Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To lie flat (on the back) in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
475.
حضرت عبداللہ بن زید انصاری ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں چت لیٹے اور پاؤں پر پاؤں رکھے ہوئے دیکھا تھا۔ ابن شہاب زہری حضرت سعید بن مسیب سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ بھی ایسے کیا کرتے تھے۔
تشریح:
1۔ صحیح بخاری ؒ کے بعض نسخوں میں عنوان کے ساتھ "مدالرجل" کے الفاظ ہیں بعض میں نہیں ۔ ہمارے نسخے میں یہ الفاظ موجود ہیں، لہٰذا اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ مسجد میں چت لیٹنا اور پاؤں پھیلانا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ مسجد میں عبادت کی جگہ ہے سونے اور لیٹنے کی جگہ نہیں، نیز بعض احادیث میں اس کی ممانعت بھی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی چت نہ لیٹے پھر یہ بھی نہ کرے۔ کہ اپنا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھ لے۔‘‘(صحیح مسلم، اللباس، حدیث:5503 (2099)) تو اس ممانعت کے متعلق کہا جائے گا کہ اس کا محمل اور محل اور ہے۔ یہ اس صورت میں ہوگا جب ستر عورت کا پوری طرح اہتمام نہ ہو سکے، مثلاً:کپڑا چھوٹا ہو اور اس طرح لیٹنے سے ستر کھل جانے کا اندیشہ ہو۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس وقت عرب معاشرے میں تہبند استعمال کرنے کا رواج تھا شلواروغیرہ نہیں پہنی جاتی تھی، تاہم اگر کپڑا گنجائش دار ہے اور ستر کھلنے کا کوئی اندیشہ نہیں، بلکہ ستر عورت کا پورا اہتمام کیا ہے تو اس طرح چت لیٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی قابل غور ہے کہ رسول اللہ ﷺ عام لوگوں کی موجودگی میں اس طرح نہیں لیٹتے تھے، بلکہ خاص استراحت کے وقت کبھی ایسا کیا ہو گا جبکہ عام لوگ وہاں موجود نہ ہوں گے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں کے سامنے جس وقار اور سنجیدگی کے ساتھ تشریف فرما ہوتے تھے، اس کی تفصیلات بھی احادیث میں موجود ہیں رہا۔ یہ احتمال کہ اس طرح لیٹنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہ ہو تو اس کے لیے امام بخاری ؒ نے خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا عمل بھی پیش کردیا۔ معلوم ہوا کہ اس طرح مسجد میں لیٹنا رسول اللہ ﷺ کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی جائز ہے۔ (فتح الباري:729/1) امام حمیدی ؒ نے حضرت ابو بکرصدیق ؓ کا نام بھی اس فہرست میں شامل کیا ہے کہ ان کا عمل بھی ایسا تھا۔ (عمدة القاري:540/3) 2۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس عنوان میں دوباتوں کا جواز پیش کیا جا رہا ہے، چت لیٹنا اور ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھ کر لیٹنا ۔ دوسری احادیث میں اس کی ممانعت بھی آئی ہے، اس لیے تطبیق کے طور پر کہا جائے گا کہ ممانعت والی حدیث منسوخ ہیں یا ممانعت اس وقت ہے جب تہبند چھوٹا ہو اور اس سے ستر کھلنے کا اندیشہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
471
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
475
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
475
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
475
