باب: آیت لولا اذسمعتموہ ظن المومنون الایۃ کی تفسیریعنی جب تم لوگوں نے یہ بری خبر سنی تھی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنی ماں کے حق میں نیک گمان کیا اور یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح جھوٹا طوفان لگانا ہے، یہ بہتان باز، نزدیک اللہ اپنے قول پر چار گواہ کیوں نہ لائے، سو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو بس یہ لوگ اللہ کے نزدیک سر بسر جھوٹے ہی ہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophetic Commentary on the Qur'an (Tafseer of the Prophet (pbuh))
(Chapter: "Why then did not the believers, men and women, when you heard it (the slander) think good of their own people and say, 'This (charge) is an obvious lie ... then with Allah they are the liars." (V.24:12-13))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4750.
حضرت ابن شہاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا واقعہ بیان کیا جبکہ تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور اللہ تعالٰی نے آپ کو اس تہمت سے پاک قرار دیا تھا۔ ان تمام حضرات نے حدیث کا ایک ایک ٹکڑا مجھ سے بیان کیا اور ان حضرات میں سے ایک کا بیان دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ حضرات کو دوسروں کے مقابلے میں حدیث زیادہ بہتر طریقےسے یاد تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر نے مجھے حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے اس طرح بیان کیا کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کسی سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔ جس کا نام نکل آتا رسول اللہ ﷺ اسے اپنے ساتھ لے جاتے، چنانچہ آپ ﷺ نے ایک غزوے میں جانے کے لیے قرعہ اندازی کی تو قرعہ میرے نام نکل آیا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہو گئی اور یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودج میں سوار ہوتی اور جب اتری تو ہودج سمیت اتاری جاتی۔ ہم اس طرح سفر کرتے رہے حتی کہ رسول اللہ ﷺ اس غزوے سے فارغ ہو کر لوٹے تو ہم لوگ مدینہ طیبہ کے نزدیک آ پہنچے۔ ایک رات (پڑاؤ کے بعد) جب کوچ کا حکم ہوا تو میں انہی اور پیدل چل کر لشکر سے پار نکل گئی۔ جب حاجت سے فارغ ہو کر لشکر کی طرف آنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا اظفار کے نگینوں کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرا ہودج اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے انہوں نے ہودج اٹھایا اور اونٹ پر رکھ دیا انہوں نے یہ سمجھا کہ میں ہودج میں ہوں کیونکہ اس وقت عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، پُر گوشت اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں، اس لیے کہ وہ کھانا تھوڑا کھایا کرتی تھیں، لہذا ان لوگوں نے جب ہودج (کجاوہ) اٹھایا تو ہلکے پن میں انہیں کوئی اجنبیت محسوس نہ ہوئی۔ اس کے علاوہ میں اس وقت یوں بھی کم عمر لڑکی تھی۔ خیر وہ ہودج اونٹ پر لاد کر چل دیے۔ لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار مجھے مل گیا تو میں اس ٹھکانے کی طرف چلی گئی جہاں رات کے وقت اترے تھے، دیکھا تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا، یعنی سب جا چکے تھے۔ میں نے اپنی اسی جگہ کا ارادہ کیا جہاں میں پہلے تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ میں وہاں بیٹھی رہی۔ نیند نے غلبہ کیا تو میں سو گئی۔ لشکر کے پیچھے پیچھے حضرت صفوان بن معطل سلمی ذکوانی ؓ مقرر تھے۔ وہ پچھلی رات چلے اور صبح کے وقت میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے۔ انہوں نے دور سے کسی انسان کو سوتے ہوئے دیکھا۔ پھر جب میرے قریب آئے تو مجھے پہچان لیا کیونکہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب انہوں نے مجھے پہچان کر إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ پڑھا تو میں بیدار ہو گئی اور اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم! انہوں نے نہ مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ کے علاوہ کوئی اور بات سنی۔ انہوں نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کا پاؤں اپنے پاؤں سے دبائے رکھا تو میں اس پر سوار ہو گئی۔ وہ پیدل چلتے رہے اور اپنی اونٹنی کو چلاتے رہے یہاں تک کہ ہم لشکر سے اس وقت جا ملے جب وہ عین دوپہر کے وقت گرمی کی شدت کی وجہ سے اترے ہوئے تھے، چنانچہ جن لوگوں کی قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوئے۔ اس تہمت کو سب سے زیادہ پھیلانے والا عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ طیبہ پہنچے تو وہاں پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور مہینہ بھر بیمار رہی۔ اس عرصے میں لوگ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے لیکن مجھے اس تہمت کے متعلق کوئی خبر نہ ہوئی، البتہ ایک معاملے سے مجھے شبہ سا ہوتا تھا کہ میں اس بیماری میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس لطف و محبت کا اظہار نہیں دیکھتی تھی جو سابقہ علالت کے دنوں میں دیکھ چکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لاتے، سلام کرتے اور صرف اتنا پوچھ لیتے کہ ’’تم کیسی ہو؟‘‘ پھر واپس چلے جاتے۔ اس رویے سے مجھے کچھ شک تو پڑتا مگر کسی بری بات کی خبر نہ تھی۔ ایک دن بیماری سے افاقہ کے بعد میں باہر نکلی جبکہ نقاہت بدستور باقی تھی۔ میرے ہمراہ حضرت ام مسطح بھی نکلیں۔ ہم مناصع کی طرف گئے۔ ہم لوگ قضائے حاجت کے لیے وہیں جایا کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم نے اپنے گھروں کے نزدیک بیت الخلاء نہیں بنائے تھے بلکہ اگلے زمانے کے عربوں کی طرح رفع حاجت کے لیے جنگل جایا کرتے تھے کیونکہ گھروں کے نزدیک بیت الخلء بنانے سے ان کی بدبو ہمیں تکلیف دیتی۔ خیر میں اور ام مسطح قضائے حاجت کے لیے روانہ ہو گئیں، وہ ابورہم بن عبد مناف کی صاجزادی تھیں اور اس کی ماں صخر بن عامر کی دختر تھیں جو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خالہ تھیں۔ حضرت مسطح بن اثاثہ اس کا بیٹا تھا۔ پھر میں اور ام مسطح دونوں قضائے حاجت کے بعد جب گھر واپس آنے لگیں تو ام مسطح کا پاؤں ان کی چادر میں الجھ کر پھسل گیا۔ اس پر ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: مسطح ہلاک ہوا۔ میں نے انہیں کہا: آپ نے بری بات کہی ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو کوستی ہو جو غزوہ بدر میں شریک تھا؟ وہ کہنے لگی: اے بھولی لڑکی! کیا تم نے وہ کچھ بھی سنا ہے جو اس نے کہا ہے؟ میں نے کہا: اس نے کیا کہا ہے؟ تب انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں۔ یہ سننے کے بعد میری بیماری میں مزید اضافہ ہو گیا۔ جب میں گھر گئی تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور سلام کر کے پوچھا: ’’اب کیسی ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: آپ مجھے میرے والدین کے ہاں جانے کی اجازت دیتے ہیں؟ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ والدین سے اس خبر کی تصدیق کروں۔ الغرض رسول اللہ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی تو میں اپنے والدین کے پاس آ گئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا: امی! یہ لوگ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: بیٹی، صبر کرو، اللہ کی قسم! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو سوکنیں بہت کچھ کرتی رہتی ہیں۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! لوگوں نے اس کا چرچا بھی کر دیا ہے؟ چنانچہ میں ساری رات روتی رہی، صبح ہو گئی مگر نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی، صبح تک میں روتی ہی رہی۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت اسامہ بن زید ؓ کو بلایا کیونکہ اس معاملے میں آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی اور آپ اس سلسلے میں ان سے مشورہ لینا چاہتے تھے کہ میں اپنی اہلیہ کو ساتھ رکھوں یا طلاق دے دوں، چنانچہ حضرت اسامہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو وہی مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ سیدہ عائشہ ؓ ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپ ﷺ کو ان سے کس قدر تعلق خاطر ہے۔ انہوں نے صاف صاف کہا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ کی اہلیہ کے بارے میں خیروبھلائی کے علاوہ کسی چیز کا علم نہیں۔ البتہ حضرت علی ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی۔ عورتیں ان کے علاوہ اور بہت ہیں۔ اگر آپ اس سلسلے میں حضرت بریرہ ؓ سے پوچھیں تو وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک بتا دے گی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ ؓ کو بلایا اور اس سے پوچھا: ’’بریرہ! کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے تمہیں کوئی شبہ گزرا ہو؟