باب: عبداللہ بن حذافہ سہمی اور علقمہ بن مجزز المدلجیؓ کے دستہ کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Sariya of the Ansar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4340.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا سالار ایک انصاری شخص کو مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ اتفاق سے اسے غصہ آیا تو کہنے لگا: کیا نبی ﷺ نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں نے کہا کہ کیوں نہیں، تب اس نے کہا کہ تم سب میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کر دیں۔ اس نے کہا کہ اب آگ سلگاؤ۔ انہوں نے آگ بھی سلگائی۔ پھر اس نے کہا کہ اس میں کود جاؤ۔ انہوں نے کود جانے کا ارادہ کیا تو ان میں سے کچھ ایک دوسرے کو روکنے لگے اور انہوں نے کہا کہ ہم اس آگ سے راہ فرار اختیار کر کے تو نبی ﷺ کے پاس آئے ہیں۔ وہ اسی طرح بحث مباحثے میں رہے کہ آگ بجھ گئی اور اس کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر جب نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ’’اگر وہ اس آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس سے نہ نکل سکتے کیونکہ اطاعت اسی کام میں ضروری ہے جو شریعت کے خلاف نہ ہو۔‘‘
تشریح:
1۔ مسند احمد میں ہے کہ اس لشکر کا سالار حضر ت عبداللہ بن حذافہ ؓ کو بنایا گیاتھا۔ (مسند احمد:67/3) لیکن یہ انصاری نہیں بلکہ ان کاتعلق مہاجرین سے ہے۔ شاید انھیں انصاری اس لیے کہا گیا ہوکہ انھوں نے دین اسلام کے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کی مدد کی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روایت میں انصار کا لفظ راوی کاوہم ہو۔ (فتح الباري:73/8) واللہ اعلم۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ امیر کےتیارکردہ الاؤ میں کودنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ (مسند احمد:94/1) 3۔ واضح رہے کہ حضرت علقمہ ؓ اس قیافہ شناس کے بیٹے ہیں جنھوں نے حضرت اسامہ ؓ اورحضرت زید ؓ کے پاؤں دیکھ کرکہا تھا کہ یہ دونوں باپ بیٹا ہیں اور رسول اللہ ﷺ اس قیافہ سے بہت خوش ہوئے تھے، اس لیے علقمہ ؓ خود صحابی ہیں اور صحابی کے بیٹے ہیں۔ (فتح الباري:74/8) 4۔ ابن اسحاق نے اس سریے کا یہ سبب بیان کیا ہے کہ غزوہ ذی قرد میں وقاص بن مجزز شہید ہوگئے تھے تو ان کے بھائی حضرت علقمہ بن مجزز نے انتقام لینا چاہا، تب رسول اللہ ﷺ نے اس سریے کو روانہ کیا۔ یہ بیان پہلے ذکر کردہ سبب کے خلاف ہے۔ ممکن ہے کہ اس سریے کے دونوں اسباب ہوں۔ واللہ اعلم۔(فتح الباري:73/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4159
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4340
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4340
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4340
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت ملی کہ اہل جدہ کو حبشی لوگ تنگ کرتے ہیں۔آپ نے 9ہجری میں تین سوافراد پر مشتمل ایک دستہ روانہ کیا اورعلقمہ بن مجزز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا امیر مقررکیا۔جب یہ دستہ حبشیوں کی سرکوبی کے لیے سمندرمیں اتر اتو وہ سمندری ڈاکوبھاگ نکلے۔دستے میں سے کچھ لوگوں نے واپس آنے میں جلدی سے کام لیا توامیر دستہ نے ان سے باز پرس کرنے کےلیے حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوتعینات کیا،پھر وہ واقعہ پیش آیا جس کا آگے آنےوالی حدیث میں ذکر ہے۔( فتح الباری 73/8۔)
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا سالار ایک انصاری شخص کو مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ اتفاق سے اسے غصہ آیا تو کہنے لگا: کیا نبی ﷺ نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں نے کہا کہ کیوں نہیں، تب اس نے کہا کہ تم سب میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کر دیں۔ اس نے کہا کہ اب آگ سلگاؤ۔ انہوں نے آگ بھی سلگائی۔ پھر اس نے کہا کہ اس میں کود جاؤ۔ انہوں نے کود جانے کا ارادہ کیا تو ان میں سے کچھ ایک دوسرے کو روکنے لگے اور انہوں نے کہا کہ ہم اس آگ سے راہ فرار اختیار کر کے تو نبی ﷺ کے پاس آئے ہیں۔ وہ اسی طرح بحث مباحثے میں رہے کہ آگ بجھ گئی اور اس کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر جب نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ’’اگر وہ اس آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس سے نہ نکل سکتے کیونکہ اطاعت اسی کام میں ضروری ہے جو شریعت کے خلاف نہ ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ مسند احمد میں ہے کہ اس لشکر کا سالار حضر ت عبداللہ بن حذافہ ؓ کو بنایا گیاتھا۔ (مسند احمد:67/3) لیکن یہ انصاری نہیں بلکہ ان کاتعلق مہاجرین سے ہے۔ شاید انھیں انصاری اس لیے کہا گیا ہوکہ انھوں نے دین اسلام کے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کی مدد کی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روایت میں انصار کا لفظ راوی کاوہم ہو۔ (فتح الباري:73/8) واللہ اعلم۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ امیر کےتیارکردہ الاؤ میں کودنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ (مسند احمد:94/1) 3۔ واضح رہے کہ حضرت علقمہ ؓ اس قیافہ شناس کے بیٹے ہیں جنھوں نے حضرت اسامہ ؓ اورحضرت زید ؓ کے پاؤں دیکھ کرکہا تھا کہ یہ دونوں باپ بیٹا ہیں اور رسول اللہ ﷺ اس قیافہ سے بہت خوش ہوئے تھے، اس لیے علقمہ ؓ خود صحابی ہیں اور صحابی کے بیٹے ہیں۔ (فتح الباري:74/8) 4۔ ابن اسحاق نے اس سریے کا یہ سبب بیان کیا ہے کہ غزوہ ذی قرد میں وقاص بن مجزز شہید ہوگئے تھے تو ان کے بھائی حضرت علقمہ بن مجزز نے انتقام لینا چاہا، تب رسول اللہ ﷺ نے اس سریے کو روانہ کیا۔ یہ بیان پہلے ذکر کردہ سبب کے خلاف ہے۔ ممکن ہے کہ اس سریے کے دونوں اسباب ہوں۔ واللہ اعلم۔(فتح الباري:73/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہاہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا، ان سے ابوعبد الرحمن اسلمی نے اور ان سے حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مختصر لشکر روانہ کیا اور اس کا امیر ایک انصار ی صحابی (عبد اللہ بن حذافہ سہمی ؓ ) کو بنایا اور لشکریوں کو حکم دیا کہ سب اپنے امیر کی اطاعت کریں پھر امیر کسی وجہ سے غصہ ہوگئے اور اپنے فوجیوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں رسو ل اللہ انے میری اطاعت کر نے کا حکم نہیں فرمایا ہے؟ سب نے کہا کہ ہاں فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا پھر تم سب لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کیں تو امیر نے حکم دیا کہ اس میں آگ لگاؤ اور انہوں نے آگ لگا دی۔ اب انہوں نے حکم دیا کہ سب اس میں کود جاؤ۔ فوجی کود جانا ہی چاہتے تھے کہ انہیں میں سے بعض نے بعض کو روکا اور کہا کہ ہم تو اس آگ ہی کے خوف سے رسول اللہ ﷺ کی طرف آئے ہیں! ان باتوں میں وقت گذر گیا اور آگ بھی بجھ گئی۔ اس کے بعد امیر کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ جب اس کی خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچی توآ پ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود جاتے تو پھر قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے۔ اطاعت کا حکم صرف نیک کاموں کے لیے ہے۔
حدیث حاشیہ:
امام خلیفہ پیر مرشد کی اطاعت صرف قرآن وحدیث کے مطابق احکام کے اندر ہے۔ اگر وہ خلاف بات کہیں تو پھر ان کی اطاعت کر نا جائز نہیں ہے۔ ا سی لیے ہمارے امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا کہ إذا صح الحدیث فھو مذھبي۔ جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میر امذہب ہے۔ ایسے موقع پر میرے فتوی کو چھوڑ کر صحیح حدیث پر عمل کر نا۔ حضرت امام کی وصیت کے باوجود کتنے لوگ ہیں جو قول امام کے آگے صحیح حدیث کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کو سمجھ عطا کرے۔ بقول حضرت شاہ ولی اللہ ؒ مرحوم ایسے لوگ قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں کیا جواب دے سکیں گے۔ مروجہ تقلید شخصی کے خلاف یہ حدیث ایک مشعل ہدایت ہے۔ بشرطیکہ آنکھ کھول کر اس سے روشنی حاصل کی جائے۔ ائمہ کرام کا ہرگز یہ منشاء نہ تھا کہ ان کے ناموں پر الگ الگ مذاہب بنائے جائیں کہ وہ اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیں۔ اللہ نے سچ فرمایا ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ﴾
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) : The Prophet (ﷺ) sent a Sariya under the command of a man from the Ansar and ordered the soldiers to obey him. He (i.e. the commander) became angry and said "Didn't the Prophet (ﷺ) order you to obey me!" They replied, "Yes." He said, "Collect fire-wood for me." So they collected it. He said, "Make a fire." When they made it, he said, "Enter it (i.e. the fire)." So they intended to do that and started holding each other and saying, "We run towards (i.e. take refuge with) the Prophet (ﷺ) from the fire." They kept on saying that till the fire was extinguished and the anger of the commander abated. When that news reached the Prophet (ﷺ) he said, "If they had entered it (i.e. the fire), they would not have come out of it till the Day of Resurrection. Obedience (to somebody) is required when he enjoins what is good."