Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The arrival of Al-Ash’ariyun and the people of Yemen)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( یہ لوگ بصورت وفد ۷ھ میں خیبر کے فتح ہونے پر حاضر خدمت ہوئے تھے ) اورا بومو سیٰ اشعری ؓنے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ اشعری لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں ۔
4391.
حضرت علقمہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس تھے کہ حضرت خباب بن ارت ؓ تشریف لائے اور کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! کیا یہ نوجوان آپ کی طرح قرآن پڑھ سکتے ہیں؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو میں ان میں سے کسی کو حکم کرتا ہوں کہ وہ قرآن پڑھے۔ حضرت خباب ؓ نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اے علقمہ! تم قرآن پڑھو۔ یہ سن کر زیاد بن حدیر کے بھائی زید بن حدیر نے کہا: آپ علقمہ کو قرآن پڑھنے کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ وہ ہم سے اچھا قرآن پڑھنے والا نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا: اگر تم چاہو تو میں نبی ﷺ کی حدیث سناؤں جو آپ نے تمہاری قوم اور اس کی قوم کے متعلق ارشاد فرمائی تھی۔ حضرت علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سورہ مریم کی پچاس آیات پڑھ کر سنائیں۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے حضرت خباب ؓ سے فرمایا: کہو کیسا پڑھتا ہے؟ حضرت خباب ؓ نے کہا: بہت خوب پڑھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: جو آیت میں پڑھتا ہوں علقمہ اسی طرح پڑھتا ہے، پھر انہوں نے حضرت خباب ؓ کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اسے پھینک دیا جائے؟ حضرت خباب ؓ نے فرمایا: آج کے بعد آپ یہ انگوٹھی میرے ہاتھ میں نہیں دیکھیں گے، چنانچہ انہوں نے انگوٹھی کو اتار پھینکا۔ اس حدیث کو غندر نے شعبہ سے بیان کیا ہے۔
تشریح:
1۔ اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس حدیث میں حضرت علقمہ کا ذکر خیر ہے جن کا تعلق یمن کے مشہور قبیلے نخع سے ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ قبیلہ نخع کے لیے اس قدر دعا کی یا اس قدر تعریف فرمائی کہ مجھے قبیلہ نخع سے ہونے کا شوق لا حق ہوا۔ (مسند أحمد:84/4۔ والسلسلة الصحیحة للألباني، حدیث:3435) اس کے برعکس زیدبن حدیر قبیلہ بنو اسد سے ہیں جس کی رسول اللہ ﷺ نے مذمت فرمائی کہ قبیلہ جہینہ بنو اسد اور غطفان سے بہتر ہے۔ اسی فضیلت کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے حضرت علقمہ کی قرآءت کو ترجیح دی۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک شاگرد ہونے کے اعتبار سے دونوں برابر حیثیت رکھتے تھے لیکن علقمہ کی اصل زید کی اصل سے بہت تھی اس سے حضرت علقمہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام کے کچھ احکام صحابہ کرام ؓ سے مخفی تھے تاہم جب انھیں اس کی حقیقت کا پتہ چلتا تو اس سے فوراً رجوع کر لیتے۔ (فتح الباري:126/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4205
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4391
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4391
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4391
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
اشعری حضرات بھی اہل یمن سے ہیں تاہم اہل یمن سے مراد وفد حمیر ہے ایاس بن عمیر حمیری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم حمیر قبیلے کے ہمراہ آئے اور عرض کی کہ ہم آپ سے دین سیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ وفود کے سال آئے تھے جبکہ اشعری حضرات غزوہ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد صرف ان حضرات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آمد کو بیان کرنا ہےخواہ وہ جس وقت بھی ہوئی ہو۔( فتح الباری:8/122۔) مذکورہ مطلق روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے(صحیح البخاری الشرکاۃ حدیث 2488۔)۔اشعری حضرات مجھ سے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت اور مال خرچ کرنے میں مجھ سے متصل ہیں یعنی میرے طریقے پر ہیں۔ واللہ اعلم۔
( یہ لوگ بصورت وفد ۷ھ میں خیبر کے فتح ہونے پر حاضر خدمت ہوئے تھے ) اورا بومو سیٰ اشعری ؓنے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ اشعری لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت علقمہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس تھے کہ حضرت خباب بن ارت ؓ تشریف لائے اور کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! کیا یہ نوجوان آپ کی طرح قرآن پڑھ سکتے ہیں؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو میں ان میں سے کسی کو حکم کرتا ہوں کہ وہ قرآن پڑھے۔ حضرت خباب ؓ نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اے علقمہ! تم قرآن پڑھو۔ یہ سن کر زیاد بن حدیر کے بھائی زید بن حدیر نے کہا: آپ علقمہ کو قرآن پڑھنے کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ وہ ہم سے اچھا قرآن پڑھنے والا نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا: اگر تم چاہو تو میں نبی ﷺ کی حدیث سناؤں جو آپ نے تمہاری قوم اور اس کی قوم کے متعلق ارشاد فرمائی تھی۔ حضرت علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سورہ مریم کی پچاس آیات پڑھ کر سنائیں۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے حضرت خباب ؓ سے فرمایا: کہو کیسا پڑھتا ہے؟ حضرت خباب ؓ نے کہا: بہت خوب پڑھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: جو آیت میں پڑھتا ہوں علقمہ اسی طرح پڑھتا ہے، پھر انہوں نے حضرت خباب ؓ کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اسے پھینک دیا جائے؟ حضرت خباب ؓ نے فرمایا: آج کے بعد آپ یہ انگوٹھی میرے ہاتھ میں نہیں دیکھیں گے، چنانچہ انہوں نے انگوٹھی کو اتار پھینکا۔ اس حدیث کو غندر نے شعبہ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس حدیث میں حضرت علقمہ کا ذکر خیر ہے جن کا تعلق یمن کے مشہور قبیلے نخع سے ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ قبیلہ نخع کے لیے اس قدر دعا کی یا اس قدر تعریف فرمائی کہ مجھے قبیلہ نخع سے ہونے کا شوق لا حق ہوا۔ (مسند أحمد:84/4۔ والسلسلة الصحیحة للألباني، حدیث:3435) اس کے برعکس زیدبن حدیر قبیلہ بنو اسد سے ہیں جس کی رسول اللہ ﷺ نے مذمت فرمائی کہ قبیلہ جہینہ بنو اسد اور غطفان سے بہتر ہے۔ اسی فضیلت کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے حضرت علقمہ کی قرآءت کو ترجیح دی۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک شاگرد ہونے کے اعتبار سے دونوں برابر حیثیت رکھتے تھے لیکن علقمہ کی اصل زید کی اصل سے بہت تھی اس سے حضرت علقمہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام کے کچھ احکام صحابہ کرام ؓ سے مخفی تھے تاہم جب انھیں اس کی حقیقت کا پتہ چلتا تو اس سے فوراً رجوع کر لیتے۔ (فتح الباري:126/8)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "وہ (اشعری) مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان بیان کیا، ان سے ابو حمزہ محمد بن میمون، ان سے اعمش نے، ان سے ابراھیم نخعی نے اور ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ ہم عبد اللہ بن مسعود ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں خباب بن ارت ؓ مشہور صحابی تشریف لائے اور کہا، ابو عبد الرحمن! کیا یہ نوجوان لوگ (جوتمہارے شاگرد ہیں) اسی طرح قرآن پڑھ سکتے ہیں جیسے آپ پڑھتے ہیں؟ ابن مسعود ؓ نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں کسی سے تلاوت کے لیے کہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ ضرور۔ اس پر ابن مسعود ؓ نے کہا، علقمہ! تم پڑھو، زید بن حدیر، زیاد بن حدیر کے بھائی، بولے آپ علقمہ سے تلاوت قرآن کے لیے فرماتے ہیں حالانکہ وہ ہم سب سے اچھے قاری نہیں ہیں۔ ابن مسعود نے کہا اگر تم چاہو تومیں تمہیں وہ حدیث سنا دوں جو رسو ل اللہ ﷺ نے تمہاری قوم کے حق میں فرمائی تھی۔ خیر علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سورۃ مریم کی پچاس آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے خباب ؓ سے پو چھا کہو کیسا پڑھتا ہے؟ خباب ؓ نے کہا بہت خوب پڑھا۔ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ جو آیت بھی میں جس طرح پڑھتا ہوں علقمہ بھی اسی طرح پڑھتا ہے، پھر انہوں نے خباب ؓ کو دیکھا، ان کے ہاتھ میں سونے کی انگو ٹھی تھی، تو کہا کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے کہ یہ انگوٹھی پھینک دی جائے۔ خباب ؓ نے کہا کہ آج کے بعد آپ یہ انگوٹھی میرے ہاتھ میں نہیں دیکھیں گے۔ چنانچہ انہوں نے انگوٹھی اتار دی۔ اسی حدیث کو غندر نے شعبہ سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
زید بن حدیر بنو اسد میں سے تھے، آنحضرت ﷺ نے جہینہ کو بنو اسد اور غطفان سے بتلایا اور علقمہ نخع قبیلے کے تھے۔ امام احمد اور بزار نے ابن مسعود ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نخع قبیلے کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے، اس کی تعریف کر تے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ کاش! میں بھی اس قبیلے سے ہوتا۔ غندر کی روایت کو ابو نعیم نے مستخرج کے اندر وصل کیا ہے۔ شاید خباب سونا پہننے کو مکروہ تنزیہی سمجھتے ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی تنبیہ پر کہ سونا پہننا حرام ہے، انہوں نے اس انگو ٹھی کو نکال پھینکا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Alqama (RA) : We were sitting with Ibn Masud when Khabbab came and said, "O Abu Abdur-Rahman! Can these young fellows recite Qur'an as you do?" Ibn Mas'ud (RA) said, "If you wish I can order one of them to recite (Qur'an) for you ." Khabbab replied, "Yes. "Ibn Mas'ud (RA) said, "Recite, O 'Alqama!" On that, Zaid bin Hudair, the brother of Ziyad bin Hudair said, (to Ibn Mas'ud (RA)), "Why have you ordered 'Alqama to recite though he does not recite better than we?" Ibn Mas'ud (RA) said, "If you like, I would tell you what the Prophet (ﷺ) said about your nation and his (i.e. 'Alqama's) nation." So I recited fifty Verses from Sura-Maryam. 'Abdullah (bin Mas'ud) said to Khabbab, "What do you think (about 'Alqama's recitation)?" Khabbab said, "He has recited well." 'Abdullah said, "Whatever I recite, 'Alqama recites." Then 'Abdullah turned towards Khabbab and saw that he was wearing a gold ring, whereupon he said, "Hasn't the time for its throwing away come yet?" Khabbab said, "You will not see me wearing it after today," and he throw it away.