Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: "If they be poor, Allah will enrich them out of His Bounty.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےسورۂ نور میں فرمایا ہے کہ اگر وہ (دولہا دولہن) نادار ہیں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں مالدار کر دے گا۔بعض دفعہ نکاح تنگ دست کے لئے باعث برکت بن جاتا ہے اور اس کے ذریعے روزی وسیع ہو جاتی ہے‘اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے حضرت ابن عباس اور حضرت ابوبکرؓ سے مروی ہے کہ تم اللہ کے حکم کے موفق نکاح کر لو اللہ بھی اپنا وعدہ پورا کرے گا تم کو مالدار کر دے گا اس آیت سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ نا داری صحت کے لئے مانع نہیں ہے ہاں آئندہ اگر نان نفقہ نہ ہو تو پھر معاملہ الگ ہے ایسی حافلت میں قاضی تفریق کرا سکتا ہے۔
5087.
سیدنا سہل بن سعد ساعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر خدمت ہوں اور اپنی ذات کو ہبہ کرتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے نظر اوپر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر اپنی نگاہ نیچے کی اور سے مبارک جھکا لیا۔ جب اس خاتون نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ تب آپ کے صحابہ کرام ؓ میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ مال ہے؟“ اس نے کہا اللہ کے رسول! اللہ کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ، ممکن ہے کہ وہاں سے کوئی چیز مل جائے۔“ چنانچہ ہو گئے اور وآپس آ کر کہا: اللہ کی قسم! میں نے وہاں کچھ نہیں پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دیکھو اگر لوہے کی انگوٹھی بھی مل جائے تو لے آؤ۔“ وہ گیا اور واپس آکر عرض کی: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! میرے پاس لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ہے، البتی میرے پاس یہ لنگی ہے۔ ۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا کہ اس کے پاس اوڑھنے کے لیے چادر نہ تھی۔ ۔ ۔ ۔ اس آدمی نے کہا اس عورت کے لیے لنگی کا نصف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ عورت تیرے ازار کو کیا کرے گی؟ اگر تو نے اسے باندھ لیا تو اس کے لیے کچھ نہ ہوگا اور اگر اس نے اوڑھ لیا تو تیرے لیے کچھ نہ ہوگا۔“ چنانچہ وہ صاحب بیٹھ گئے حتیٰ کہ جب مجلس لمبی ہو گئ تو اٹھ کھڑا ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے پیٹھ پھیر کر جاتے دیکھ کر وآپسی کا حکم دیا۔ جب وہ وآپس آیا تو آپ نے اس سے پوچھا : کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں سورت یاد ہے، اس نے چند سورتوں کے نام شمار کیے۔ آپ نے دوبارہ پوچھا: ”کیا تم زبانی پڑھ سکتے ہو؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس قرآن کی بدولت جو تمہارے پاس ہے، میں نے اس عورت کا تمہیں مالک بنا دیا ہے۔“
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ وقتی طور پر اگر کوئی نادار یا مفلس ہے تو یہ ناداری نکاح میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مذکور ایک نادار و مفلس شخص کا نکاح قرآن کی چند سورتوں کے بدلے میں کر دیا تھا، اگر ناداری و مفلسی رکاوٹ کا باعث ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نکاح نہ کرتے۔ (2) تنگدست آدمی نکاح کر سکتا ہے۔ نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی تنگدستی دور کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس وعدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی محتاج شادی کرے گا شادی کے بعد وہ مال دار غنی ہو جائے گا بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا تھا۔ کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلے میں معاون بن جاتی ہے، کبھی بیوی کے کنبے والے اس سلسلے میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں، کبھی مرد کے لیے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں جس کا اسے پہلے وہم گمان بھی نہیں ہوتا۔ بہر حال مفلسی اور ناداری کو نکاح کے لیے رکاوٹ خیال نہیں کرنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ رزق کی تنگی اور فراخی کا انحصار نہ نکاح کرنے پر ہے اور نہ مجرد رہنے ہر، لہٰذا اس بنا پر نکاح سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وقتی طور پر تنگ دستی کو نکاح میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نکاح کے بعد رزق کے دروازے اس کے لیے کھول دے۔ (فتح الباري: 164/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4890
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5087
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5087
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5087
