لیے تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت ابو عامر ؓ کو تیر مارنے والا سلمہ بن درید ین صمہ تھا جو قبیلہ جشم سے تعلق رکھتا تھا جب حضرت ابو عامر ؓ شہید ہو گئے تو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے جھنڈا پکڑلیا اور مشرکین سے جنگ لڑی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح و کامرانی عطا فرمائی۔ 2۔ واضح رہے کہ ابو عامر ؓ کے زخم سے پانی نکلنا ان کے زخمی اور قریب المرگ ہونے کی علامت تھی۔ 3۔ اس حدیث میں دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے جس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو دعا میں ہاتھ اٹھانا صرف بارش طلب کرنے کے ساتھ خاص کرتے ہیں نیز دعا کے لیے باوضو ہونے کا استحباب بھی ثابت ہوتا ہے لیکن اس سے تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا استدلال محل نظر ہے کیونکہ تعزیت کے وقت مخصوص جگہ پر بیٹھ کر فاتحہ خوانی کرنا اور ہاتھ اٹھانا اس سے ثابت نہیں ہوتا کیونکہ حضرت ابو عامر ؓ نے شہادت کے وقت رسول اللہ ﷺ سے دعا کی درخواست کی تھی جسے پورا کیا گیا، اس کا مروجہ تعزیت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ واللہ اعلم۔ 4۔ درید ین صمہ مشہور شاعر تھا۔ اسے ربیعہ بن رفیع نے قتل کیا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے اس کے قاتل حضرت زبیر بن عوام ؓ تھے درید جب قتل ہوا تو اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ (فتح الباري:53/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبد اللہ نے، ان سے ابو بردہ نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوئہ حنین سے فارغ ہوگئے تو آپ نے ایک دستے کے ساتھ ابوعامر ؓ کو وادی اوطاس کی طرف بھیجا۔ اس معرکہ میں درید ابن الصمہ سے مقابلہ ہوا۔ درید قتل کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے ا س کے لشکر کو شکست دے دی۔ ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ ابو عامر ؓ کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے مجھے بھی بھیجا تھا۔ ابو عا مر ؓ کے گھٹنے میں تیر آکر لگا۔ بنی جعشم کے ایک شخص نے ان پر تیر مارا تھا اور ان کے گھٹنے میں اتار دیا تھا۔ میں ان کے پاس پہنچا اور کہا چچا! یہ تیر آپ پر کس نے پھینکا؟ انہوں نے ابوموسیٰ ؓ کواشارے سے بتایا کہ وہ جعشمی میرا قاتل ہے جس نے مجھے نشانہ بنایا ہے۔ میں اس کی طرف لپکا اور اس کے قریب پہنچ گیا لیکن جب اس نے مجھے دیکھا تووہ بھاگ پڑامیں نے اس کا پیچھا کیا اور میں یہ کہتا جاتا تھا، تجھے شرم نہیں آتی، تجھ سے مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ آخر وہ رک گیا اور ہم نے ایک دوسرے پر تلوار سے وار کیا۔ میں نے اسے قتل کر دیااور ابو عامر ؓ سے جاکر کہا کہ اللہ نے آپ کے قاتل کو قتل کروا دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے (گھٹنے میں سے) تیر نکال لے، میں نے نکال دیا تو اس سے پانی جاری ہوگیا پھر انہوں نے فرمایا بھتیجے! حضور اکرم ﷺ کو میرا سلام پہنچانا اور عرض کرنا کہ میرے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ ابو عامر ؓ نے لوگوں پر مجھے اپنا نائب بنا دیا۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دیر اور زندہ رہے اور شہادت پائی۔ میں واپس ہوا اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچا۔ آپ اپنے گھر میں بانوں کی ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے۔ اس پر کوئی بستر بچھا ہوا نہیں تھا اور بانوں کے نشانات آپ کی پیٹھ اور پہلو پر پڑگئے تھے۔ میں نے آپ سے اپنے اور ابو عامر ؓ کے واقعات بیان کئے اور یہ کہ انہوں نے دعاء مغفرت کے لیے درخواست کی ہے، آنحضرت ﷺ نے پانی طلب فرمایا اور وضو کیا پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی، اے اللہ ! عبید ابو عامر ؓ کی مغفرت فرما۔ میں نے آپ کی بغل میں سفید ی (جب آپ دعا کررہے تھے) دیکھی پھر حضور ﷺ نے دعا کی، اے اللہ ! قیا مت کے دن ابو عامر ؓ کو اپنی بہت سی مخلوق سے بلند تر درجہ عطا فرمائیو۔ میں نے عرض کیا اور میرے لیے بھی اللہ سے مغفرت کی دعا فرما دیجئے۔ حضور ﷺ نے دعا کی اے اللہ! عبد اللہ بن قیس ابو موسیٰ کے گناہوں کو بھی معاف فرما اورقیامت کے دن اچھا مقام عطا فرمائیو۔ ابو بردہ نے بیان کیا کہ ایک دعا ابو عامر ؓ کے لیے تھی اور دوسری ابوموسیٰ ؓ کے لیے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ایک جگہ لفظ وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ آیا ہے۔ یہا ں (ما) نافیہ راوی کی بھول سے رہ گیا ہے۔ اسی لیے ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ جس چار پائی پر آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی بستر بچھا ہوا نہیں تھا۔ اس حدیث میں دعا کرنے کے لیے رسول کریم ﷺ کے ہاتھ اٹھا نے کا ذکر ہے جس میں ان لوگوں کے قول کی تردید ہے جو دعا میں ہاتھ اٹھا نا صرف دعائے استسقاء کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ (قسطلانی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : When the Prophet (ﷺ) had finished from the battle of Hunain, he sent Abu Amir at the head of an army to Autas He (i.e. Abu Amir) met Duraid bin As Summa and Duraid was killed and Allah defeated his companions. The Prophet (ﷺ) sent me with Abu 'Amir. Abu Amir was shot at his knee with an arrow which a man from Jushm had shot and fixed into his knee. I went to him and said, "O Uncle! Who shot you?" He pointed me out (his killer) saying, "That is my killer who shot me (with an arrow)." So I headed towards him and overtook him, and when he saw me, he fled, and I followed him and started saying to him, "Won't you be ashamed? Won't you stop?" So that person stopped, and we exchanged two hits with the swords and I killed him. Then I said to Abu 'Amir. "Allah has killed your killer." He said, "Take out this arrow" So I removed it, and water oozed out of the wound. He then said, "O son of my brother! Convey my compliments to the Prophet (ﷺ) and request him to ask Allah's Forgiveness for me." Abu Amir made me his successor in commanding the people (i.e. troops). He survived for a short while and then died. (Later) I returned and entered upon the Prophet (ﷺ) at his house, and found him lying in a bed made of stalks of date-palm leaves knitted with ropes, and on it there was bedding. The strings of the bed had their traces over his back and sides. Then I told the Prophet (ﷺ) about our and Abu Amir's news and how he had said "Tell him to ask for Allah's Forgiveness for me." The Prophet (ﷺ) asked for water, performed ablution and then raised hands, saying, "O Allah's Forgive 'Ubaid, Abu Amir." At that time I saw the whiteness of the Prophet's armpits. The Prophet (ﷺ) then said, "O Allah, make him (i.e. Abu Amir) on the Day of Resurrection, superior to many of Your human creatures." I said, "Will you ask Allah's Forgiveness for me?" (On that) the Prophet (ﷺ) said, "O Allah, forgive the sins of ' Abdullah bin Qais (RA) and admit him to a nice entrance (i.e. paradise) on the Day of Resurrection." Abu Burda said, "One of the prayers was for Abu 'Amir and the other was for Abu Musa (RA) (i.e. ' Abdullah bin Qais (RA) )."