• صفحہ اول
  • خصوصیات
  • کچھ ہمارے بارے میں
  • استعمال کرنے کا طریقہ
  • تعاون
  • رابطہ کریں
دیگر ویب سائٹس
  • محدث لائبریری
  • محدث فتویٰ
  • محدث فورم
  • محدث میگزین
  • محدث میڈیا
  • قرآن لائبریری
  • رسائل و جرائد
  • شاملہ اردو
کتب احادیث
  • صحيح البخاري
  • صحيح مسلم
  • سنن أبي داؤد
  • جامع الترمذي
  • سنن النسائي
  • سنن ابن ماجه
  • مسند احمد

ڈیفالٹ سیٹنگ منتخب کریں

التراقيم
التراجم
الحكم على الحديث
التراقيم
التراجم
التراجم
التراقيم
التراجم
التراجم
التراقيم
التراجم
التراجم
التراقيم
التراجم
التراجم
التراقيم
التراجم
التراجم
التراقيم
التراجم
التراجم
التراقيم
التراجم
التراجم

موضوعات

Expand/Collapse شجرۂ موضوعات
Expand/Collapse ایمان (21673)
Expand/Collapse اقوام سابقہ (2922)
Expand/Collapse سیرت (18010)
Expand/Collapse قرآن (6272)
Expand/Collapse اخلاق و آداب (9761)
Expand/Collapse عبادات (51486)
Expand/Collapse کھانے پینے کے آداب و احکام (4155)
Expand/Collapse لباس اور زینت کے مسائل (3633)
Expand/Collapse نجی اور شخصی احوال ومعاملات (6547)
Expand/Collapse معاملات (9225)
Expand/Collapse عدالتی احکام و فیصلے (3431)
Expand/Collapse جرائم و عقوبات (5046)
Expand/Collapse جہاد (5356)
Expand/Collapse علم (9419)

المواضيع

Expand/Collapse شجرة المواضيع
Expand/Collapse الإيمان (21673)
Expand/Collapse الأمم السابقة (2922)
Expand/Collapse السيرة (18010)
Expand/Collapse القرآن (6272)
Expand/Collapse الأخلاق والآداب (9761)
Expand/Collapse العبادات (51486)
Expand/Collapse الأشربة والأطعمة (4155)
Expand/Collapse اللباس والزينة (3633)
Expand/Collapse الأحوال الشخصية (6547)
Expand/Collapse المعاملات (9225)
Expand/Collapse الأقضية والأحكام (3431)
Expand/Collapse الجنايات (5046)
Expand/Collapse الجهاد (5356)
Expand/Collapse العلم (9419)

Topics

Expand/Collapse Index
Expand/Collapse Faith (21673)
Expand/Collapse Ancient Nations (2922)
Expand/Collapse Prophet's Biography (18010)
Expand/Collapse Quran (6272)
Expand/Collapse Ethics and Manners (9761)
Expand/Collapse Prayers/Ibadaat (51486)
Expand/Collapse The ethics of meal and drinking (4155)
Expand/Collapse Issues of Clothing and Fashion (3633)
Expand/Collapse Private and Social Conditions and Matters (6547)
Expand/Collapse Matters (9225)
Expand/Collapse Legal Orders and Verdicts (3431)
Expand/Collapse Crime and Persecution (5046)
Expand/Collapse Jihaad (5356)
Expand/Collapse The Knowledge (9419)
التخريج

قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ وَفْدِ عَبْدِ القَيْسِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب:

4369 .   حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ وَقَدْ حَالَتْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ فَلَسْنَا نَخْلُصُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ فَمُرْنَا بِأَشْيَاءَ نَأْخُذُ بِهَا وَنَدْعُو إِلَيْهَا مَنْ وَرَاءَنَا قَالَ آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَعَقَدَ وَاحِدَةً وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَأَنْ تُؤَدُّوا لِلَّهِ خُمْسَ مَا غَنِمْتُمْ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ الدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ

صحیح بخاری:

کتاب: غزوات کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب: وفد عبدالقیس کابیان

)
  تمہید باب

Sahi-Bukhari: Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi) Book Tamheed (Chapter: The delegation of ‘Abdul-Qais) Chapter Tamheed

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

ترجمۃ الباب:

4369.   حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم ربیعہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر رہتے ہیں۔ ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ کے پاس نہیں سکتے، لہذا آپ ہمیں چند ایسے امور کا حکم دیں جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے پیچھے جو لوگ ہیں ان کو دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے تمہیں منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا، یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اس کے بعد آپ نے ایک گرہ لگائی۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، نیز تم مالِ غنیمت سے اللہ کے لیے خمس ادا کرو۔ اور میں تمہیں کدو کے برتن، لکڑی کو کرید کر بنائے گئے برتن، سنز مٹکوں اور تارکول کے برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کرتا ہوں۔‘‘

تشریح:

