باب: حجۃ الوداع سے پہلے آنحضرت ﷺ کا ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجنا
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Sending Abu Musa and Mu'adh to Yemen)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4344.
حضرت سعید بن ابو بردہ اپنے والد (حضرت ابو بردہ) سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان (سعید) کے دادا حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا: ’’لوگوں پر آسانی کرنا، ان پر تنگی نہ کرنا، انہیں خوشخبری سنانا، نفرت نہ دلانا اور ایک دوسرے سے موافقت پیدا کرنا۔‘‘ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے علاقے میں کچھ مشروبات جو سے تیار ہوتے ہیں جنہیں مزر اور کچھ شہد سے بنتے ہیں جنہیں بتع کہا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘ چنانچہ دونوں حضرات یمن کی طرف روانہ ہوئے۔ پھر (ایک ملاقات میں) حضرت معاذ ؓ نے حضرت ابو موسٰی سے پوچھا: آپ قرآن کیسے پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر، سواری پر وقفے وقفے سے پڑھتا رہتا ہوں۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے فرمایا کہ میں سوتا ہوں، پھر اٹھتا ہوں اور نیند کو بھی قیام کی طرح ثوب سمجھتا ہوں۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے ان کے لیے ایک خیمہ لگوایا تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی زیارت کریں۔ ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل ؓ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی ملاقات کے لیے آئے تو دیکھا کہ ایک آدمی بندھا ہوا ہے، پوچھا: یہ کون ہے؟ حضرت ابو موسٰی اشعری نے کہا: یہ یہودی ہے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہے۔ حضرت معاذ ؓ نے کہا: میں اس کی گردن ضرور اڑاؤں گا۔ عقدی اور وہب نے شعبہ سے روایت کرنے میں مسلم کی متابعت کی ہے۔ وکیع، ابو نضر اور ابو داود نے شعبہ سے، انہوں نے سعید سے، انہوں نے اپنے والد کے ذریعے سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کیا ہے۔ جریر بن عبدالحمید نے شیبانی سے اور انہوں نے ابو بردہ سے بیان کیا ہے۔
تشریح:
1۔ لفظ (أَتَفَوَّق)، فواق، ناقة سے ماخوذ ہے، مطلب یہ ہے کہ میں دن رات تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ہمیشہ قرآن پڑھتا رہتا ہوں، چنانچہ فواق ناقہ یہی ہے کہ ایک مرتبہ اونٹنی کا دودھ لیا جائے، پھر اسے چھوڑدیا جائے تاکہ وہ باقی ماندہ دودھ اتارلے، پھر اس کا دودھ نکال لیا جائے، اس طرح وقفے وقفے سے اس کادودھ نکالاجاتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اس انداز سے قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور اسی کو اپنا معمول بنایا تھا جبکہ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے رات کے حصے متعین کررکھے تھے، کچھ سونے کے لیے اور کچھ تلاوت قرآن کے لیے۔الغرض ان کا سونا بھی اس غرض کے لیے ہوتا تھا کہ وہ قیام کے لیے معاون ثابت ہو۔ اس نیت سے سونا بھی عبادت ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ نرمی کا مطلب حدودوقصاص میں نرمی کرنا نہیں بلکہ دنیوی اور انتظامی امورمیں نرمی کرنا ہے کیونکہ حدود کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگرتم اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہوتو اللہ کے دین کے معاملے میں تمھیں ان (مرد،عورت) دونوں پرترس نہیں آنا چاہیے۔‘‘ (النور:2:24) 3۔ مبلغین کے لیے اس میں خاص ہدایت ہے کہ وہ لوگوں کو نفرت نہ دلائیں، مشکل اور سخت باتیں ان کے سامنے نہ رکھیں، آپس میں مل جل کر کام کریں، اتفاق واتحاد سے رہیں، ایک دوسرے کی بات مانیں، مگرآج کل ایسے مبلغین بہت کم ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4162
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4344
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4344
