Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of the sea-coast)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ دستہ قریش کے قافلہ تجارت کی گھات میں تھا۔ اس کے سردار ابوعبیدہ بن الجراح ؓ تھے۔تشریح:اس میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رجب سنہ 8ھ کا ہے مگر ان دنوں قریش سے صلح تھی اس لیے بعضوں نے کہا کہ یہ غزوہ جہینہ کی قوم سے ہوا تھا جو سمندر کے متصل رہتی تھی یہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔
4360.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر ساحلِ سمندر کی طرف بھیجا اور ان کا امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا۔ اس میں تین سو آدمی شریک تھے۔ بہرحال ہم (مدینہ طیبہ سے) نکلے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ زادِ راہ ختم ہو گیا۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا زاد سفر ایک جگہ جمع کر دیں۔ زاد سفر کھجور کے دو تھیلوں کے برابر جمع ہوا۔ اس میں سے وہ ہمیں ہر روز تھوڑا تھوڑا دیتے رہے حتی کہ وہ بھی ختم ہو گیا۔ پھر تو ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور ملتی تھی۔ راوی حدیث نے کہا: بھلا تمہارا ایک کھجور سے کیا کام چلتا ہو گا؟انہوں نے کہا کہ (ایک کھجور بھی غنیمت تھی) جب وہ بھی نہ رہی تو ہمیں اس کی قدروقیمت معلوم ہوئی۔ پھر ہم سمندر کی طرف گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بڑے ٹیلے کی طرح ایک مچھلی موجود ہے۔ ہمارا لشکر اس میں سے اٹھارہ (19) دن تک کھاتا رہا۔ پھر حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حکم دیا کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی جائیں، دیکھا تو وہ اس قدر اونچی تھیں کہ سواری کے اونٹ پر کجاوہ رکھ کر اس کے نیچے سے گزارا گیا تو وہ سواری اان کے نیچے سے صاف نکل گئی اور پسلیوں تک نہ پہنچ سکی۔
تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ اس دستے کے امیر حضرت قیس بن سعد ؓ تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ اس لشکر کے امیر حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ تھے کیونکہ صحیحین کی روایات کا اسی پر اتفاق ہے۔ چونکہ اس واقعےمیں حضرت قیس ؓ کی بے مثال سخاوت کاذکر ہے، اس لیے ممکن ہے کہ کسی راوی نے ان کی سخاوت کے پیش نظر یہ اندازہ لگا لیا ہوکہ شاید وہی امیر لشکر تھے، حالانکہ دیگرروایات اس کے خلاف ہیں۔ (فتح الباري:99/8) 2۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لشکر کے لیے عمومی زادِسفر تھا۔ جب وہ ختم ہوگیا تو امیر لشکر نے خصوصی زادِسفر کا اہتمام کیا، جبکہ صحیح مسلم میں ہے کہ امیر سفر نے انھیں کھجوروں کا ایک تھیلادیا، اس کے علاوہ اور کوئی زادسفر نہ تھا۔ (فتح الباري:99/8) ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ زادِعام بھی ایک تھیلا تھا، جب وہ ختم ہوگیا تو زاد خاص جمع کیا گیا تھا وہ بھی ایک تھیلا ہوا۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس لشکر کو ایک تھیلا کھجوروں کا دیا تھا۔ راوی نے مزید وضاحت کی ہے کہ جب ہمیں ایک کھجور ملنے لگی تو ہم اسے اس طرح چوستے تھے جس طرح بچہ پستان چوستا ہے، پھر اس پر پانی پی لیتے تو صبح سے رات تک کام چل جاتا تھا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور اپنے پیارے مجاہدین کو رزق مہیا فرمایا۔ (صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث:4998(1935))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4176
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4360
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4360
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4360
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرکردگی میں ایک قافلہ بحرقلزم کے کنارے بھیجا کہ وہاں مشرکین کے قافلے کا انتظار کریں جو بغرض تجارت شام گیاتھا اور وہاں سے سامان لے کرواپس آرہاتھا۔بعض اہل مغازی کا خیال ہے کہ یہ غزوہ قوم جہینہ سے ہواتھا جو سمندرسے متصل رہتی تھی۔ممکن ہے کہ یہ لوگ قافلہ قریش کی حفاظت کے لیے نکلے ہوں۔صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ جہینہ کی سرزمین میں ایک لشکر بھیجا تھا۔بہرحال ان روایات میں کوئی تضاد نہیں۔واللہ اعلم۔( صحیح مسلم الصید والذبائح حدیث 5004(1935))
یہ دستہ قریش کے قافلہ تجارت کی گھات میں تھا۔ اس کے سردار ابوعبیدہ بن الجراح ؓ تھے۔تشریح:اس میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رجب سنہ 8ھ کا ہے مگر ان دنوں قریش سے صلح تھی اس لیے بعضوں نے کہا کہ یہ غزوہ جہینہ کی قوم سے ہوا تھا جو سمندر کے متصل رہتی تھی یہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر ساحلِ سمندر کی طرف بھیجا اور ان کا امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا۔ اس میں تین سو آدمی شریک تھے۔ بہرحال ہم (مدینہ طیبہ سے) نکلے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ زادِ راہ ختم ہو گیا۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا زاد سفر ایک جگہ جمع کر دیں۔ زاد سفر کھجور کے دو تھیلوں کے برابر جمع ہوا۔ اس میں سے وہ ہمیں ہر روز تھوڑا تھوڑا دیتے رہے حتی کہ وہ بھی ختم ہو گیا۔ پھر تو ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور ملتی تھی۔ راوی حدیث نے کہا: بھلا تمہارا ایک کھجور سے کیا کام چلتا ہو گا؟انہوں نے کہا کہ (ایک کھجور بھی غنیمت تھی) جب وہ بھی نہ رہی تو ہمیں اس کی قدروقیمت معلوم ہوئی۔ پھر ہم سمندر کی طرف گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بڑے ٹیلے کی طرح ایک مچھلی موجود ہے۔ ہمارا لشکر اس میں سے اٹھارہ (19) دن تک کھاتا رہا۔ پھر حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حکم دیا کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی جائیں، دیکھا تو وہ اس قدر اونچی تھیں کہ سواری کے اونٹ پر کجاوہ رکھ کر اس کے نیچے سے گزارا گیا تو وہ سواری اان کے نیچے سے صاف نکل گئی اور پسلیوں تک نہ پہنچ سکی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ اس دستے کے امیر حضرت قیس بن سعد ؓ تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ اس لشکر کے امیر حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ تھے کیونکہ صحیحین کی روایات کا اسی پر اتفاق ہے۔ چونکہ اس واقعےمیں حضرت قیس ؓ کی بے مثال سخاوت کاذکر ہے، اس لیے ممکن ہے کہ کسی راوی نے ان کی سخاوت کے پیش نظر یہ اندازہ لگا لیا ہوکہ شاید وہی امیر لشکر تھے، حالانکہ دیگرروایات اس کے خلاف ہیں۔ (فتح الباري:99/8) 2۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لشکر کے لیے عمومی زادِسفر تھا۔ جب وہ ختم ہوگیا تو امیر لشکر نے خصوصی زادِسفر کا اہتمام کیا، جبکہ صحیح مسلم میں ہے کہ امیر سفر نے انھیں کھجوروں کا ایک تھیلادیا، اس کے علاوہ اور کوئی زادسفر نہ تھا۔ (فتح الباري:99/8) ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ زادِعام بھی ایک تھیلا تھا، جب وہ ختم ہوگیا تو زاد خاص جمع کیا گیا تھا وہ بھی ایک تھیلا ہوا۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس لشکر کو ایک تھیلا کھجوروں کا دیا تھا۔ راوی نے مزید وضاحت کی ہے کہ جب ہمیں ایک کھجور ملنے لگی تو ہم اسے اس طرح چوستے تھے جس طرح بچہ پستان چوستا ہے، پھر اس پر پانی پی لیتے تو صبح سے رات تک کام چل جاتا تھا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور اپنے پیارے مجاہدین کو رزق مہیا فرمایا۔ (صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث:4998(1935))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہاکہ مجھ سے امام مالک ؓ نے بیان کیا، ان سے وہیب بن کیسان نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ساحل سمندر کی طرف ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا۔ اس میں تین سو آدمی شریک تھے۔ خیر ہم مدینہ سے روانہ ہوئے اورابھی راستے ہی میں تھے کہ راشن ختم ہوگیا ، جو کچھ بچ رہا تھا وہ ابو عبیدہ ؓ ہمیں روزانہ تھوڑا تھوڑا اسی میں سے کھانے کو دیتے رہے۔ آخر جب یہ بھی ختم کے قریب پہنچ گیا تو ہمارے حصے میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی۔ وہب نے کہا میں نے جابر ؓ سے پوچھا کہ ایک کھجور سے کیا ہوتا رہا ہوگا ؟ جابر ؓ نے کہا وہ ایک کھجور ہی غنیمت تھی۔ جب وہ بھی نہ رہی تو ہم کو اسکی قدر معلوم ہوئی تھی، آخر ہم سمندر کے کنارے پہنچ گئے۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں بڑے ٹیلے کی طرح ایک مچھلی نکل کر پڑی ہے۔ اس مچھلی کو سار الشکر اٹھا رہ راتوں تک کھا تا رہا۔ بعد میں ابو عبیدہ ؓ کے حکم سے اس کی پسلی کی دو ہڈیاں کھڑی کی گئیں وہ اتنی اونچی تھیں کہ اونٹ پر کجاوہ کسا گیا وہ ان کے تلے سے نکل گیا اور ہڈیوں کو بالکل نہیں لگا۔
حدیث حاشیہ:
اللہ نے اس طرح اپنے پیارے مجاہدین بندوں کے رزق کا سامان مہیا فرمایا۔ سچ ہے ویرزقه من حیث لایحتسب
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Wahab bin Kaisan (RA) : Jabir bin Abdullah (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) sent troops to the sea coast and appointed Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah as their commander, and they were 300 (men). We set out, and we had covered some distance on the way, when our journey food ran short. So Abu 'Ubaida ordered that all the food present with the troops be collected, and it was collected. Our journey food was dates, and Abu Ubaida kept on giving us our daily ration from it little by little (piecemeal) till it decreased to such an extent that we did not receive except a date each." I asked (Jabir), "How could one date benefit you?" He said, "We came to know its value when even that finished." Jabir added, "Then we reached the sea (coast) where we found a fish like a small mountain. The people (i.e. troops) ate of it for 18 nights (i.e. days). Then Abu 'Ubaida ordered that two of its ribs be fixed on the ground (in the form of an arch) and that a she-camel be ridden and passed under them. So it passed under them without touching them."