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت عبداللہ بن زید انصاری ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں چت لیٹے اور پاؤں پر پاؤں رکھے ہوئے دیکھا تھا۔ ابن شہاب زہری حضرت سعید بن مسیب سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ بھی ایسے کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ صحیح بخاری ؒ کے بعض نسخوں میں عنوان کے ساتھ "مدالرجل" کے الفاظ ہیں بعض میں نہیں ۔ ہمارے نسخے میں یہ الفاظ موجود ہیں، لہٰذا اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ مسجد میں چت لیٹنا اور پاؤں پھیلانا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ مسجد میں عبادت کی جگہ ہے سونے اور لیٹنے کی جگہ نہیں، نیز بعض احادیث میں اس کی ممانعت بھی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی چت نہ لیٹے پھر یہ بھی نہ کرے۔ کہ اپنا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھ لے۔‘‘(صحیح مسلم، اللباس، حدیث:5503 (2099)) تو اس ممانعت کے متعلق کہا جائے گا کہ اس کا محمل اور محل اور ہے۔ یہ اس صورت میں ہوگا جب ستر عورت کا پوری طرح اہتمام نہ ہو سکے، مثلاً:کپڑا چھوٹا ہو اور اس طرح لیٹنے سے ستر کھل جانے کا اندیشہ ہو۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس وقت عرب معاشرے میں تہبند استعمال کرنے کا رواج تھا شلواروغیرہ نہیں پہنی جاتی تھی، تاہم اگر کپڑا گنجائش دار ہے اور ستر کھلنے کا کوئی اندیشہ نہیں، بلکہ ستر عورت کا پورا اہتمام کیا ہے تو اس طرح چت لیٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی قابل غور ہے کہ رسول اللہ ﷺ عام لوگوں کی موجودگی میں اس طرح نہیں لیٹتے تھے، بلکہ خاص استراحت کے وقت کبھی ایسا کیا ہو گا جبکہ عام لوگ وہاں موجود نہ ہوں گے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں کے سامنے جس وقار اور سنجیدگی کے ساتھ تشریف فرما ہوتے تھے، اس کی تفصیلات بھی احادیث میں موجود ہیں رہا۔ یہ احتمال کہ اس طرح لیٹنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہ ہو تو اس کے لیے امام بخاری ؒ نے خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا عمل بھی پیش کردیا۔ معلوم ہوا کہ اس طرح مسجد میں لیٹنا رسول اللہ ﷺ کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی جائز ہے۔ (فتح الباري:729/1) امام حمیدی ؒ نے حضرت ابو بکرصدیق ؓ کا نام بھی اس فہرست میں شامل کیا ہے کہ ان کا عمل بھی ایسا تھا۔ (عمدة القاري:540/3) 2۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس عنوان میں دوباتوں کا جواز پیش کیا جا رہا ہے، چت لیٹنا اور ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھ کر لیٹنا ۔ دوسری احادیث میں اس کی ممانعت بھی آئی ہے، اس لیے تطبیق کے طور پر کہا جائے گا کہ ممانعت والی حدیث منسوخ ہیں یا ممانعت اس وقت ہے جب تہبند چھوٹا ہو اور اس سے ستر کھلنے کا اندیشہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک کے واسطہ سے، انھوں نے ابن شہاب زہری سے، انھوں نے عباد بن تمیم سے، انھوں نے اپنے چچا ( عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی ؓ ) سے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو چت لیٹے ہوئے دیکھا۔ آپ اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔ ابن شہاب زہری سے مروی ہے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ عمر ؓ اور عثمان ؓ بھی اسی طرح لیٹتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
چت لیٹ کر ایک پاؤں دوسرے پر رکھنے کی ممانعت بھی آئی ہے اوراس حدیث میں ہے کہ آنحضور ﷺ اورحضرت عمر ؓ و عثمان ؓ بھی اس طرح لیٹا کرتے تھے۔ اس لیے کہا جائے گا کہ ممانعت اس صورت میں ہے جب شرمگاہ بے پردہ ہونے کا خطرہ ہو۔ کوئی شخص سترپوشی کا پورا اہتمام کرتاہے، پھر اس طرح چت لیٹ کر سونے میں مضائقہ نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abbad bin Tamim (RA): That his uncle said, "I saw Allah's Apostle (ﷺ) lying flat (on his back) in the mosque with one leg on the other." Narrated Said bin Al-Musaiyab that 'Umar and 'Uthman used to do the same.