‘‘حضرت بریرہ ؓ نے کہا: نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جس کی بنیاد پر میں کوئی عیب لگا سکوں۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہے، اپنے گھر والوں کے لیے آٹا گوندھ کر سو جاتی ہے اتنے میں گھر کی بکری آتی ہے اور آٹا کھا جاتی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی کے خلاف آپ نے مدد چاہتے ہوئے فرمایا: ’’مسلمانو! ایک ایسے شخص کے خلاف میری کون مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے اہل خانہ تک پہنچ گئی ہے؟ اللہ کی قسم! میں اپنی اہلیہ کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس شخص کا نام لے رہے ہیں، اس کے متعلق بھی میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر گئے ہیں تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت سعد بن معاذ ؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: میں اس کے خلاف آپ کی مدد کرتا ہوں۔ اگر یہ اوس قبیلے کا ہے تو میں ابھی اس کی گردن اڑا دیتا ہوں اور اگر وہ ہمارے بھائیوں، یعنی قبیلہ خزرج کا ہے تو آپ ہمیں جو حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ اس کے بعد حضرت سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے۔ وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔ وہ ایک نیک سیرت آدمی تھے مگر آج ان پر قومی حمیت غالب آ گئی۔ کہنے لگے: اے سعد بن معاذ! اللہ کی قسم! تم نے غلط کہا ہے۔ تم اسے قتل نہیں کر سکتے اور نہ تجھ میں اسے قتل کرنے کی ہمت ہے۔ اس دوران میں حضرت اسید بن حضیر ؓ کھڑے ہوئے جو حضرت سعد بن معاذ ؓ کے چچا زاد بھائی تھے، وہ حضرت سعد بن عبادہ سے کہنے لگے: اللہ کی قسم! تجھے غلط فہمی ہوئی ہے، ہم اسے ضرور قتل کریں گے۔ کیا تو بھی منافق ہو گیا ہے جو منافقین کی طرف داری کرتا ہے۔ اتنے میں دونوں قبیلے اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس میں قتل و قتال تک پہنچ گئی۔ رسول اللہ ﷺ ابھی منبر ہی پر تھے، آپ لوگوں کو خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے۔ جب وہ خاموش ہوئے تو آپ بھی خاموش ہو گئے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میرا وہ دن بھی رونے میں گزرا اور میں مسلسل دو دن سے رو رہی تھی، نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند ہی آتی تھی۔ میرے والدین سوچنے لگے کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے جبکہ میں روئے جا رہی تھی کہ اس دوران میں قبیلہ انصار کی ایک عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ میں نے اسے اجازت دے دی تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ اندر تشریف لائے۔ آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ قبل ازیں جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی، آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ آپ نے مہینہ بھر اس معاملے کے متعلق انتظار کیا، آپ پر میرے متعلق کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے میرے پاس بیٹھنے کے بعد خطبہ پڑھا، پھر فرمایا: ’’عائشہ! تیرے متعلق مجھے اس طرح کی خبریں ملی ہیں، اگر تم بے گناہ ہو تو اللہ تعالٰی تمہاری براءت (اور پاک دامنی) خود بیان فر دے گا لیکن اگر تم سے غلطی کی بنا پر کوئی گناہ ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر لیتا ہے، پھر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔‘‘ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی گفتگو ختم کر چکے تو یکبارگی میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی میری آنکھوں میں باقی نہ رہا۔ میں نے اپنے والد گرامی سے عرض کی: آپ رسول اللہ ﷺ کو ان کی بات کا جواب دیں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میں آپ کو اس سلسلے میں کیا کہوں؟ پھر میں نے اپنی والدہ ماجدہ سے عرض کی: آپ رسول اللہ ﷺ کو (میری طرف سے) جواب دیں تو انہوں نے بھی یہی کہا: اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو کیا عرض کروں۔ آخر کار میں خود ہی بول اٹھی، میں اس وقت ایک نو عمر لڑکی تھی، میں نے بہت زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا، میں نے عرض کی: اللہ کی قسم! میں اس قدر تو جانتی ہوں کہ میرے متعلق آپ حضرات نے جو کچھ سنا ہے وہ آپ کے دل و دماغ پر جم گیا ہے اور آپ لوگ اسے صحیح سمجھنے لگے ہیں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں بے گناہ ہوں ۔۔ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں ۔۔ تو بھی آپ لوگ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے اور اگر میں گناہ کا اقرار کر لوں ۔۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں ۔۔ تو آپ لوگ گناہ کے اقرار میں مجھے سچا خیال کریں گے۔ اللہ کی قسم! میں اپنی اور تمہاری مثال ایسی ہی سمجھتی ہوں جیسے سیدنا یوسف ؑ کے والد کی تھی، انہوں نے جو کچھ کہا تھا میں بھی وہی کچھ کہتی ہوں: ’’اب صبر کرنا ہی بہتر ہے اور تمہاری باتوں پر اللہ میری مدد کرنے والا ہے۔‘‘ پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ میں بے گناہ ہوں اور اللہ تعالٰی ضرور میری براءت کرے گا، لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالٰی میرے بارے میں ایسی آیات نازل فرمائے گا جو ہمیشہ پڑھی جائیں گی۔ میں اپنی شان اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی۔ ہاں، مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہ ﷺ کوئی ایسا خواب دیکھیں گے جس سے آپ پر میری بے گناہی واضح ہو جائے گی۔ پھر اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ ابھی اپنی مجلس میں تشریف فرما تھے اور گھر والوں میں سے بھی کوئی باہر نہیں نکلا تھا کہ آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا اور وہی کیفیت طاری ہوئی جو نزول کے وقت آپ پر طاری ہوتی تھی، یعنی آپ پسینے سے شرابور ہو گئے اور پسینہ موتیوں کی طرح آپ کے بدن سے ٹپکنے لگا، حالانکہ وہ دن سخت سردی کا تھا۔ یہ کیفیت آپ پر وحی کی شدت کی بنا پر طاری ہوتی تھی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ سے وحی ختم ہوئی تو آپ خوشی کی وجہ سے مسکرا رہے تھے۔ سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان سے نکلا: وہ یہ تھا: ’’عائشہ! اللہ تعالٰی نے تمہیں بری کر دیا ہے۔‘‘ میری والدہ نے کہا: اٹھو اور رسول اللہ ﷺ کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں اٹھوں گی۔ میں تو صرف اللہ عزوجل کا شکریہ ادا کروں گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ جَآءُو بِٱلْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ﴾ آکر تک دس آیتیں۔ جب اللہ تعالٰی نے میری براءت میں یہ آیات نازل کر دیں تو حضرت ابوبکر ؓ نے، جو محتاجی اور رشتے داری کی وجہ سے حضرت مسطح کی مدد کیا کرتے تھے اور اس کے اخراجات برداشت کرتے تھے، ان کے متعلق فرمایا: اللہ کی قسم! اب میں مسطح پر کبھی کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا جبکہ اس نے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ایسی ایسی باتیں کی ہیں۔ تب اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ’’تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں، مساکین اور مہاجرین کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہیں کھا لینی چاہئے بلکہ انہیں معاف کر دینا چاہئے اور ان سے درگزر کر لینا چاہئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالٰی تمہارے قصور معاف فر دے؟ اور اللہ غفور رحیم ہے۔‘‘ یہ آیت سن کر حضرت ابوبکر ؓ کہنے لگے: اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ تعالٰی مجھے معاف کر دے۔ پھر وہ حضرت مسطح ؓ پر اسی طرح خرچ فرمانے لگے جس طرح پہلے خرچ کیا کرتے تھے۔ (ان سے پہلے والا حسن سلوک کرنے لگے) اور فرمایا: اللہ کی قسم! جب تک مسطح زندہ رہا میں یہ معمول بند نہیں کروں گا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس زمانہ تہمت میں رسول اللہ ﷺ زینب بنت حجش ؓ سے میرا حال پوچھتے: ’’زینب تم عائشہ کو کیسی سمجھتی ہو اور تم نے کیا دیکھا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط رکھتی ہوں، میں تو سیدہ عائشہ ؓ کو اچھا ہی خیال کرتی ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ازواج مطہرات میں سے وہی ایک تھیں جو میرا مقابلہ کرتی تھیں، لیکن اللہ تعالٰی نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انہیں تہمت لگانے سے محفوظ رکھا لیکن ان کی بہن حضرت حمنہ بنت حجش ان کے لیے جوش میں آئیں اور تہمت لگانے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئیں۔
