باب: سفر کے ارادہ کے وقت اپنی کئی بیویوں میں سے انتخاب کے لیے قرعہ ڈالنا
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: To draw lots among the wives for a journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5211.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں قرعہ اندازی کرتے چنانچہ ایک دفعہ ام المومنین سیدہ عائشہ اور ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا قرعہ نکلا۔ نبی ﷺ رات کو دوران سفر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو فرمایا کرتے تھے ایک مرتبہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آج تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں آپ کے اونٹ پر سواری کرتی ہوں میں بھی نئے مناظر کا مشاہدہ کروں؟ انہوں نے یہ تجویز قبول کرلی اور وہ اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے پاس تشریف لائے اور اس پر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا پھر (وہاں سے) روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب ایک مقام پر پڑاؤ کیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لیے اور کہنے لگیں: اے اللہ! مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کر دے جو مجھے ڈس لے، میری طاقت نہیں کہ میں آپ ﷺ کو اس کے متعلق کچھ کہہ سکوں۔
تشریح:
(1) بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ بیویوں کا گھر میں موجود رہنا زیادہ بہتر ہوتا ہے اور کچھ عورتیں سفر میں معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہیں، ایسے حالات میں قرعہ اندازی ضروری نہیں ہاں، جب تمام بیویوں کے حالات ایک جیسے ہوں تو قرعہ اندازی کے ذریعے سے فیصلہ کیا جائے تاکہ دوسری بیویوں کو شکوہ و شکایت کا موقع نہ ملے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس امر کو ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 386/9) (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق اورآپ کی جدائی کی وجہ سے چاہتی تھیں کہ کوئی زہریلا جانور مجھےڈس لے تاکہ موت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے دکھ اور تکلیف سے نجات مل جائے یا میری مصیبت کا سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں جس سے فراق اور جدائی کا غم دور ہو جائے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے تشریف لائے تھے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی کوتاہی کی وجہ سے خود محروم رہ گئیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا بھی اس میں کوئی قصور نہیں تھا، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مارے رنج کے خود کو کوسنے لگیں اور اپنے پاؤں گھاس میں ڈال لیے جس میں زہریلے کیڑے بکثرت رہتے تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5010
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5211
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5211
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5211
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
ایک شخص کی متعدد بیویاں ہیں اور وہ سفر کرنا چاہتا ہے،اس کی خواہش ہے کہایک بیوی کو ہمراہ لے جائے۔چونکہ استحقاق میں سب برابر ہیں،اس لیے قرعہ اندازی کے ذریعے سے فیصلہ کرے کہ کس کو ساتھ لے جانا ہے۔جس کا نام قرعے میں نکل آئے اسے سفر میں ہمراہ لے جائے۔ہاں،اگر سب بیویاں کسی ایک کو ساتھ لے جانے پر اتفاق کرلیں تو پھر قرعہ اندازی کی ضرورت نہیں کیونکہ باقی بیویوں نے ایثار کرکے اپنا حق ختم کردیا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں قرعہ اندازی کرتے چنانچہ ایک دفعہ ام المومنین سیدہ عائشہ اور ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا قرعہ نکلا۔ نبی ﷺ رات کو دوران سفر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو فرمایا کرتے تھے ایک مرتبہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آج تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں آپ کے اونٹ پر سواری کرتی ہوں میں بھی نئے مناظر کا مشاہدہ کروں؟ انہوں نے یہ تجویز قبول کرلی اور وہ اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے پاس تشریف لائے اور اس پر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا پھر (وہاں سے) روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب ایک مقام پر پڑاؤ کیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لیے اور کہنے لگیں: اے اللہ! مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کر دے جو مجھے ڈس لے، میری طاقت نہیں کہ میں آپ ﷺ کو اس کے متعلق کچھ کہہ سکوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ بیویوں کا گھر میں موجود رہنا زیادہ بہتر ہوتا ہے اور کچھ عورتیں سفر میں معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہیں، ایسے حالات میں قرعہ اندازی ضروری نہیں ہاں، جب تمام بیویوں کے حالات ایک جیسے ہوں تو قرعہ اندازی کے ذریعے سے فیصلہ کیا جائے تاکہ دوسری بیویوں کو شکوہ و شکایت کا موقع نہ ملے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس امر کو ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 386/9) (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق اورآپ کی جدائی کی وجہ سے چاہتی تھیں کہ کوئی زہریلا جانور مجھےڈس لے تاکہ موت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے دکھ اور تکلیف سے نجات مل جائے یا میری مصیبت کا سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں جس سے فراق اور جدائی کا غم دور ہو جائے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے تشریف لائے تھے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی کوتاہی کی وجہ سے خود محروم رہ گئیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا بھی اس میں کوئی قصور نہیں تھا، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مارے رنج کے خود کو کوسنے لگیں اور اپنے پاؤں گھاس میں ڈال لیے جس میں زہریلے کیڑے بکثرت رہتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے، کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے لئے قرعہ ڈالتے۔ ایک مرتبہ قرعہ عائشہ اور حفصہ ؓ کے نام نکلا۔ حضور اکرم ﷺ رات کے وقت معمولاً چلتے وقت عائشہ ؓ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلتے۔ ایک مرتبہ حفصہ ؓ نے ان سے کہا کہ آج رات کیوں نہ تم میرے اونٹ پر سوار ہوجاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر تاکہ تم بھی نئے مناظر دیکھ سکو اور میں بھی۔ انہوں نے یہ تجویز قبول کر لی اور (ہر ایک دوسرے کے اونٹ پر) سوار ہو گئیں۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ عائشہ کے اونٹ کے پاس تشریف لائے۔ اس وقت اس پر حفصہ ؓ بیٹھی ہوئی تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں سلام کیا، پھر چلتے رہے، جب پڑاؤ ہوا تو حضور اکرم ﷺ کو معلوم ہوا کہ عائشہ ؓ اس میں نہیں ہیں (اس غلطی پر عائشہ کو اس درجہ رنج ہواکہ) جب لوگ سواریوں سے اتر گئے تو ام المؤمنین نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لئے اور دعا کرنے لگی کہ اے میرے رب! مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کر دے جو مجھ کو ڈس لے۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ سے تو کچھ کہہ نہیں سکتی تھی کیونکہ یہ حرکت خود میری ہی تھی۔
حدیث حاشیہ:
یہ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لائے مگر حضرت عائشہ اپنے قصور سے خود محروم رہ گئیں۔ نہ دوسرے کے اونٹ پر سوار ہوتیں نہ آپ کی شرف ہم کلامی سے محروم رہتیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا بھی اس میں کچھ قصور نہ تھا۔ اسی رنج کے مارے اپنے کو کوسنے لگیں۔ اور اپنے پاؤں گھاس میں ڈال لئے جس میں زہریلے کیڑے بکثرت رہتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated al-Qasim (RA) : Aisha said that whenever the Prophet (ﷺ) intended to go on a journey, he drew lots among his wives (so as to take one of them along with him). During one of his journeys the lot fell on 'Aisha (RA) and Hafsah (RA). When night fell the Prophet (ﷺ) would ride beside 'Aisha (RA) and talk with her. One night Hafsah (RA) said to 'Aisha (RA), "Won't you ride my camel tonight and I ride yours, so that you may see (me) and I see (you) (in new situation)?" 'Aisha (RA) said, "Yes, (I agree.)" So 'Aisha (RA) rode, and then the Prophet (ﷺ) came towards 'Aisha's camel on which Hafsah (RA) was riding. He greeted Hafsah (RA) and then proceeded (beside her) till they dismounted (on the way). 'Aisha (RA) missed him, and so, when they dismounted, she put her legs in the Idhkhir and said, "O Lord (Allah)! Send a scorpion or a snake to bite me for I am not to blame him (the Prophet (ﷺ) ).