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4344
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت سعید بن ابو بردہ اپنے والد (حضرت ابو بردہ) سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان (سعید) کے دادا حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا: ’’لوگوں پر آسانی کرنا، ان پر تنگی نہ کرنا، انہیں خوشخبری سنانا، نفرت نہ دلانا اور ایک دوسرے سے موافقت پیدا کرنا۔‘‘ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے علاقے میں کچھ مشروبات جو سے تیار ہوتے ہیں جنہیں مزر اور کچھ شہد سے بنتے ہیں جنہیں بتع کہا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘ چنانچہ دونوں حضرات یمن کی طرف روانہ ہوئے۔ پھر (ایک ملاقات میں) حضرت معاذ ؓ نے حضرت ابو موسٰی سے پوچھا: آپ قرآن کیسے پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر، سواری پر وقفے وقفے سے پڑھتا رہتا ہوں۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے فرمایا کہ میں سوتا ہوں، پھر اٹھتا ہوں اور نیند کو بھی قیام کی طرح ثوب سمجھتا ہوں۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے ان کے لیے ایک خیمہ لگوایا تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی زیارت کریں۔ ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل ؓ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی ملاقات کے لیے آئے تو دیکھا کہ ایک آدمی بندھا ہوا ہے، پوچھا: یہ کون ہے؟ حضرت ابو موسٰی اشعری نے کہا: یہ یہودی ہے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہے۔ حضرت معاذ ؓ نے کہا: میں اس کی گردن ضرور اڑاؤں گا۔ عقدی اور وہب نے شعبہ سے روایت کرنے میں مسلم کی متابعت کی ہے۔ وکیع، ابو نضر اور ابو داود نے شعبہ سے، انہوں نے سعید سے، انہوں نے اپنے والد کے ذریعے سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کیا ہے۔ جریر بن عبدالحمید نے شیبانی سے اور انہوں نے ابو بردہ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ لفظ (أَتَفَوَّق)، فواق، ناقة سے ماخوذ ہے، مطلب یہ ہے کہ میں دن رات تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ہمیشہ قرآن پڑھتا رہتا ہوں، چنانچہ فواق ناقہ یہی ہے کہ ایک مرتبہ اونٹنی کا دودھ لیا جائے، پھر اسے چھوڑدیا جائے تاکہ وہ باقی ماندہ دودھ اتارلے، پھر اس کا دودھ نکال لیا جائے، اس طرح وقفے وقفے سے اس کادودھ نکالاجاتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اس انداز سے قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور اسی کو اپنا معمول بنایا تھا جبکہ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے رات کے حصے متعین کررکھے تھے، کچھ سونے کے لیے اور کچھ تلاوت قرآن کے لیے۔الغرض ان کا سونا بھی اس غرض کے لیے ہوتا تھا کہ وہ قیام کے لیے معاون ثابت ہو۔ اس نیت سے سونا بھی عبادت ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ نرمی کا مطلب حدودوقصاص میں نرمی کرنا نہیں بلکہ دنیوی اور انتظامی امورمیں نرمی کرنا ہے کیونکہ حدود کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگرتم اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہوتو اللہ کے دین کے معاملے میں تمھیں ان (مرد،عورت) دونوں پرترس نہیں آنا چاہیے۔‘‘ (النور:2:24) 3۔ مبلغین کے لیے اس میں خاص ہدایت ہے کہ وہ لوگوں کو نفرت نہ دلائیں، مشکل اور سخت باتیں ان کے سامنے نہ رکھیں، آپس میں مل جل کر کام کریں، اتفاق واتحاد سے رہیں، ایک دوسرے کی بات مانیں، مگرآج کل ایسے مبلغین بہت کم ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان کے والد نے بیان کیاکہ نبی کریم ﷺ نے ان کے دادا حضرت ابو موسیٰ ؓ اور معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا اور فرمایا کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، ان کو دشواریوں میں نہ ڈالنا۔ لوگوں کو خوش خبریاں دینا دین سے نفرت نہ دلانااور تم دونوں آپس میں موافقت رکھنا۔ اس پر ابوموسیٰ اشعری ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! ہمارے ملک میں جو سے ایک شراب تیار ہوتی ہے جس کا نام ''مزر'' ہے اور شہد سے ایک شراب تیار ہوتی ہے جو ''بتع'' کہلاتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔ پھر دونوں بزرگ روانہ ہوئے۔ معاذ ؓ نے ابوموسیٰ ؓ سے پوچھا آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ کھڑے ہوکر بھی، بیٹھ کر بھی اور اپنی سواری پر بھی اور میں تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد پڑھتا ہی رہتا ہوں۔ معاذ ؓ نے کہا لیکن میرا معمول یہ ہے کہ شروع رات میں، میں سوجاتا ہوں اور پھر بیدار ہوجا تا ہوں۔ اس طرح میں اپنی نیند پر بھی ثواب کا امید وار ہوں جس طرح بیدار ہوکر (عبادت کرنے پر) ثواب کی مجھے امید ہے اور انہوں نے ایک خیمہ لگالیا اور ایک دوسرے سے ملاقات برابر ہوتی رہتی۔ ایک مر تبہ معاذ ؓ ابو موسیٰ ؓ سے ملنے کے لیے آئے، دیکھا ایک شخص بندھا ہوا ہے۔ پوچھا یہ کیا بات ہے؟ ابو موسیٰ ؓ نے بتلایا کہ یہ ایک یہودی ہے، پہلے خود اسلام لایا اب یہ مرتد ہو گیا ہے۔ معاذ ؓ نے کہا کہ میں اسے قتل کئے بغیر ہر گز نہ رہوںگا۔ مسلم بن ابراہیم کے ساتھ اس حدیث کو عبد الملک بن عمرو عقدی اور وہب بن جریر نے شعبہ سے روایت کیا ہے اوروکیع اور نضراور ابو داؤد نے اس کو شعبہ سے، انہوں نے سعید سے، انہوں اپنے باپ بردہ سے، انہوں نے سعید کے دادا ابوموسیٰ ؓ سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا اور جریر بن عبد الحمیدنے اس کو شیبانی سے روایت کیا، انہوں نے ابوبردہ سے۔
حدیث حاشیہ:
عقدی کی روایت کو امام بخاری ؒ نے احکام میں اوروہب کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے وصل کیا ہے۔ وکیع کی روایت کو امام بخاری ؒ نے جہاد میں اور ابو داؤد طیالسی کی روایت کوامام نسائی نے اور نضر کی روایت کو امام بخاری نے ادب میں وصل کیا ہے۔ مطلب امام بخاری کا یہ ہے کہ وکیع اور نضر اور ابو داودنے شعبہ سے اس حدیث کو موصولاً روایت کیا اور مسلم بن ابراہیم اور عقدی اور جریر نے مرسلاًروایت کیا۔ اس میں مبلغین کے لیے خاص ہدایات ہیں کہ لوگوں کو نفرت نہ دلائیں، دشوار باتیں ان کے سامنے نہ رکھيں، آپس میں مل جل کر کام کریں۔ اللہ یہی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین مگر آج کل ایسے مبلغین بہت کم ہیں۔ الاماشاءاللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Burda (RA) : That the Prophet (ﷺ) sent his (i.e. Abu Burda's) grandfather, Abu Musa (RA) and Mu'adh to Yemen and said to both of them "Facilitate things for the people (Be kind and lenient) and do not make things difficult (for people), and give them good tidings, and do not repulse them and both of you should obey each other." Abu Musa (RA) said, "O Allah's Prophet! In our land there is an alcoholic drink (prepared) from barley called Al-Mizr, and another (prepared) from honey, called Al-Bit"' The Prophet (ﷺ) said, "All intoxicants are prohibited." Then both of them proceeded and Mu'adh asked Abu Musa (RA), "How do you recite the Qur'an?" Abu Musa (RA) replied, "I recite it while I am standing, sitting or riding my riding animals, at intervals and piecemeal." Muadh said, "But I sleep and then get up. I sleep and hope for Allah's Reward for my sleep as I seek His Reward for my night prayer." Then he (i.e. Muadh) pitched a tent and they started visiting each other. Once Muadh paid a visit to Abu Musa (RA) and saw a chained man. Muadh asked, "What is this?" Abu Musa (RA) said, "(He was) a Jew who embraced Islam and has now turned apostate." Muadh said, "I will surely chop off his neck!"