قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ: {رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا العَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب:

4822 .   حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ إِنَّ مِنْ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ إِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا غَلَبُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ قَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ أَكَلُوا فِيهَا الْعِظَامَ وَالْمَيْتَةَ مِنْ الْجَهْدِ حَتَّى جَعَلَ أَحَدُهُمْ يَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنْ الْجُوعِ قَالُوا رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ فَقِيلَ لَهُ إِنْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَادُوا فَدَعَا رَبَّهُ فَكَشَفَ عَنْهُمْ فَعَادُوا فَانْتَقَمَ اللَّهُ مِنْهُمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ إِنَّا مُنْتَقِمُونَ

صحیح بخاری:

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب: آیت (( ربنا اکشف عنا العذاب انا مومنون )) کی تفسیریعنی’’ اے ہمارے پروردگار!ہم سے اس عذاب کو دور کر دے‘ہم ضرور ایمان لے آئیں گئے‘‘

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

4822.   حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا: بلاشبہ یہ بھی علم (دانشمندی) ہے کہ جس چیز کو تو نہ جانتا ہو تو کہہ دے: اللہ ہی جانتا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے: ’’کہہ دیں! میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹی باتیں کرتا ہوں۔‘‘ ہوا یوں کہ جب قریش نے نبی ﷺ پر غلبہ حاصل کر لیا اور آپ کی نافرمانی کی تو آپ نے بددعا کی: ’’اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعے سے فر جیسا کہ یوسف ؑ کے زمانے میں قحط پڑا تھا۔‘‘ اس بد دعا کے نتیجے میں انہیں خشک سالی نے پکڑ لیا اور ایسا قحط پڑا کہ بھوک کی وجہ سے لوگ ہڈیاں اور مردار تک کھانے لگے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو بھوک اور فاقے کی وجہ سے دھویں کے سوا انہیں اور کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ آخر انہوں نے کہا: ’’اے ہمارے رب! ہم سے اس عذاب کو دور کر دے، ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔‘‘ آپ سے کہا گیا: اگر ہم نے یہ عذاب ان سے دور کر دیا تو وہ پھر اپنی پہلی حالت پر لوٹ آئیں گے۔ آپ ﷺ نے ان کے حق میں اپنے رب سے دعا فرمائی تو یہ عذاب ان سے ٹل گیا، لیکن وہ پھر کفروشرک کرنے لگے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے بدر کے دن ان سے انتقام لیا۔ درج ذیل ارشاد باری تعالٰی سے یہی مراد ہے: ﴿يَوْمَ تَأْتِى ٱلسَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ ۔۔۔ إِنَّا مُنتَقِمُونَ﴾