Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The delegation of ‘Abdul-Qais)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4370.
حضرت کریب مولی ابن عباس سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ، عبدلرحمٰن بن ازہر اور مسور بن مخرمہ ؓ نے انہیں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی طرف بھیجا اور کہا کہ انہیں ہم سب کی طرف سے سلام کہیں اور ان سے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے متعلق سوال کریں کیونکہ ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ آپ عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتی ہیں اور ہمیں یہ بھی خبر پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں حضرت عمر ؓ کے ہمراہ لوگوں کو ان دو رکعتوں کے پڑھنے کی بنا پر مارتا تھا۔ کریب کہتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں وہ پیغام پہنچایا جو ان حضرات نے مجھے دیا تھا۔ ام المومنین نے فرمایا: ان کے متعلق حضرت ام سلمہ ؓ سے دریافت کرو، چنانچہ میں نے ان حضرات کو حضرت ام المومنین کے ارشاد کی اطلاع دی تو انہوں نے مجھے حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس وہی پیغام دے کر بھیجا جو ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو دیا تھا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو ان دو رکعتوں سے منع کرتے ہوئے سنا۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نماز عصر پڑھی، پھر میرے پاس تشریف لائے جبکہ میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ میں نے آپ کے پاس خادمہ بھیجی اور اس سے کہا کہ آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر عرض کرو: اللہ کے رسول! ام سلمہ ؓ کے پاس وہی پیغام دے کر بھیجا جو ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو دیا تھا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو ان دو رکعتوں سے منع کرتے ہوئے سنا۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نماز عصر پڑھی، پھر میرے پاس تشریف لائے جبکہ میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ میں نے آپ کے پاس خادمہ بھیجی اور اس سے کہا کہ آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر عرض کرو: اللہ کے رسول! ام سلمہ ؓ کہتی ہیں: کیا میں نے آپ کو ان دو رکعتوں سے منع کرتے نہیں سنا ہے جبکہ اب میں آپ کو یہ دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ رہی ہوں؟ پھر اگر آپ ﷺ ہاتھ سے اشارہ فرمائیں تو پیچھے ہٹ جانا، چنانچہ خادمہ نے اسی طرح کیا۔ آپ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’اے ابو امیہ کی بیٹی! تم نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے متعلق پوچھا ہے۔ درصل میرے پاس قبیلہ عبدلقیس کے لوگ اپنی قوم کی جانب سے بغرض اسلام آئے تھے، جنہوں نے مجھے ظہر کی نماز کے بعد دو رکعتوں سے غافل کر دیا۔ یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس میں قبیلہ عبدالقیس کے لوگوں کا رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کا ذکر ہے۔ واضح رہے کہ وفد عبدالقیس رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دو دفعہ حاضر ہوا۔ ایک فتح مکہ سے پہلے چار یا پانچ ہجری میں، اس وقت یہ چودہ افراد پر مشتمل تھا۔ دوسری مرتبہ وفود کے سال حاضرہوا جبکہ اس وفد میں چالیس آدمی تھے۔ پہلے وفد کی تفصیل امام نووی ؒ نے بیان کی ہے کہ قبیلہ غنم بن ودیعہ کا ایک شخص "منقذبن حیان" زمانہ جاہلیت میں یثرب میں سامان تجارت لایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اپنے سامان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے رسول اللہ ﷺ گزرے منقذ اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تو منقذ بن حیان ہے؟ تیری قوم کا اکیا حال ہے؟‘‘ پھر تمام سرداروں کے متعلق دریافت کیا اور ان کے نام بھی بتائے، اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سورہ فاتحہ اور﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ کی تعلیم دی۔ اسے عبدالقیس کے چند افراد کے نام ایک خط بھی لکھ کر دیا۔ جب وہ واپس آیا تو تو اس خط کو کچھ دن چھپائے رکھا بالآخراس کی بیوی کو پتہ چلا جو اشج عصری کی بیٹی تھی اپنے گھر میں منقذ نماز پڑھتا اور اس کی بیوی ان عجیب و غریب حرکات کو دیکھتی، اس نے ایک دن اپنے باپ سے ذکر کیا کہ جب سے میرا خاوند یثرب سے واپس آیا ہے تو ہاتھ پاؤں دھو کر قبلہ رخ ہو جاتا ہے، کبھی اپنے آپ کو جھکا لیتا ہے اور کبھی اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دیتا ہے، جب اشج نے منقذ سے اس کے متعلق گفتگو کی تو اسلام کی حقانیت اس کے دل میں بیٹھ گئی۔ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کا خط لے کر اپنے قبیلہ عصر اور محارب کی طرف گیا خط پڑھ کر سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ ایک وفد تشکیل دیا گیا جن میں سے چند افراد کے نام یہ ہیں اشج عصری، یہ اس وفد کا امیر تھا مزیدہ بن مالک محاربی، عبیدہ بن ہمام محاربی، صحار بن عباس مری، عمرو بن موحوم عصری، حارث بن شعیب عصری اور حارث بن جندب، جب یہ وفد مدینہ کے قریب پہنچا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"ابھی تمھارے پاس اہل مشرق کے بہترین افراد پر مشتمل قبیلہ عبدالقیس کا وفد آنے والا ہے، اس میں اشج عصری بھی ہے۔" (شرح صحیح مسلم للنووي:253/1 ،254) حضرت عمر ؓ ان کے استقبال کے لیے گئے اور انھیں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی بشارت دی، پھر ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ (فتح الباري:107/8) 2۔ نماز عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کے متعلق تفصیل کتاب الصلاۃ میں گزر چکی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس وفد عبدالقیس کی وجہ سے اس حدیث کو یہاں پیش کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4186
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4370
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4370
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4370
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
اس قبیلے کا وفد دو مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا پہلی بار 5ہجری میں یا اس سے بھی پہلے اور دوسری بار عام الوفود9 ہجری میں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے انداز اور اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس عنوان کے تحت ان کی دوسری مرتبہ حاضری کو بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن جو احادیث پیش کی ہیں ان میں پہلی دفعہ حاضری کا ذکر ہے کیونکہ ان احادیث میں کفار مضر کے حائل ہونے کا ذکر ہے اور وہ فتح مکہ سے پہلے اس پوزیشن میں تھے فتح مکہ کے بعد کفر میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کو آنے جانے سے روک سکے اس وفد کے دونوں مرتبہ آنے کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔اذن اللہ تعالیٰ۔
حضرت کریب مولی ابن عباس سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ، عبدلرحمٰن بن ازہر اور مسور بن مخرمہ ؓ نے انہیں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی طرف بھیجا اور کہا کہ انہیں ہم سب کی طرف سے سلام کہیں اور ان سے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے متعلق سوال کریں کیونکہ ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ آپ عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتی ہیں اور ہمیں یہ بھی خبر پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں حضرت عمر ؓ کے ہمراہ لوگوں کو ان دو رکعتوں کے پڑھنے کی بنا پر مارتا تھا۔ کریب کہتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں وہ پیغام پہنچایا جو ان حضرات نے مجھے دیا تھا۔ ام المومنین نے فرمایا: ان کے متعلق حضرت ام سلمہ ؓ سے دریافت کرو، چنانچہ میں نے ان حضرات کو حضرت ام المومنین کے ارشاد کی اطلاع دی تو انہوں نے مجھے حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس وہی پیغام دے کر بھیجا جو ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو دیا تھا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو ان دو رکعتوں سے منع کرتے ہوئے سنا۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نماز عصر پڑھی، پھر میرے پاس تشریف لائے جبکہ میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ میں نے آپ کے پاس خادمہ بھیجی اور اس سے کہا کہ آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر عرض کرو: اللہ کے رسول! ام سلمہ ؓ کے پاس وہی پیغام دے کر بھیجا جو ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو دیا تھا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو ان دو رکعتوں سے منع کرتے ہوئے سنا۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نماز عصر پڑھی، پھر میرے پاس تشریف لائے جبکہ میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ میں نے آپ کے پاس خادمہ بھیجی اور اس سے کہا کہ آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر عرض کرو: اللہ کے رسول! ام سلمہ ؓ کہتی ہیں: کیا میں نے آپ کو ان دو رکعتوں سے منع کرتے نہیں سنا ہے جبکہ اب میں آپ کو یہ دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ رہی ہوں؟ پھر اگر آپ ﷺ ہاتھ سے اشارہ فرمائیں تو پیچھے ہٹ جانا، چنانچہ خادمہ نے اسی طرح کیا۔ آپ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’اے ابو امیہ کی بیٹی! تم نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے متعلق پوچھا ہے۔ درصل میرے پاس قبیلہ عبدلقیس کے لوگ اپنی قوم کی جانب سے بغرض اسلام آئے تھے، جنہوں نے مجھے ظہر کی نماز کے بعد دو رکعتوں سے غافل کر دیا۔ یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس میں قبیلہ عبدالقیس کے لوگوں کا رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کا ذکر ہے۔ واضح رہے کہ وفد عبدالقیس رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دو دفعہ حاضر ہوا۔ ایک فتح مکہ سے پہلے چار یا پانچ ہجری میں، اس وقت یہ چودہ افراد پر مشتمل تھا۔ دوسری مرتبہ وفود کے سال حاضرہوا جبکہ اس وفد میں چالیس آدمی تھے۔ پہلے وفد کی تفصیل امام نووی ؒ نے بیان کی ہے کہ قبیلہ غنم بن ودیعہ کا ایک شخص "منقذبن حیان" زمانہ جاہلیت میں یثرب میں سامان تجارت لایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اپنے سامان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے رسول اللہ ﷺ گزرے منقذ اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تو منقذ بن حیان ہے؟ تیری قوم کا اکیا حال ہے؟‘‘ پھر تمام سرداروں کے متعلق دریافت کیا اور ان کے نام بھی بتائے، اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سورہ فاتحہ اور﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ کی تعلیم دی۔ اسے عبدالقیس کے چند افراد کے نام ایک خط بھی لکھ کر دیا۔ جب وہ واپس آیا تو تو اس خط کو کچھ دن چھپائے رکھا بالآخراس کی بیوی کو پتہ چلا جو اشج عصری کی بیٹی تھی اپنے گھر میں منقذ نماز پڑھتا اور اس کی بیوی ان عجیب و غریب حرکات کو دیکھتی، اس نے ایک دن اپنے باپ سے ذکر کیا کہ جب سے میرا خاوند یثرب سے واپس آیا ہے تو ہاتھ پاؤں دھو کر قبلہ رخ ہو جاتا ہے، کبھی اپنے آپ کو جھکا لیتا ہے اور کبھی اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دیتا ہے، جب اشج نے منقذ سے اس کے متعلق گفتگو کی تو اسلام کی حقانیت اس کے دل میں بیٹھ گئی۔ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کا خط لے کر اپنے قبیلہ عصر اور محارب کی طرف گیا خط پڑھ کر سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ ایک وفد تشکیل دیا گیا جن میں سے چند افراد کے نام یہ ہیں اشج عصری، یہ اس وفد کا امیر تھا مزیدہ بن مالک محاربی، عبیدہ بن ہمام محاربی، صحار بن عباس مری، عمرو بن موحوم عصری، حارث بن شعیب عصری اور حارث بن جندب، جب یہ وفد مدینہ کے قریب پہنچا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"ابھی تمھارے پاس اہل مشرق کے بہترین افراد پر مشتمل قبیلہ عبدالقیس کا وفد آنے والا ہے، اس میں اشج عصری بھی ہے۔" (شرح صحیح مسلم للنووي:253/1 ،254) حضرت عمر ؓ ان کے استقبال کے لیے گئے اور انھیں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی بشارت دی، پھر ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ (فتح الباري:107/8) 2۔ نماز عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کے متعلق تفصیل کتاب الصلاۃ میں گزر چکی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس وفد عبدالقیس کی وجہ سے اس حدیث کو یہاں پیش کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے، کہا مجھ کو عمرو بن حارث نے خبر دی اور بکر بن مضر نے یوں بیان کیا کہ عبد اللہ بن وہب نے عمرو بن حارث سے روایت کیا، ان سے بکیر نے اور ان سے کریب (ابن عباس ؓ کے غلام) نے بیان کیا کہ ابن عباس، عبد الرحمن بن ازہر اور مسور بن مخرمہ نے انہیں عائشہ ؓ کی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ ام المومنین سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعتوں کے متعلق ان سے پوچھنا اور یہ کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ انہیں پڑھتی ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں پڑھنے سے روکا تھا۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ میں ان دو رکعتوں کے پڑھنے پر عمر ؓ کے ساتھ (ان کے دور خلافت میں) لوگوں کو مارا کرتا تھا۔ کریب نے بیان کیا کہ پھر میں ام المومنین کی خد مت میں حاضر ہوا اور ان کا پیغام پہنچایا۔ عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس کے متعلق ام سلمہ سے پو چھو، میں نے ان حضرات کو آکر اس کی اطلاع دی تو انہوں نے مجھ کو ام سلمہ ؓ کی خدمت میں بھیجا، وہ باتیں پوچھنے کے لیے جو عائشہ سے انہوں نے پچھوائی تھیں۔ ام سلمہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے خود بھی رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ عصر کے بعد دو رکعتوں سے منع کر تے تھے لیکن آپ ا نے ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی، پھر میرے یہاں تشریف لائے، میرے پاس اس وقت قبیلہ بنوحرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ نے دو رکعتيں ز پڑھی۔ یہ دیکھ کر میں نے خادمہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا اوراسے ہدایت کردی کہ حضور ﷺ کے پہلو میں کھڑی ہوجانا اور عرض کرنا کہ ام سلمہ ؓ نے پوچھا ہے یا رسول اللہ! میں نے تو آپ سے ہی سنا تھا اور آپ نے عصر کے بعد ان دو رکعتوں کے پڑھنے سے منع کیا تھا لیکن میں آج خود آپ کو دو رکعت پڑھتے دیکھ رہی ہوں۔ اگر آنحضرت ﷺ ہاتھ سے اشارہ کريں تو پھر پیچھے ہٹ جا نا۔ خادمہ نے میری ہدایت کے مطابق کیا اور حضور ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ پھر جب آپ فارغ ہوئے توآپ نے فرمایا اے ابو امیہ کی بیٹی! عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق تم نے سوال کیا ہے، وجہ یہ ہوئی تھی کہ قبیلہ عبد القیس کے کچھ لوگ میرے یہا ں اپنی قوم کا اسلام لے کر آئے تھے اور ان کی وجہ سے ظہر کے بعد کی دورکعتیں میں نہیں پڑھ سکا تھا یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب اس سے نکلتا ہے کہ آخر حدیث میں وفد عبد القیس کے آنے کا ذکر ہے جس دو گا نہ کا ذکر ہے یہ عصر کا دو گانہ نہ تھا بلکہ ظہر کا دو گانہ تھا۔ طحاوی کی روایت میں یہی ہے کہ میرے پاس زکوۃ کے اونٹ آئے تھے، میں ان کو دیکھنے میں یہ دوگانہ پڑھنا بھول گیا تھا۔ پھر مجھے یاد آیا تو گھر آکر تمہارے پاس ان کو پڑھ لیا۔ ابو امیہ ام المومنین ام سلمہ ؓ کے والد تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Bukair (RA) : That Kuraib, the freed slave of Ibn Abbas (RA) told him that Ibn Abbas (RA) , 'Abdur-Rahman bin Azhar and Al-Miswar bin Makhrama sent him to 'Aisha (RA) saying, "Pay her our greetings and ask her about our offering of the two-Rak'at after 'Asr Prayer, and tell her that we have been informed that you offer these two Rakat while we have heard that the Prophet (ﷺ) had forbidden their offering." Ibn 'Abbas (RA) said, "I and 'Umar used to beat the people for their offering them." Kuraib added, "I entered upon her and delivered their message to her.' She said, 'Ask Um Salama.' So, I informed them (of 'Aisha's answer) and they sent me to Um Salama for the same purpose as they sent me to 'Aisha (RA). Um Salama replied, 'I heard the Prophet (ﷺ) forbidding the offering of these two Rakat. Once the Prophet (ﷺ) offered the 'Asr prayer, and then came to me. And at that time some Ansari women from the Tribe of Banu Haram were with me. Then (the Prophet) offered those two Rakat, and I sent my (lady) servant to him, saying, 'Stand beside him and say (to him): Um Salama says, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Didn't I hear you forbidding the offering of these two Rakat (after the Asr prayer yet I see you offering them?' And if he beckons to you with his hand, then wait behind.' So the lady slave did that and the Prophet (ﷺ) beckoned her with his hand, and she stayed behind, and when the Prophet (ﷺ) finished his prayer, he said, 'O the daughter of Abu Umaiya (i.e. Um Salama), You were asking me about these two Rakat after the 'Asr prayer. In fact, some people from the tribe of 'Abdul Qais came to me to embrace Islam and busied me so much that I did not offer the two Rakat which were offered after Zuhr compulsory prayer, and these two Rakat (you have seen me offering) make up for those."