1۔ اس حدیث میں وفد عبدالقیس کی پہلی حاضری کا ذکر ہے۔ اس آمد کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کا ایک شخص منقذ بن حیان سامان تجارت لے کت مدینہ طیبہ آیا جایا کرتا تھا۔ وہ جب رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ ہجرت کے بعد پہلی بار ادھر آیا تو اسے اسلام کا علم ہوا تو وہ مسلمان ہو گیا۔ آخر کار رسول اللہ ﷺ کا ایک خط لے کر اپنی قوم کے پاس گیا تو انھوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ پھر ان کے تیرہ یا چودہ افراد پر مشتمل ایک وفد حرمت والے مہینے میں مدینہ طیبہ حاضر ہوا۔ اس دفعہ انھوں نے ایمان اور مشروبات کے متعلق سوال کیا تھا اس وفد کا سربراہ اشج تھا جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :’’تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ان میں سے ایک دور اندیشی اور دوسری بردباری ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:117(17)
2۔ دوسری بار اس قبیلے کا وفد وفود والے سال آیا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد چالیس تھی اور ان میں علاء بن جار دو عبدی تھا جو عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہو گیا اور اس کا اسلام بہت خوب رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دیکھ کر فرمایا: ’’مجھے تمھارے چہروں کی رنگت تبدیل شدہ معلوم ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان:178/16) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ انھیں پہلے دیکھ چکے تھے۔ (فتح الباري:107/8)

الحکم التفصیلی:


المواضيع

1. طلب العلم والعمل به (العلم) 2. الشاهد يبلغ الغائب (العلم) 3. وفد ربيعة عبدالقيس (السيرة) 4. وجوب الصلاة (العبادات) 5. وجوب الزكاة (العبادات) 6. المزفت يحمل فيه الخمر (الجنايات) 7. تخميس الغنائم (الجهاد) 8. الصيام من الإسلام (الإيمان) 9. الزكاة من الإسلام (الإيمان) 10. أواني الخمر (العبادات) 11. أواني المزفت (الأشربة والأطعمة) 12. إسلام قائل الشهادتين (الإيمان)

موضوعات

1. علم حاصل کرکے اس پر عمل کرنا (علم) 2. حاضرین مجلس غیر موجود لوگوں تک علم منتقل کریں (علم) 3. ربیعہ عبدالقیس کا وفد (سیرت) 4. نماز کی فرضیت (عبادات) 5. زکاۃ کا وجوب (عبادات) 6. تارکول ملے برتن میں شراب بنانا (جرائم و عقوبات) 7. مال غنیمت سے خمس نکالنا (جہاد) 8. روزہ اسلام كا ركن ہے (ایمان) 9. زکوٰۃ اسلام كا ركن ہے (ایمان) 10. شراب کے برتن (عبادات) 11. تارکول ملے ہوئے برتن (کھانے پینے کے آداب و احکام) 12. اسلام شہادتین کاحکم دیتا ہے (ایمان)

Topics

1. Seeking Knowledge and Following It (The Knowledge ) 2. The Attendants of the Must Transfer The Knowledge to Absentees (The Knowledge ) 3. Delegation Of Rabeea Abd Al Qais (Prophet's Biography) 4. Necessity of prayer (Prayers/Ibadaat) 5. Obligation of Zakaat (Prayers/Ibadaat) 6. Making wine in tarred pot (Crime and Persecution) 7. Giving away five percent from booty (Jihaad) 8. Fasting is also an article of Islam (Faith) 9. Zakat is an article of islam (Faith) 10. Utensils of Alcohol (Prayers/Ibadaat) 11. Tarred utensils (The ethics of meal and drinking) 12. Its an injunction of islam to testify (Faith)
Sharing Link:
ترقیم کوڈ اسم الترقيم نام ترقیم رقم الحديث (حدیث نمبر)
١ ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم 4402
٢ ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة) ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ) 4369
٣ ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة) انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام) 4021
٤ ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة) ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام) 4369
٥ ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة) ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام) 4111
٦ ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية) ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ) 4185
٧ ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية) ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ) 4369
٨ ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام) ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام) 4369
١٠ ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز) ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز) 4369

تمہید کتاب

کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی  تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس  تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے  سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے  گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی  گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ  تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس  پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چودہ  سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے  دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے  سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے  کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک  غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاسفر حجۃ  الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ  سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں  جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ  عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ  بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔

تمہید باب

اس قبیلے کا وفد دو مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا پہلی بار 5ہجری میں یا اس سے بھی پہلے اور دوسری بار عام الوفود9 ہجری میں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے انداز اور اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس عنوان کے تحت ان کی دوسری مرتبہ حاضری کو بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن جو احادیث پیش کی ہیں ان میں پہلی دفعہ حاضری کا ذکر ہے کیونکہ ان احادیث میں کفار مضر کے حائل ہونے کا ذکر ہے اور وہ فتح مکہ سے پہلے اس پوزیشن میں تھے فتح مکہ کے بعد کفر میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کو آنے جانے سے روک سکے اس وفد کے دونوں مرتبہ آنے کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔اذن اللہ تعالیٰ۔

  • ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
  • ٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
  • 5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
ترجمۃ الباب:


حدیث ترجمہ:

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم ربیعہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر رہتے ہیں۔ ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ کے پاس نہیں سکتے، لہذا آپ ہمیں چند ایسے امور کا حکم دیں جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے پیچھے جو لوگ ہیں ان کو دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے تمہیں منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا، یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اس کے بعد آپ نے ایک گرہ لگائی۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، نیز تم مالِ غنیمت سے اللہ کے لیے خمس ادا کرو۔ اور میں تمہیں کدو کے برتن، لکڑی کو کرید کر بنائے گئے برتن، سنز مٹکوں اور تارکول کے برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کرتا ہوں۔‘‘


حدیث حاشیہ:

1۔ اس حدیث میں وفد عبدالقیس کی پہلی حاضری کا ذکر ہے۔ اس آمد کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کا ایک شخص منقذ بن حیان سامان تجارت لے کت مدینہ طیبہ آیا جایا کرتا تھا۔ وہ جب رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ ہجرت کے بعد پہلی بار ادھر آیا تو اسے اسلام کا علم ہوا تو وہ مسلمان ہو گیا۔ آخر کار رسول اللہ ﷺ کا ایک خط لے کر اپنی قوم کے پاس گیا تو انھوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ پھر ان کے تیرہ یا چودہ افراد پر مشتمل ایک وفد حرمت والے مہینے میں مدینہ طیبہ حاضر ہوا۔ اس دفعہ انھوں نے ایمان اور مشروبات کے متعلق سوال کیا تھا اس وفد کا سربراہ اشج تھا جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :’’تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ان میں سے ایک دور اندیشی اور دوسری بردباری ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:117(17)
2۔ دوسری بار اس قبیلے کا وفد وفود والے سال آیا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد چالیس تھی اور ان میں علاء بن جار دو عبدی تھا جو عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہو گیا اور اس کا اسلام بہت خوب رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دیکھ کر فرمایا: ’’مجھے تمھارے چہروں کی رنگت تبدیل شدہ معلوم ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان:178/16) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ انھیں پہلے دیکھ چکے تھے۔ (فتح الباري:107/8)

ترجمۃ الباب:


حدیث ترجمہ:

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ابو جمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ جب قبیلہ عبد القیس کا وفد حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم قبیلہ ربیعہ کی ایک شاخ ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کے قبائل پڑتے ہیں۔ ہم حضور ﷺ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں میں ہی حاضر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے آپ ا چند ایسی باتیں بتلا دیجئے کہ ہم بھی ان پر عمل کریں اورجو لوگ ہمارے ساتھ نہیں آسکے ہیں، انہیں بھی اس کی دعوت دیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں (میں تمہیں حکم دیتا ہوں) اللہ پر ایمان لانے کا یعنی اس کی گواہی دینے کا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، پھر آپ انے (اپنی انگلی سے) ایک اشارہ کیا، اور نماز قائم کرنے کا، زکٰوۃ دینے کا اور اس کا کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (بیت المال کو) ادا کر تے رہنا اور میں تمہیں دباء، نقیر، مزفت اور حنتم کے بر تنوں کے استعمال سے روکتا ہوں۔


حدیث حاشیہ:

ترجمۃ الباب:


حدیث ترجمہ:

Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The delegation of 'Abdul Qais came to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) We belong to the tribe of Rabia. The infidels of Mudar tribe intervened between us and you so that we cannot come to you except in the Sacred Months, so please order us some things we may act on and invite those left behind to act on. The Prophet (ﷺ) said, "I order you to observe four things and forbid you from four things: (I order you) to believe in Allah, i.e. to testify that None has the right to be worshipped except Allah." The Prophet (ﷺ) pointed with finger indicating one and added, "To offer prayers perfectly: to give Zakat, and to give one-fifth of the booty you win (for Allah's Sake). I forbid you to use Ad-Dubba', An-Naquir, Al-Hantam and Al-Muzaffat, (Utensils used for preparing alcoholic liquors and drinks)


حدیث حاشیہ:

الحكم على الحديث

اسم العالم الحكم
إجماع علماء المسلمين

رابطہ کریں

  • مرکز النور: کالج روڈ، نزد غازی چوک، ٹاؤن شپ، لاہور ۔ پاکستان
  • 0092-300-0197274
  • contact@mohaddis.com

ہمارے دیگر پراجیکٹ

  • محدث لائبریری
  • محدث فتویٰ
  • محدث فورم
  • محدث میگزین
  • محدث میڈیا
  • قرآن لائبریری
  • رسائل و جرائد
  • محدث خطیب
  • محدث گیلری
  • شاملہ اردو