واقعہ افک کی پوری تفصیل سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زبانی آئندہ حدیث میں بیان ہوگی لیکن اہل ایمان کی اخلاقی حالت اس قدر مضبوط تھی کہ منافقین کے زبردست پروپیگنڈے کے باوجود مسلمانوں میں سے تین افراد کے علاوہ ان سے کوئی متاثر نہ ہو سکا۔ ایک حضرت مسطح بن اثاثہ جو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزیز تھے اور ان کی کفالت میں تھے دوسرے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تیسرے ایک خاتون حضرت حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو اپنی بہن سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خاطر سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نیچا دکھانے کے لیے اس بہتان میں شامل ہوئی تھیں ۔واللہ المستعان ۔
حضرت ابن شہاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا واقعہ بیان کیا جبکہ تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور اللہ تعالٰی نے آپ کو اس تہمت سے پاک قرار دیا تھا۔ ان تمام حضرات نے حدیث کا ایک ایک ٹکڑا مجھ سے بیان کیا اور ان حضرات میں سے ایک کا بیان دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ حضرات کو دوسروں کے مقابلے میں حدیث زیادہ بہتر طریقےسے یاد تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر نے مجھے حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے اس طرح بیان کیا کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کسی سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔ جس کا نام نکل آتا رسول اللہ ﷺ اسے اپنے ساتھ لے جاتے، چنانچہ آپ ﷺ نے ایک غزوے میں جانے کے لیے قرعہ اندازی کی تو قرعہ میرے نام نکل آیا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہو گئی اور یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودج میں سوار ہوتی اور جب اتری تو ہودج سمیت اتاری جاتی۔ ہم اس طرح سفر کرتے رہے حتی کہ رسول اللہ ﷺ اس غزوے سے فارغ ہو کر لوٹے تو ہم لوگ مدینہ طیبہ کے نزدیک آ پہنچے۔ ایک رات (پڑاؤ کے بعد) جب کوچ کا حکم ہوا تو میں انہی اور پیدل چل کر لشکر سے پار نکل گئی۔ جب حاجت سے فارغ ہو کر لشکر کی طرف آنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا اظفار کے نگینوں کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرا ہودج اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے انہوں نے ہودج اٹھایا اور اونٹ پر رکھ دیا انہوں نے یہ سمجھا کہ میں ہودج میں ہوں کیونکہ اس وقت عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، پُر گوشت اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں، اس لیے کہ وہ کھانا تھوڑا کھایا کرتی تھیں، لہذا ان لوگوں نے جب ہودج (کجاوہ) اٹھایا تو ہلکے پن میں انہیں کوئی اجنبیت محسوس نہ ہوئی۔ اس کے علاوہ میں اس وقت یوں بھی کم عمر لڑکی تھی۔ خیر وہ ہودج اونٹ پر لاد کر چل دیے۔ لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار مجھے مل گیا تو میں اس ٹھکانے کی طرف چلی گئی جہاں رات کے وقت اترے تھے، دیکھا تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا، یعنی سب جا چکے تھے۔ میں نے اپنی اسی جگہ کا ارادہ کیا جہاں میں پہلے تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ میں وہاں بیٹھی رہی۔ نیند نے غلبہ کیا تو میں سو گئی۔ لشکر کے پیچھے پیچھے حضرت صفوان بن معطل سلمی ذکوانی ؓ مقرر تھے۔ وہ پچھلی رات چلے اور صبح کے وقت میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے۔ انہوں نے دور سے کسی انسان کو سوتے ہوئے دیکھا۔ پھر جب میرے قریب آئے تو مجھے پہچان لیا کیونکہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب انہوں نے مجھے پہچان کر إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ پڑھا تو میں بیدار ہو گئی اور اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم! انہوں نے نہ مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ کے علاوہ کوئی اور بات سنی۔ انہوں نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کا پاؤں اپنے پاؤں سے دبائے رکھا تو میں اس پر سوار ہو گئی۔ وہ پیدل چلتے رہے اور اپنی اونٹنی کو چلاتے رہے یہاں تک کہ ہم لشکر سے اس وقت جا ملے جب وہ عین دوپہر کے وقت گرمی کی شدت کی وجہ سے اترے ہوئے تھے، چنانچہ جن لوگوں کی قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوئے۔ اس تہمت کو سب سے زیادہ پھیلانے والا عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ طیبہ پہنچے تو وہاں پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور مہینہ بھر بیمار رہی۔ اس عرصے میں لوگ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے لیکن مجھے اس تہمت کے متعلق کوئی خبر نہ ہوئی، البتہ ایک معاملے سے مجھے شبہ سا ہوتا تھا کہ میں اس بیماری میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس لطف و محبت کا اظہار نہیں دیکھتی تھی جو سابقہ علالت کے دنوں میں دیکھ چکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لاتے، سلام کرتے اور صرف اتنا پوچھ لیتے کہ ’’تم کیسی ہو؟‘‘ پھر واپس چلے جاتے۔ اس رویے سے مجھے کچھ شک تو پڑتا مگر کسی بری بات کی خبر نہ تھی۔ ایک دن بیماری سے افاقہ کے بعد میں باہر نکلی جبکہ نقاہت بدستور باقی تھی۔ میرے ہمراہ حضرت ام مسطح بھی نکلیں۔ ہم مناصع کی طرف گئے۔ ہم لوگ قضائے حاجت کے لیے وہیں جایا کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم نے اپنے گھروں کے نزدیک بیت الخلاء نہیں بنائے تھے بلکہ اگلے زمانے کے عربوں کی طرح رفع حاجت کے لیے جنگل جایا کرتے تھے کیونکہ گھروں کے نزدیک بیت الخلء بنانے سے ان کی بدبو ہمیں تکلیف دیتی۔ خیر میں اور ام مسطح قضائے حاجت کے لیے روانہ ہو گئیں، وہ ابورہم بن عبد مناف کی صاجزادی تھیں اور اس کی ماں صخر بن عامر کی دختر تھیں جو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خالہ تھیں۔ حضرت مسطح بن اثاثہ اس کا بیٹا تھا۔ پھر میں اور ام مسطح دونوں قضائے حاجت کے بعد جب گھر واپس آنے لگیں تو ام مسطح کا پاؤں ان کی چادر میں الجھ کر پھسل گیا۔ اس پر ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: مسطح ہلاک ہوا۔ میں نے انہیں کہا: آپ نے بری بات کہی ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو کوستی ہو جو غزوہ بدر میں شریک تھا؟ وہ کہنے لگی: اے بھولی لڑکی! کیا تم نے وہ کچھ بھی سنا ہے جو اس نے کہا ہے؟ میں نے کہا: اس نے کیا کہا ہے؟ تب انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں۔ یہ سننے کے بعد میری بیماری میں مزید اضافہ ہو گیا۔ جب میں گھر گئی تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور سلام کر کے پوچھا: ’’اب کیسی ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: آپ مجھے میرے والدین کے ہاں جانے کی اجازت دیتے ہیں؟ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ والدین سے اس خبر کی تصدیق کروں۔ الغرض رسول اللہ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی تو میں اپنے والدین کے پاس آ گئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا: امی! یہ لوگ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: بیٹی، صبر کرو، اللہ کی قسم! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو سوکنیں بہت کچھ کرتی رہتی ہیں۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! لوگوں نے اس کا چرچا بھی کر دیا ہے؟ چنانچہ میں ساری رات روتی رہی، صبح ہو گئی مگر نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی، صبح تک میں روتی ہی رہی۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت اسامہ بن زید ؓ کو بلایا کیونکہ اس معاملے میں آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی اور آپ اس سلسلے میں ان سے مشورہ لینا چاہتے تھے کہ میں اپنی اہلیہ کو ساتھ رکھوں یا طلاق دے دوں، چنانچہ حضرت اسامہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو وہی مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ سیدہ عائشہ ؓ ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپ ﷺ کو ان سے کس قدر تعلق خاطر ہے۔ انہوں نے صاف صاف کہا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ کی اہلیہ کے بارے میں خیروبھلائی کے علاوہ کسی چیز کا علم نہیں۔ البتہ حضرت علی ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی۔ عورتیں ان کے علاوہ اور بہت ہیں۔ اگر آپ اس سلسلے میں حضرت بریرہ ؓ سے پوچھیں تو وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک بتا دے گی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ ؓ کو بلایا اور اس سے پوچھا: ’’بریرہ! کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے تمہیں کوئی شبہ گزرا ہو؟