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ہے کہ ناداری، صحت نکاح کے لیے مانع نہیں ہے، ہاں اگر نکاح کے بعد نان ونفقہ نہ ہوتو الگ بات ہے۔بعض دفعہ نکاح، تنگ دست انسان کے لیے باعث خیروبرکت بن جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے رزق میں فروانی آجاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں واضح طور پر اشارہ فرمایا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےسورۂ نور میں فرمایا ہے کہ اگر وہ (دولہا دولہن) نادار ہیں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں مالدار کر دے گا۔بعض دفعہ نکاح تنگ دست کے لئے باعث برکت بن جاتا ہے اور اس کے ذریعے روزی وسیع ہو جاتی ہے‘اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے حضرت ابن عباس اور حضرت ابوبکرؓ سے مروی ہے کہ تم اللہ کے حکم کے موفق نکاح کر لو اللہ بھی اپنا وعدہ پورا کرے گا تم کو مالدار کر دے گا اس آیت سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ نا داری صحت کے لئے مانع نہیں ہے ہاں آئندہ اگر نان نفقہ نہ ہو تو پھر معاملہ الگ ہے ایسی حافلت میں قاضی تفریق کرا سکتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا سہل بن سعد ساعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر خدمت ہوں اور اپنی ذات کو ہبہ کرتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے نظر اوپر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر اپنی نگاہ نیچے کی اور سے مبارک جھکا لیا۔ جب اس خاتون نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ تب آپ کے صحابہ کرام ؓ میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ مال ہے؟“ اس نے کہا اللہ کے رسول! اللہ کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ، ممکن ہے کہ وہاں سے کوئی چیز مل جائے۔“ چنانچہ ہو گئے اور وآپس آ کر کہا: اللہ کی قسم! میں نے وہاں کچھ نہیں پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دیکھو اگر لوہے کی انگوٹھی بھی مل جائے تو لے آؤ۔“ وہ گیا اور واپس آکر عرض کی: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! میرے پاس لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ہے، البتی میرے پاس یہ لنگی ہے۔ ۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا کہ اس کے پاس اوڑھنے کے لیے چادر نہ تھی۔ ۔ ۔ ۔ اس آدمی نے کہا اس عورت کے لیے لنگی کا نصف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ عورت تیرے ازار کو کیا کرے گی؟ اگر تو نے اسے باندھ لیا تو اس کے لیے کچھ نہ ہوگا اور اگر اس نے اوڑھ لیا تو تیرے لیے کچھ نہ ہوگا۔“ چنانچہ وہ صاحب بیٹھ گئے حتیٰ کہ جب مجلس لمبی ہو گئ تو اٹھ کھڑا ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے پیٹھ پھیر کر جاتے دیکھ کر وآپسی کا حکم دیا۔ جب وہ وآپس آیا تو آپ نے اس سے پوچھا : کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں سورت یاد ہے، اس نے چند سورتوں کے نام شمار کیے۔ آپ نے دوبارہ پوچھا: ”کیا تم زبانی پڑھ سکتے ہو؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس قرآن کی بدولت جو تمہارے پاس ہے، میں نے اس عورت کا تمہیں مالک بنا دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ وقتی طور پر اگر کوئی نادار یا مفلس ہے تو یہ ناداری نکاح میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مذکور ایک نادار و مفلس شخص کا نکاح قرآن کی چند سورتوں کے بدلے میں کر دیا تھا، اگر ناداری و مفلسی رکاوٹ کا باعث ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نکاح نہ کرتے۔ (2) تنگدست آدمی نکاح کر سکتا ہے۔ نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی تنگدستی دور کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس وعدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی محتاج شادی کرے گا شادی کے بعد وہ مال دار غنی ہو جائے گا بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا تھا۔ کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلے میں معاون بن جاتی ہے، کبھی بیوی کے کنبے والے اس سلسلے میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں، کبھی مرد کے لیے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں جس کا اسے پہلے وہم گمان بھی نہیں ہوتا۔ بہر حال مفلسی اور ناداری کو نکاح کے لیے رکاوٹ خیال نہیں کرنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ رزق کی تنگی اور فراخی کا انحصار نہ نکاح کرنے پر ہے اور نہ مجرد رہنے ہر، لہٰذا اس بنا پر نکاح سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وقتی طور پر تنگ دستی کو نکاح میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نکاح کے بعد رزق کے دروازے اس کے لیے کھول دے۔ (فتح الباري: 164/9)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ تعالٰی اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا“