‘‘حضرت بریرہ ؓ نے کہا: نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جس کی بنیاد پر میں کوئی عیب لگا سکوں۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہے، اپنے گھر والوں کے لیے آٹا گوندھ کر سو جاتی ہے اتنے میں گھر کی بکری آتی ہے اور آٹا کھا جاتی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی کے خلاف آپ نے مدد چاہتے ہوئے فرمایا: ’’مسلمانو! ایک ایسے شخص کے خلاف میری کون مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے اہل خانہ تک پہنچ گئی ہے؟ اللہ کی قسم! میں اپنی اہلیہ کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس شخص کا نام لے رہے ہیں، اس کے متعلق بھی میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر گئے ہیں تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت سعد بن معاذ ؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: میں اس کے خلاف آپ کی مدد کرتا ہوں۔ اگر یہ اوس قبیلے کا ہے تو میں ابھی اس کی گردن اڑا دیتا ہوں اور اگر وہ ہمارے بھائیوں، یعنی قبیلہ خزرج کا ہے تو آپ ہمیں جو حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ اس کے بعد حضرت سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے۔ وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔ وہ ایک نیک سیرت آدمی تھے مگر آج ان پر قومی حمیت غالب آ گئی۔ کہنے لگے: اے سعد بن معاذ! اللہ کی قسم! تم نے غلط کہا ہے۔ تم اسے قتل نہیں کر سکتے اور نہ تجھ میں اسے قتل کرنے کی ہمت ہے۔ اس دوران میں حضرت اسید بن حضیر ؓ کھڑے ہوئے جو حضرت سعد بن معاذ ؓ کے چچا زاد بھائی تھے، وہ حضرت سعد بن عبادہ سے کہنے لگے: اللہ کی قسم! تجھے غلط فہمی ہوئی ہے، ہم اسے ضرور قتل کریں گے۔ کیا تو بھی منافق ہو گیا ہے جو منافقین کی طرف داری کرتا ہے۔ اتنے میں دونوں قبیلے اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس میں قتل و قتال تک پہنچ گئی۔ رسول اللہ ﷺ ابھی منبر ہی پر تھے، آپ لوگوں کو خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے۔ جب وہ خاموش ہوئے تو آپ بھی خاموش ہو گئے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میرا وہ دن بھی رونے میں گزرا اور میں مسلسل دو دن سے رو رہی تھی، نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند ہی آتی تھی۔ میرے والدین سوچنے لگے کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے جبکہ میں روئے جا رہی تھی کہ اس دوران میں قبیلہ انصار کی ایک عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ میں نے اسے اجازت دے دی تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ اندر تشریف لائے۔ آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ قبل ازیں جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی، آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ آپ نے مہینہ بھر اس معاملے کے متعلق انتظار کیا، آپ پر میرے متعلق کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے میرے پاس بیٹھنے کے بعد خطبہ پڑھا، پھر فرمایا: ’’عائشہ! تیرے متعلق مجھے اس طرح کی خبریں ملی ہیں، اگر تم بے گناہ ہو تو اللہ تعالٰی تمہاری براءت (اور پاک دامنی) خود بیان فر دے گا لیکن اگر تم سے غلطی کی بنا پر کوئی گناہ ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر لیتا ہے، پھر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔‘‘ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی گفتگو ختم کر چکے تو یکبارگی میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی میری آنکھوں میں باقی نہ رہا۔ میں نے اپنے والد گرامی سے عرض کی: آپ رسول اللہ ﷺ کو ان کی بات کا جواب دیں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میں آپ کو اس سلسلے میں کیا کہوں؟ پھر میں نے اپنی والدہ ماجدہ سے عرض کی: آپ رسول اللہ ﷺ کو (میری طرف سے) جواب دیں تو انہوں نے بھی یہی کہا: اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو کیا عرض کروں۔ آخر کار میں خود ہی بول اٹھی، میں اس وقت ایک نو عمر لڑکی تھی، میں نے بہت زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا، میں نے عرض کی: اللہ کی قسم! میں اس قدر تو جانتی ہوں کہ میرے متعلق آپ حضرات نے جو کچھ سنا ہے وہ آپ کے دل و دماغ پر جم گیا ہے اور آپ لوگ اسے صحیح سمجھنے لگے ہیں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں بے گناہ ہوں ۔۔ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں ۔۔ تو بھی آپ لوگ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے اور اگر میں گناہ کا اقرار کر لوں ۔۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں ۔۔ تو آپ لوگ گناہ کے اقرار میں مجھے سچا خیال کریں گے۔ اللہ کی قسم! میں اپنی اور تمہاری مثال ایسی ہی سمجھتی ہوں جیسے سیدنا یوسف ؑ کے والد کی تھی، انہوں نے جو کچھ کہا تھا میں بھی وہی کچھ کہتی ہوں: ’’اب صبر کرنا ہی بہتر ہے اور تمہاری باتوں پر اللہ میری مدد کرنے والا ہے۔‘‘ پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ میں بے گناہ ہوں اور اللہ تعالٰی ضرور میری براءت کرے گا، لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالٰی میرے بارے میں ایسی آیات نازل فرمائے گا جو ہمیشہ پڑھی جائیں گی۔ میں اپنی شان اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی۔ ہاں، مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہ ﷺ کوئی ایسا خواب دیکھیں گے جس سے آپ پر میری بے گناہی واضح ہو جائے گی۔ پھر اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ ابھی اپنی مجلس میں تشریف فرما تھے اور گھر والوں میں سے بھی کوئی باہر نہیں نکلا تھا کہ آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا اور وہی کیفیت طاری ہوئی جو نزول کے وقت آپ پر طاری ہوتی تھی، یعنی آپ پسینے سے شرابور ہو گئے اور پسینہ موتیوں کی طرح آپ کے بدن سے ٹپکنے لگا، حالانکہ وہ دن سخت سردی کا تھا۔ یہ کیفیت آپ پر وحی کی شدت کی بنا پر طاری ہوتی تھی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ سے وحی ختم ہوئی تو آپ خوشی کی وجہ سے مسکرا رہے تھے۔ سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان سے نکلا: وہ یہ تھا: ’’عائشہ! اللہ تعالٰی نے تمہیں بری کر دیا ہے۔‘‘ میری والدہ نے کہا: اٹھو اور رسول اللہ ﷺ کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں اٹھوں گی۔ میں تو صرف اللہ عزوجل کا شکریہ ادا کروں گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ جَآءُو بِٱلْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ﴾ آکر تک دس آیتیں۔ جب اللہ تعالٰی نے میری براءت میں یہ آیات نازل کر دیں تو حضرت ابوبکر ؓ نے، جو محتاجی اور رشتے داری کی وجہ سے حضرت مسطح کی مدد کیا کرتے تھے اور اس کے اخراجات برداشت کرتے تھے، ان کے متعلق فرمایا: اللہ کی قسم! اب میں مسطح پر کبھی کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا جبکہ اس نے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ایسی ایسی باتیں کی ہیں۔ تب اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ’’تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں، مساکین اور مہاجرین کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہیں کھا لینی چاہئے بلکہ انہیں معاف کر دینا چاہئے اور ان سے درگزر کر لینا چاہئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالٰی تمہارے قصور معاف فر دے؟ اور اللہ غفور رحیم ہے۔‘‘ یہ آیت سن کر حضرت ابوبکر ؓ کہنے لگے: اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ تعالٰی مجھے معاف کر دے۔ پھر وہ حضرت مسطح ؓ پر اسی طرح خرچ فرمانے لگے جس طرح پہلے خرچ کیا کرتے تھے۔ (ان سے پہلے والا حسن سلوک کرنے لگے) اور فرمایا: اللہ کی قسم! جب تک مسطح زندہ رہا میں یہ معمول بند نہیں کروں گا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس زمانہ تہمت میں رسول اللہ ﷺ زینب بنت حجش ؓ سے میرا حال پوچھتے: ’’زینب تم عائشہ کو کیسی سمجھتی ہو اور تم نے کیا دیکھا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط رکھتی ہوں، میں تو سیدہ عائشہ ؓ کو اچھا ہی خیال کرتی ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ازواج مطہرات میں سے وہی ایک تھیں جو میرا مقابلہ کرتی تھیں، لیکن اللہ تعالٰی نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انہیں تہمت لگانے سے محفوظ رکھا لیکن ان کی بہن حضرت حمنہ بنت حجش ان کے لیے جوش میں آئیں اور تہمت لگانے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئیں۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ پر تہمت لگانے کا واقعہ بیان کیا۔ یعنی جس میں تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بری قرار دیا تھا۔ ان تمام راویوں نے پوری حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا اور ان راویوں میں سے بعض کا بیان بعض دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بعض راوی کو بعض دوسرے کے مقابلہ میں حدیث زیادہ بہتر طریقہ پر محفوظ یاد تھی مجھ سے یہ حدیث عروہ نے حضرت عائشہ ؓ سے اس طرح بیان کی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ نے کہا کہ جب آنحضرت ﷺ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ لیجانے کے لئے قرعہ ڈالتے جن کا نام نکل جاتا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر اسی طرح آپ نے قرعہ ڈالا اور میرا نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ مجھے ہودج سمیت اونٹ پر چڑھا دیا جاتا اور اسی طرح اتار لیا جاتا تھا۔ یوں ہمارا سفر جاری رہا۔ پھر جب آپ اس غزوہ سے فارغ ہوکر واپس لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات جب کوچ کا حکم ہوا۔ میں (قضاء حاجت کے لئے) پڑاؤ سے کچھ دور گئی اور قضاء حاجت کے بعد اپنے کجاوے کے پاس واپس آگئی۔ اس وقت مجھے خیال ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا بنا ہوا ہار کہیں راستہ میں گر گیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اس میں اتنا محو ہو گئی کہ کوچ کا خیال ہی نہ رہا۔ اتنے میں جو لوگ میرے ہودج کو سوار کیا کرتے تھے آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا جو میری سواری کے لئے تھا۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ میں اس میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں گوشت سے ان کا جسم بھاری نہیں ہوتا تھا کیونکہ کھانے پینے کو بہت کم ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب لوگوں نے ہودج کو اٹھایا تو اس کے ہلکے پن میں انہیں کوئی اجنبیت نہیں محسوس ہوئی۔ میں یوں بھی اس وقت کم عمر لڑکی تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس اونٹ کو اٹھایا اور چل پڑے۔ مجھے ہار اس وقت ملا جب لشکر گزر چکا تھا۔ میں جب پڑاؤ پر پہنچی تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا۔ میں وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں پہلے بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی انہیں میرے نہ ہونے کا علم ہو جائے گا اور پھر وہ مجھے تلاش کرنے کے لئے یہاں آئیں گے۔ میں اپنی اسی جگہ پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی ثم ذکوانی لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے (تاکہ اگر لشکر والوں سے کوئی چیز چھوٹ جائے تو اسے اٹھا لیں سفر میں یہ دستور تھا) رات کا آخری حصہ تھا، جب میرے مقام پر پہنچے تو صبح ہو چکی تھی۔ انہوں نے (دور سے) ایک انسانی سایہ دیکھا کہ پڑا ہوا ہے وہ میرے قریب آئے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے۔ پردہ کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب وہ مجھے پہچان گئے تو إنا للہ پڑھنے لگے۔ میں ان کی آواز پر جاگ گئی اور چہرہ چادر سے چھپا لیا۔ اللہ کی قسم، اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ میں نے إنا للہ و إنا إلیه راجعون کے سوا ان کی زبان سے کوئی کلمہ سنا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا اونٹ بٹھا دیا اور میں اس پر سوار ہوگئی وہ (خو د پیدل) اونٹ کو آگے سے کھينچتے ہوئے لے چلے۔ ہم لشکرسے اس وقت ملے جب وہ بھری دو پہر میں (دھوپ سے بچنے کے لئے) پڑاؤ کئے ہوئے تھے، اس تہمت میں پیش پیش عبد اللہ بن ابی ابن سلول منافق تھا۔ مدینہ پہنچ کر میں بیمار پڑگئی اور ایک مہینہ تک بیمار رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا برابر چرچا رہا لیکن مجھے ان باتوں کا کوئی احساس بھی نہ تھا۔ صرف ایک معاملہ سے مجھے شبہ سا ہوتا تھا کہ میں اپنی بیماری میں رسول کریم ﷺ کی طرف سے لطف ومحبت کا اظہار نہیں دیکھتی تھی جو پہلی بیماریوں کے دنوں میں دیکھ چکی تھی۔ آنحضرت ﷺ اندر تشریف لاتے سلام کر کے صرف اتنا پوچھ لیتے کہ کیا حال ہے؟ اور پھر واپس چلے جاتے۔ آنحضرت ﷺ کے اسی طرز عمل سے شبہ ہوتا تھا لیکن صورت حال کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔ ایک دن جب (بیماری سے کچھ افاقہ تھا) کمزوری باقی تھی تو میں باہر نکلی میرے ساتھ ام مسطح ؓ بھی تھیں ہم ''مناصع'' کی طرف گئے۔ قضائے حاجت کے لئے ہم وہیں جایا کرتے تھے اور قضائے حاجت کے لئے ہم صرف رات ہی کو جایا کرتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ہمارے گھروں کے قریب پاخانے نہیں بنے تھے۔ اس وقت تک ہم قدیم عرب کے دستور کے مطابق قضائے حاجت آبادی سے دور جاکر کیا کرتے تھے۔ اس سے ہمیں بد بو سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاءہمارے گھر کے قریب بنا دیئے جائیں۔ خیر میں اور ام مسطح قضاءحاجت کے لئے روانہ ہوئے۔ وہ ابو رہم بن عبد مناف کی بیٹی تھیں اور ان کی والدہ (رانطہ نامی) صخربن عامر کی بیٹی تھیں۔ اس طرح وہ حضرت ابو بکر ؓ کی خالہ ہوتی ہیں۔ ان کے لڑکے مسطح بن اثاثہ ہیں۔ قضاءحاجت کے بعد جب ہم گھر واپس آنے لگے تو مسطح کی ماں کا پاؤں انہیں کی چادر میں الجھ کر پھسل گیا۔ اس پر ان کی زبان سے نکلا مسطح برباد ہو، میں نے کہا تم نے بری بات کہی، تم ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو غزوہ بدر میں شریک رہا ہے۔ انہوں نے کہا، واہ اس کی باتیں تو نے نہیں سنی؟ میں نے پوچھا انہوں نے کیا کہا ہے؟ پھر انہوں نے مجھے تہمت لگانے والوں کی باتیں بتائیں میں پہلے سے بیمار تھی ہی، ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا پھر جب میں گھر پہنچی اور رسول اللہ ﷺ اندر تشریف لائے تو آپ نے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کیا آنحضرت ﷺ مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت دیں گے؟ میرا مقصد ماں باپ کے یہاں جانے سے صرف یہ تھا کہ اس خبر کی حقیقت ان سے پوری طرح معلوم ہوجائے گی۔ آنحضرت نے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور میں اپنے والدین کے گھر آگئی۔ میں نے والدہ سے پوچھا کہ یہ لوگ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا بیٹی صبر کرو، کم ہی کوئی ایسی حسین وجمیل عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہوگی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر بھی وہ اس طرح اسے نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے کہا، سبحان اللہ کیا اس طرح کا چرچا لوگوں نے بھی کر دیا ؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد میں رونے لگی اور رات بھر روتی رہی۔ صبح ہو گئی لیکن میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند کا نام و نشان تھا۔ صبح ہوگئی اور میں روئے جا رہی تھی اسی عرصہ میں آنحضرت ﷺ نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید ؓ کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ آپ ان سے میرے چھوڑدینے کے لئے مشورہ لینا چاہتے تھے۔ کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہوگئی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اسامہ بن زید ؓ نے حضور ﷺ کو اسی کے مطابق مشورہ دیا جس کا انہیں علم تھا کہ آپ کی اہلیہ (یعنی خود عائشہ صدیقہ ؓ ) اس تہمت سے بری ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آنحضرت کو ان سے کتنا تعلق خاطر ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی بیوی کے بارے میں خیر و بھلائی کے سوا اور ہمیں کسی چیز کا علم نہیں اور حضرت علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی ہے، عورتیں ان کے سوا اور بھی بہت ہیں، ان کی باندی (بریرہ) سے بھی آپ اس معاملہ میں دریافت فرما لیں۔ حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت نے بریرہ کو بلایا اور دریافت فرمایا، بریرہ! کیا تم نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تجھ کو شبہ گزرا ہو؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں حضور! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جس پر میں عیب لگا سکوں، ایک بات ضرور ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھنے میں بھی سو جاتی ہیں اور اتنے میں کوئی بکری یا پرندہ وغیرہ وہاں پہنچ جاتا ہے اور ان کا گوندھا ہوا آٹا کھا جاتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور اس دن آپ نے عبد اللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی۔ بیان کیا کہ آنحضرت نے ممبر پر کھڑے ہوکر فرمایا اے مسلمانو! ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے گھر پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم کہ میں اپنی بیوی کو نیک پاک دامن ہونے کے سوا کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس مرد کا نام لے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی خیر کے سوا میں اورکچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر میں گئے تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں۔ اس پر سعدبن معاذ انصاری ؓ اٹھے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی مدد کروں گا اوراگر وہ شخص قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائیوں یعنی خزرج میں کا کوئی آدمی ہے تو آپ ہمیں حکم دیں، تعمیل میں کوتاہی نہیں ہوگی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے، وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے، اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے لیکن آج ان پر قومی حمیت غالب آگئی تھی (عبد اللہ بن ابی ابن سلول منافق) ان ہی کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے اٹھ کر سعد بن معاذ ؓ سے کہا اللہ کی قسم تم نے جھوٹ کہا ہے تم اسے قتل نہیں کر سکتے، تم میں اس کے قتل کی طاقت نہیں ہے۔ پھر اسید بن حضیر ؓ کھڑے ہوئے وہ سعد بن معاذ کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے سعد بن عبادہ سے کہا کہ خدا کی قسم تم جھوٹ بولتے ہو، ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیا تم منافق ہو گئے ہو کہ منافقوں کی طرفداری میں لڑتے ہو؟ اتنے میں دونوں قبیلے اوس وخزرج اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس ہی میں لڑنے تک پہنچ گئی۔ رسول اللہ ﷺ ممبر پر کھڑے تھے۔ آپ لوگوں کو خاموش کرنے لگے۔ آخر سب لوگ چپ ہوگئے اور آنحضرت بھی خاموش ہوگئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ اس دن بھی میں برابر روتی رہی نہ آنسو تھمتا تھا اور نہ نیند آتی تھی۔ حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ جب (دوسری) صبح ہوئی تو میرے والدین میرے پاس ہی موجود تھے، دو راتیں اور ایک دن مجھے مسلسل روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس عرصہ میں نہ مجھے نیند آتی تھی اور نہ آنسو تھمتے تھے۔ والدین سوچنے لگے کہ کہیں روتے روتے میرا دل نہ پھٹ جائے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابھی وہ اسی طرح میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ اندر تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی اس وقت سے اب تک آنحضرت ﷺ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے، آپ نے ایک مہینہ تک اس معاملہ میں انتظار کیا اور آپ پر اس سلسلہ میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے خطبہ پڑھا پھر فرمایا، أما بعد! اے عائشہ! تمہارے بارے میں مجھے اس اس طرح کی خبریں پہنچی ہیں پس اگر تم بری ہوتو اللہ تعالیٰ تمہاری برات خود کردے گا۔ لیکن اگر تم سے غلطی سے گناہ ہوگیا ہے تو اللہ سے دعائے مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ میں تو بہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرلیتا ہے اور پھر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ جب حضور اکرم ﷺ پنی گفتگو ختم کر چکے تو یکبارگی میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے جیسے ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ہو۔ میں نے اپنے والد (ابوبکر) سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ ﷺ کو جواب دیجئے۔ انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلہ میں کیا کہنا ہے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آنحضرت کی باتوں کا میری طرف سے آپ جواب دیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم کہ میں آپ سے کیاعرض کروں۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر میں خود ہی بولی میں اس وقت نو عمر لڑکی تھی، میں نے بہت زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا (میں نے کہا کہ) خدا کی قسم! میں تویہ جانتی ہوں کہ ان افواہوں کے متعلق جو کچھ آپ لوگوں نے سنا ہے وہ آپ لوگوں کے دل میں جم گیا ہے اور آپ لوگ اسے صحیح سمجھنے لگے ہیں، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان تہمتوں سے بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی بری ہوں، تو آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے، لیکن اگر میں تہمت کا اقرار کر لوں، حالانکہ اللہ کے علم میں ہے کہ میں اس سے قطعاً بری ہوں، تو آپ لوگ میری تصدیق کرنے لگیں گے۔ اللہ کی قسم! میرے پاس آپ لوگوں کے لئے کوئی مثال نہیں ہے سوا یوسف کے والد کے اس ارشاد کے کہ انہوں نے فرمایا تھا ” پس صبر ہی اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا “ بیان کیا کہ پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ کہا کہ مجھے پورا یقین تھا کہ میں بری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری براءت ضرور کرے گا لیکن خدا کی قسم، مجھے اس کا وہم وگمان بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی تلاوت کی جائے گی۔ میں اپنی حیثیت اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں (قرآن مجید کی آیت) نازل فرمائے۔ البتہ مجھے اس کی توقع ضرور تھی کہ حضور اکرم ﷺ میرے متعلق کوئی خواب دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ میری براءت کر دے گا۔ بیان کیا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ بھی اپنی اسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے گھر والوں میں سے کوئی باہر نہ تھا کہ آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا اور وہی کیفیت آپ ﷺ پر طاری ہوئی تھی جو وحی کے نازل ہوتے ہوئے طاری ہوتی تھی یعنی آپ پسینے پسینے ہوگئے اور پسینہ موتیوں کی طرف آپ کے جسم اطہر سے ڈھلنے لگا حالانکہ سردی کے دن تھے۔ یہ کیفیت آپ پر اس وحی کی شدت کی وجہ سے طاری ہوتی تھی جو آپ پر نازل ہوتی تھی۔ بیان کیا کہ پھر جب آنحضرت ﷺ کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ تبسم فر رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا، یہ تھا کہ عائشہ! اللہ نے تمہیں بری قرار دیا ہے۔ میری والدہ نے فرمایا کہ آنحضور ﷺ کے سامنے (آپ کا شکر ادا کرنے کے لئے) کھڑی ہوجاؤ۔ بیان کیا کہ میں نے کہا، اللہ کی قسم میں ہرگز آپ کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی اور اللہ پاک کے سوا اور کسی کی تعریف نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو آیت نازل کی تھی وہ یہ تھی کہ ”بےشک جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سے گروہ ہے‘‘ مکمل دس آیتوں تک۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں میری براءت میں نازل کردیں تو ابو بکر صدیق ؓ جو مسطح بن اثاثہ ؓ کے اخراجات ان سے قرابت اوران کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھایا کرتے تھے انہوں نے ان کے متعلق کہا کہ خدا کی قسم اب مسطح پر کبھی کچھ بھی خرچ نہیں کروںگا۔ اس نے عائشہ ؓ پر کیسی کیسی تہمتیں لگا دی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ”اور جو لوگ تم میں بزرگی اور وسعت والے ہیں، وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کی مدد دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں بلکہ چاہئے کہ ان کی لغزشوں کو معاف کرتے رہیں اور در گزر کرتے رہیں، کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بےشک اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا ہی رحمت والا ہے“۔ حضرت ابوبکر ؓ بولے، ہاں خدا کی قسم میری تو یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرما دے چنانچہ مسطح ؓ کو وہ تمام اخراجات دینے لگے جو پہلے دیا کرتے تھے اور فرمایا کہ خداکی قسم اب کبھی ان کا خرچ بند نہیں کروں گا۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین حضرت زینب بن جحش ؓ سے بھی میرے معاملہ میں پوچھا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ زینب! تم نے بھی کوئی چیز کبھی دیکھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے کان اور میری آنکھ کو خدا سلامت رکھے، میں نے ان کے اندر خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ازواج مطہرات میں وہی ایک تھیں جو مجھ سے بھی اوپر رہنا چاہتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پرہیز گاری کی وجہ سے انہیں تہمت لگانے سے محفوظ رکھا۔ لیکن ان کی بہن حمنہ ان کے لئے لڑی اور تہمت لگانے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوگئی۔
حدیث حاشیہ:
یہ طویل حدیث ہی واقعہ افک سے متعلق ہے۔ منافقین کے بہکانے میں آنے پر حضرت حسان بھی شروع میں الزام بازوں میں شریک ہوگئے تھے۔ بعد میں انہوں نے توبہ کی اور حضرت عائشہ کی پاکیزگی کی شہادت دی جیسا کہ شعر مذکور حصان رزان میں مذکور ہے۔ ان کی والدہ فریعہ بنت خالد بن خنیس بن لوذان بن عبدود بن ثعلبہ بن خزرج تھیں۔ ام رومان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں انہوں نے جب یہ واقعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان سے سنا تو ان کو اتنا رنج نہیں ہوا جتنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہو رہا تھا اس لئے وہ سنجیدہ خاتون ایسی ہفوات سے متاثر ہونے والی نہیں تھی۔ ہاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ضرور اپنی پیاری بیٹی کا یہ دکھ سن کر رونے لگ گئے، ان کو فخر خاندان بیٹی کا رنج دیکھ کر صبر نہ ہوسکا۔ آیات براءت نازل ہونے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ پاک کا شکریہ ادا کیا اور جوش ایمانی سے وہ باتیں کہہ ڈالیں جو روایت کے آخر میں مذکور ہیں کہ میں خالص اللہ ہی کا شکر ادا کروں گی جس نے مجھ کو منہ دکھانے کے قابل بنا دیا ورنہ لوگ تو عام و خاص سب میری طرف سے اس خبر میں گرفتار ہو چکے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کمال توحید اور صدق و اخلاص اور توکل کا کیا کہنا، سچ ہے ﴿وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ﴾(النور:26) قیامت تک کے لئے ان کی پاک دامنی ہر مومن کی زبان اور دل اور صفحات کتاب اللہ پر نقش ہوگئی۔ وذلك فضل اللہ یؤتیه من یشاء۔رضي اللہ عنھم أجمعین وخذل اللہ الکافرین والمنافقین إلی یوم الدین آمین۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا واقعہ عبد اللہ بن ابی جیسے منا فق کا گھڑا ہوا تھا جو ہر وقت اسلام کی بیخ کنی کے لئے دل میں ناپاک باتیں سوچتا رہتا تھا۔ اس منافق کی اس بکواس کا کچھ اور لوگوں نے بھی اثر لے لیا مگر بعد میں وہ تائب ہوئے جیسے حضرت حسان اور مسطح وغیرہ، اللہ پاک نے اس بارے میں سورۃ نور میں مسلسل دس آیات کو نازل فرمایا اور قیامت تک کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کی آیات کو قرآن مجید میں تلاوت کیا جاتا رہے گا۔ اسی سے حضرت صدیقہ کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوئی۔ اس واقعہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے ورنہ اتنے دنوں تک آپ کیوں فکر اور تردد میں رہتے جو لوگ آپ کے لئے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ بڑی غلطی پر ہیں۔ فقہائے احناف نے صاف کہہ دیا ہے کہ انبیاءاولیاء کے لئے غیب جاننے کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ ان کو بہت سے غائب امور معلوم ہو جاتے ہیں، سو یہ اللہ پاک کی وحی والہام پر موقوف ہے۔ اللہ پاک اپنے نیک بندوں کو بطور معجزہ یا کرامت جب چاہتا ہے کچھ امور معلوم کرا دیتا ہے اس کو غیب نہیں کہا جا سکتا۔ یہ اللہ کا عطیہ ہے۔ غیب دانی یہ ہے کہ بغیر کسی کے معلوم کرائے کسی کو کچھ خود بخود معلوم ہو جائے ایسا غیب بندوں میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ قرآن مجید میں زبان رسالت سے صاف اعلان کرا دیا گیا ﴿وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾(الاعراف:188) اگر میں غیب داں ہوتا تو میں بھی بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔ ان تفصیلات کے باوجود جو مولوی ملا عام مسلمانوں کو ایسے مباحث میں الجھا کرفتنہ فساد برپا کراتے ہیں وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنے مریدوں کو الو بناتے ہیں۔ یہی وہ علماء سوء ہیں جن کی وجہ سے اسلام کو بیشتر زمانوں میں بڑے بڑے نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ایسے علماء کا بائیکاٹ کرنا ان کی زبانوں کا لگام لگانا وقت کا بہت بڑا جہاد ہے جو آج کے تعلیم یافتہ روشن خیال صاحبان فہم و فراست نوجوانوں کو انجام دینا ہے۔ اللہ پاک امت مرحومہ پر رحم کرے کہ وہ اسلام کے نام نہاد نام لیواؤں کو پہچان کر ان کے فتنوں سے نجات پا سکے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA) : (The wife of the Prophet) Whenever Allah's Apostle (ﷺ) intended to go on a journey, he used to draw lots among his wives and would take with him the one on whom the lot had fallen. Once he drew lots when he wanted to carry out a Ghazwa, and the lot came upon me. So I proceeded with Allah's Apostle (ﷺ) after Allah's order of veiling (the women) had been revealed and thus I was carried in my howdah (on a camel) and dismounted while still in it. We carried on our journey, and when Allah's Apostle (ﷺ) had finished his Ghazwa and returned and we approached Medina, Allah's Apostle (ﷺ) ordered to proceed at night. When the army was ordered to resume the homeward journey, I got up and walked on till I left the army (camp) behind. When I had answered the call of nature, I went towards my howdah, but behold ! A necklace of mine made of Jaz Azfar (a kind of black bead) was broken and I looked for it and my search for it detained me. The group of people who used to carry me, came and carried my howdah on to the back of my camel on which I was riding, considering that I was therein. At that time women were light in weight and were not fleshy for they used to eat little (food), so those people did not feel the lightness of the howdah while raising it up, and I was still a young lady. They drove away the camel and proceeded. Then I found my necklace after the army had gone. I came to their camp but found nobody therein so I went to the place where I used to stay, thinking that they would miss me and come back in my search. While I was sitting at my place, I felt sleepy and slept. Safwan bin Al-Mu'attil As-Sulami Adh-Dhakw-ani was behind the army. He had started in the last part of the night and reached my stationing place in the morning and saw the figure of a sleeping person. He came to me and recognized me on seeing me for he used to see me before veiling. I got up because of his saying: "Inna Lillahi wa inna ilaihi rajiun," which he uttered on recognizing me. I covered my face with my garment, and by Allah, he did not say to me a single word except, "Inna Lillahi wa inna ilaihi rajiun," till he made his she-camel kneel down whereupon he trod on its forelegs and I mounted it. Then Safwan set out, leading the she-camel that was carrying me, till we met the army while they were resting during the hot midday. Then whoever was meant for destruction, fell in destruction, and the leader of the Ifk (forged statement) was 'Abdullah bin Ubai bin Salul. After this we arrived at Madinah and I became ill for one month while the people were spreading the forged statements of the people of the Ifk, and I was not aware of anything thereof. But what aroused my doubt while I was sick, was that I was no longer receiving from Allah's Apostle (ﷺ) the same kindness as I used to receive when I fell sick. Allah's Apostle (ﷺ) would enter upon me, say a greeting and add, "How is that (lady)?" and then depart. That aroused my suspicion but I was not aware of the propagated evil till I recovered from my ailment. I went out with Um Mistah to answer the call of nature towards Al-Manasi, the place where we used to relieve ourselves, and used not to go out for this purpose except from night to night, and that was before we had lavatories close to our houses. And this habit of ours was similar to the habit of the old 'Arabs (in the deserts or in the tents) concerning the evacuation of the bowels, for we considered it troublesome and harmful to take lavatories in the houses. So I went out with Um Mistah who was the daughter of Abi Ruhm bin Abd Manaf, and her mother was daughter of Sakhr bin Amir who was the aunt of Abi Bakr As-Siddiq, and her son was Mistah bin Uthatha. When we had finished our affair, Um Mistah and I came back towards my house. Um Mistah stumbled over her robe whereupon she said, "Let Mistah be ruined ! " I said to her, "What a bad word you have said! Do you abuse a man who has taken part in the Battle of Badr?' She said, "O you there! Didn't you hear what he has said?" I said, "And what did he say?" She then told me the statement of the people of the Ifk (forged statement) which added to my ailment. When I returned home, Allah's Apostle (ﷺ) came to me, and after greeting, he said, "How is that (lady)?" I said, "Will you allow me to go to my parents?" At that time I intended to be sure of the news through them. Allah's Apostle (ﷺ) allowed me and I went to my parents and asked my mother, "O my mother! What are the people talking about?" My mother said, "O my daughter! Take it easy, for by Allah, there is no charming lady who is loved by her husband who has other wives as well, but that those wives would find fault with her." I said, "Subhan Allah! Did the people really talk about that?" That night I kept on weeping the whole night till the morning. My tears never stopped, nor did I sleep, and morning broke while I was still weeping, Allah's Apostle (ﷺ) called ' Ali Ibn Abi Talib (RA) and Usama bin Zaid when the Divine Inspiration delayed, in order to consult them as to the idea of divorcing his wife. Usama bin Zaid told Allah's Apostle (ﷺ) of what he knew about the innocence of his wife and of his affection he kept for her. He said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! She is your wife, and we do not know anything about her except good." But ' Ali Ibn Abi Talib (RA) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allah does not impose restrictions on you; and there are plenty of women other than her. If you however, ask (her) slave girl, she will tell you the truth." 