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو آپ کے لئے وقف کرنے حاضر ہوئی ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر انحضرت ﷺ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر آپ نے نظر کو نیچی کر لیا اور پھر اپنا سر جھکا لیا۔ جب اس عورت نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اگر آپ کو ان سے نکاح کی ضرورت نہیں ہے تو ان سے میرا نکاح کر دیجئے۔ آپ نے دریافت فرمایا تمہارے پاس (مہر کے لئے) کوئی چیز ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں اللہ کی قسم یا رسول اللہ! آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھر جا اور دیکھو ممکن ہے تمہیں کوئی چیز مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آ گئے اور عرض کیا اللہ کی قسم میں نے کچھ نہیں پایا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر لوہے کی ایک انگوٹھی بھی مل جائے تو لے آؤ۔ وہ گئے اور واپس آ گئے اور عر ض کیا۔ اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! میرے پاس لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں البتہ میرے پاس ایک تہمد ہے۔ انہیں (خاتون کو) اس میں سے آدھا دے دیجئے۔ حضرت سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے اس تہمد کا کیا کرے گی۔ اگر تم اسے پہنو گے تو ان کے لئے اس میں سے کچھ نہیں بچے گا اور اگر وہ پہن لے تو تمہارے لئے کچھ نہیں رہے گا۔ اس کے بعد وہ صحابی بیٹھ گئے۔ کافی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب وہ کھڑے ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے انہیں دیکھا کہ وہ واپس جا رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں بلوایا جب وہ آئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کتنا یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ انہوں نے گن کر بتائیں۔ آنحضرت ﷺ نے پو چھا کیا تم انہیں بغیر دیکھے پڑھ سکتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر جاؤ۔ میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ ان سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں۔
حدیث حاشیہ:
تمہارا مہر یہی ہے کہ تم اس کو وہ سورتیں جو تم کو یاد ہیں ان کو یاد کرا دینا۔ نسائی اور ابو داؤد کی روایت میں سورۃ بقرہ اور اس کے پاس والی سورت آل عمران مذکور ہے۔ دارقطنی کی روایت میں سورۃ بقرہ اورمفصل کی چند سورتیں مذکور ہیں۔ ایک روایت میں یوں ہے حضرت ابوامامہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کا نکاح سات سورتوں پر کر دیا۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ اس کو بیس آیتیں سکھلا دے وہ تیری جورو ہے۔ اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور حنفیہ نے برخلاف ان احادیث صحیحہ کے یہ حکم دیا ہے کہ تعلیم قرآن مہر نہیں ہو سکتی اورکہتے ہیں ﴿أن تَبتَغُو ا بِأموالِکُم﴾ ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم قرآن کو بھی مال قرار دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قرآن کو تم نہیں جانتے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad As-Sa'idi (RA) : A woman came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have come to give you myself in marriage (without Mahr)." Allah's Apostle (ﷺ) looked at her. He looked at her carefully and fixed his glance on her and then lowered his head. When the lady saw that he did not say anything, she sat down. A man from his companions got up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! If you are not in need of her, then marry her to me." The Prophet (ﷺ) said, "Have you got anything to offer?" The man said, "No, by Allah, O Allah's Apostle! (ﷺ) " The Prophet (ﷺ) said (to him), "Go to your family and see if you have something." The man went and returned, saying, "No, by Allah, I have not found anything." Allah's Apostle (ﷺ) said, "(Go again) and look for something, even if it is an iron ring." He went again and returned, saying, "No, by Allah, O Allah's Apostle (ﷺ) ! I could not find even an iron ring, but this is my Izar (waist sheet)." He had no rida. He added, "I give half of it to her." Allah's Apostle (ﷺ) said, "What will she do with your Izar? If you wear it, she will be naked, and if she wears it, you will be naked." So that man sat down for a long while and then got up (to depart). When Allah's Apostle (ﷺ) saw him going, he ordered that he be called back. When he came, the Prophet (ﷺ) said, "How much of the Qur'an do you know?" He said, "I know such Sura and such Sura," counting them. The Prophet (ﷺ) said, "Do you know them by heart?" He replied, "Yes." The Prophet (ﷺ) said, "Go, I marry her to you for that much of the Qur'an which you have."