'Aisha (RA) added: So Allah's Apostle (ﷺ) called for Barira and said, "O Barira! Did you ever see anything which might have aroused your suspicion? (as regards Aisha (RA) ). Barira said, "By Allah Who has sent you with the truth, I have never seen anything regarding Aisha (RA) which I would blame her for except that she is a girl of immature age who sometimes sleeps and leaves the dough of her family unprotected so that the domestic goats come and eat it." So Allah's Apostle (ﷺ) got up (and addressed) the people an asked for somebody who would take revenge on 'Abdullah bin Ubai bin Salul then. Allah's Apostle, while on the pulpit, said, "O Muslims! Who will help me against a man who has hurt me by slandering my family? By Allah, I know nothing except good about my family, and people have blamed a man of whom I know nothing except good, and he never used to visit my family except with me," Sad bin Muadh Al-Ansari got up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! By Allah, I will relieve you from him. If he be from the tribe of (Bani) Al-Aus, then I will chop his head off; and if he be from our brethren, the Khazraj, then you give us your order and we will obey it." On that, Sad bin 'Ubadah got up, and he was the chief of the Khazraj, and before this incident he had been a pious man but he was incited by his zeal for his tribe. He said to Sad (bin Muadh), "By Allah the Eternal, you have told a lie! You shall not kill him and you will never be able to kill him!" On that, Usaid bin Hudair, the cousin of Sad (bin Muadh) got up and said to Sad bin 'Ubadah, "You are a liar! By Allah the Eternal, we will surely kill him; and you are a hypocrite defending the hypocrites!" So the two tribes of Al-Aus and Al-Khazraj got excited till they were on the point of fighting with each other while Allah's Apostle (ﷺ) was standing on the pulpit. Allah's Apostle (ﷺ) continued quietening them till they became silent whereupon he became silent too. On that day I kept on weeping so much that neither did my tears stop, nor could I sleep. In the morning my parents were with me, and I had wept for two nights and a day without sleeping and with incessant tears till they thought that my liver would burst with weeping. While they were with me and I was weeping, an Ansari woman asked permission to see me. I admitted her and she sat and started weeping with me. While I was in that state, Allah's Apostle (ﷺ) came to us, greeted, and sat down,. He had never sat with me since the day what was said, was said. He had stayed a month without receiving any Divine Inspiration concerning my case. Allah's Apostle (ﷺ) recited the Tashahhud after he had sat down, and then said, "Thereafter, O 'Aisha! I have been informed such and-such a thing about you; and if you are innocent, Allah will reveal your innocence, and if you have committed a sin, then ask for Allah's forgiveness and repent to Him, for when a slave confesses his sin and then repents to Allah, Allah accepts his repentance." When Allah's Apostle (ﷺ) had finished his speech, my tears ceased completely so that I no longer felt even a drop thereof. Then I said to my father, "Reply to Allah's Apostle (ﷺ) on my behalf as to what he said." He said, "By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle." Then I said to my mother, "Reply to Allah's Apostle." She said, "I do not know what to say to Allah's Apostle." Still a young girl as I was and though I had little knowledge of Qur'an, I said, "By Allah, I know that you heard this story (of the Ifk) so much so that it has been planted in your minds and you have believed it. So now, if I tell you that I am innocent, and Allah knows that I am innocent, you will not believe me; and if I confess something, and Allah knows that I am innocent of it, you will believe me. By Allah, I cannot find of you an example except that of Joseph's father: "So (for me) patience is most fitting against that which you assert and it is Allah (Alone) Whose help can be sought. Then I turned away and lay on my bed, and at that time I knew that I was innocent and that Allah would reveal my innocence. But by Allah, I never thought that Allah would sent down about my affair, Divine Inspiration that would be recited (forever), as I considered myself too unworthy to be talked of by Allah with something that was to be recited: but I hoped that Allah's Apostle (ﷺ) might have a vision in which Allah would prove my innocence. By Allah, Allah's Apostle (ﷺ) had not left his seat and nobody had left the house when the Divine Inspiration came to Allah's Apostle (ﷺ) . So there overtook him the same hard condition which used to overtake him (when he was Divinely Inspired) so that the drops of his sweat were running down, like pearls, though it was a (cold) winter day, and that was because of the heaviness of the Statement which was revealed to him. When that state of Allah's Apostle (ﷺ) was over, and he was smiling when he was relieved, the first word he said was, "Aisha, Allah has declared your innocence." My mother said to me, "Get up and go to him." I said, "By Allah, I will not go to him and I will not thank anybody but Allah." So Allah revealed: "Verily! They who spread the Slander are a gang among you. Think it not...." (24.11-20). When Allah revealed this to confirm my innocence, Abu Bakr (RA) As-Siddiq who used to provide for Mistah bin Uthatha because of the latter's kinship to him and his poverty, said, "By Allah, I will never provide for Mistah anything after what he has said about Aisha (RA) ". So Allah revealed: "Let not those among you who are good and are wealthy swear not to give (help) to their kinsmen, those in need, and those who have left their homes for Allah's Cause. Let them Pardon and forgive (i.e. do not punish them). Do you not love that should forgive you? Verily Allah is Oft-forgiving. Most Merciful." (24.22) Abu Bakr (RA) said, "Yes, by Allah, I wish that Allah should forgive me." So he resumed giving Mistah the aid he used to give him before and said, "By Allah, I will never withold it from him at all." Aisha (RA) further said: Allah's Apostle (ﷺ) also asked Zainab bint Jahsh about my case. He said, "O Zainab! What have you seen?" She replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I protect my hearing and my sight (by refraining from telling lies). I know nothing but good (about Aisha (RA) )." Of all the wives of Allah's Apostle, it was Zainab who aspired to receive from him the same favor as I used to receive, yet, Allah saved her (from telling lies) because of her piety. But her sister, Hamna, kept on fighting on her behalf so she was destroyed as were those who invented and spread the slander.