باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”اللہ پاک کی طرف رجوع کرنے والے (ہو جاؤ) اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ“۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The Statement of Alah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
523.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، انھوں نے عرض کیا: ہمارا تعلق ربیعہ قبیلے سے ہے اور ہم آپ ﷺ کے ہاں صرف حرمت والے مہینوں میں حاضری دے سکتے ہیں، اس لیے آپ ہمیں ایسی باتوں کی تلقین کریں جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے باقی ماندہ لوگوں کو بھی دعوت دیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا ۔۔۔ پھر اس کی وضاحت فرمائی ۔۔ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، نیز نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ مجھے ادا کرنا۔ اور میں دباء، حنتم، مقيراورنقير کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔‘‘
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ آیت مبارکہ میں نفئ شرک کو اقامتِ صلاۃ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور مذکورہ حدیث میں توحید اور اقامت صلاۃ کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے، ایمان اور ترک شرک ایک ہی چیز ہے۔ (عمدة القاري:9/4) (2) عرب کے دو خاندان ربیعہ اور مضر دور جاہلیت ہی سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آرہے تھے۔ ظہور اسلام کے بعد ربیعہ قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ انھیں مدینہ طیبہ آنے کے لیے مضر قبیلے کے پاس سے ہو کرگزرنا پڑتا تھا۔ خونریزی اور باہمی جنگ وقتال سے بچنے کے لیےوہ صرف حرمت والے مہینوں میں ہی سفر کرسکتے تھے، کیونکہ ان کااحترام تمام اہل عرب کرتے تھے۔ حدیث میں وفد عبدالقیس نے اپنی اسی مجبوری کا ذکر کیا ہے۔ (3) عرب لوگ شراب کے رسیا تھے اور شراب کے لیے مندرجہ ذیل برتنوں کو استعمال کرتے تھے: ٭دباء: خشک کدو، جسے صاف کرکے بطور برتن استعمال کیا جاتا تھا۔ ٭حنتم: سرخی مائل سبز رنگ کا روغنی مرتبان۔ ٭ مقير: تار کول سے روغن کیا ہوا برتن۔٭نقير: کھجور کے تنے کوکرید کر تیار کردہ ایک برتن۔ ان برتنوں میں شراب رکھنے سےاس کا نشہ دوآتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوجاتا۔ جب شراب کو حرام کردیا گیا تو سد ذرائع کے طور پران برتنوں کا استعمال بھی ممنوع کردیا۔ جسےبعد میں منسوخ کردیا کہ ان برتنوں کے استعمال میں اب کوئی حرج نہیں۔ (4) حدیث میں ہے کہ جس نے دانستہ نماز ترک کردی وہ کافر ہوگیا۔ (صحیح الترغیب والترھیب، الصلاة، حدیث:575) امام بخاری ؒ آیت کریمہ اور حدیث مذکور سے اس کے معنی متعین کرنا چاہتے ہیں کہ ترک صلاۃ سے انسان حقیقی کافر نہیں بن جاتا بلکہ اس شخص نے کافروں جیسا طرز عمل اختیار کرلیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے اس رویے پر غور کرے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
519
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
523
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
523
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
523
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس آیت میں انابت الی اللہ اور اس کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ ہر نماز کو شرائط و آداب کے ساتھ اس کے مقررہ وقت میں ادا کرنے کا اہتمام ہی انابت الی اللہ کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود نماز اور اوقات نماز کی اہمیت بتانا ہے،اس سے بے نماز کے مشرک ہونے پر استدلال امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود نہیں،صرف تنبیہ کی جارہی ہے کہ نماز نہ پڑھنا مشرکین کا کام ہے،ہمیں مشرکین کی مشابہت سے احتراز کرنا چاہیے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، انھوں نے عرض کیا: ہمارا تعلق ربیعہ قبیلے سے ہے اور ہم آپ ﷺ کے ہاں صرف حرمت والے مہینوں میں حاضری دے سکتے ہیں، اس لیے آپ ہمیں ایسی باتوں کی تلقین کریں جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے باقی ماندہ لوگوں کو بھی دعوت دیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا ۔۔۔ پھر اس کی وضاحت فرمائی ۔۔ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، نیز نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ مجھے ادا کرنا۔ اور میں دباء، حنتم، مقيراورنقير کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ آیت مبارکہ میں نفئ شرک کو اقامتِ صلاۃ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور مذکورہ حدیث میں توحید اور اقامت صلاۃ کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے، ایمان اور ترک شرک ایک ہی چیز ہے۔ (عمدة القاري:9/4) (2) عرب کے دو خاندان ربیعہ اور مضر دور جاہلیت ہی سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آرہے تھے۔ ظہور اسلام کے بعد ربیعہ قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ انھیں مدینہ طیبہ آنے کے لیے مضر قبیلے کے پاس سے ہو کرگزرنا پڑتا تھا۔ خونریزی اور باہمی جنگ وقتال سے بچنے کے لیےوہ صرف حرمت والے مہینوں میں ہی سفر کرسکتے تھے، کیونکہ ان کااحترام تمام اہل عرب کرتے تھے۔ حدیث میں وفد عبدالقیس نے اپنی اسی مجبوری کا ذکر کیا ہے۔ (3) عرب لوگ شراب کے رسیا تھے اور شراب کے لیے مندرجہ ذیل برتنوں کو استعمال کرتے تھے: ٭دباء: خشک کدو، جسے صاف کرکے بطور برتن استعمال کیا جاتا تھا۔ ٭حنتم: سرخی مائل سبز رنگ کا روغنی مرتبان۔ ٭ مقير: تار کول سے روغن کیا ہوا برتن۔٭نقير: کھجور کے تنے کوکرید کر تیار کردہ ایک برتن۔ ان برتنوں میں شراب رکھنے سےاس کا نشہ دوآتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوجاتا۔ جب شراب کو حرام کردیا گیا تو سد ذرائع کے طور پران برتنوں کا استعمال بھی ممنوع کردیا۔ جسےبعد میں منسوخ کردیا کہ ان برتنوں کے استعمال میں اب کوئی حرج نہیں۔ (4) حدیث میں ہے کہ جس نے دانستہ نماز ترک کردی وہ کافر ہوگیا۔ (صحیح الترغیب والترھیب، الصلاة، حدیث:575) امام بخاری ؒ آیت کریمہ اور حدیث مذکور سے اس کے معنی متعین کرنا چاہتے ہیں کہ ترک صلاۃ سے انسان حقیقی کافر نہیں بن جاتا بلکہ اس شخص نے کافروں جیسا طرز عمل اختیار کرلیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے اس رویے پر غور کرے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد بن عباد بصری نے، اور یہ عباد کے لڑکے ہیں، ابوجمرہ (نصر بن عمران) کے ذریعہ سے، انھوں نے ابن عباس ؓ سے، انھوں نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اس ربیعہ قبیلہ سے ہیں اور ہم آپ ﷺ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں، اس لیے آپ ﷺ کسی ایسی بات کا ہمیں حکم دیجیئے، جسے ہم آپ ﷺ سے سیکھ لیں اور اپنے پیچھے رہنے والے دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں، پہلے خدا پر ایمان لانے کا، پھر آپ ﷺ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اور دوسرے نماز قائم کرنے کا، تیسرے زکوٰۃ دینے کا، اور چوتھے جو مال تمہیں غنیمت میں ملے، اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا اور تمہیں میں تونبڑی حنتم، قسار اور نقیر کے استعمال سے روکتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
وفدعبدالقیس پہلے 6 ھ میں پھر فتح مکہ کے سال حاضر خدمت نبوی ہواتھا۔ حرمت والے مہینے رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ اورمحرم ہیں۔ ان میں اہل عرب لڑائی موقوف کردیتے اورہر طرف امن و امان ہوجایا کرتا تھا۔ اس لیے یہ وفد ان ہی مہینوں میں حاضر ہوسکتاتھا۔ آپ ﷺ نے ان کو ارکان اسلام کی تعلیم فرمائی اورشراب سے روکنے کے لیے ان برتنوں سے بھی روک دیا جن میں اہل عرب شراب تیارکرتے تھے۔ حنتم ( سبز رنگ کی مرتبان جیسی گھڑیا جس پر روغن لگاہوا ہوتاتھا ) اورقسار ( ایک قسم کا تیل جو بصرہ سے لایا جاتا تھا، لگے ہوئے برتن ) اورنقیر ( کھجور کی جڑکھود کر برتن کی طرح بنایا جاتاتھا ) باب میں آیت کریمہ لانے سے مقصود یہ ہے کہ نماز ایمان میں داخل ہے اورتوحید کے بعد یہ دین کا اہم رکن ہے، اس آیت سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جوبے نمازی کوکافر کہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): "Once a delegation of 'Abdul Qais came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "We belong to such and such branch of the tribe of Rab'a and we can only come to you in the sacred months. Order us to do something good so that we may (carry out) take it from you and also invite to it our people whom we have left behind (at home)." The Prophet (ﷺ) said, " I order you to do four things and forbid you from four things. (The first four are as follows): 1. To believe in Allah. (And then he: explained it to them i.e.) to testify that none has the right to be worshipped but Allah and (Muhammad) am Allah's Apostle (ﷺ) 2. To offer prayers perfectly (at the stated times): 3. To pay Zakat (obligatory charity) 4. To give me Khumus (The other four things which are forbidden are as follows): 1. Dubba 2. Hantam 3. Muqaiyat 4. Naqir (all these are utensils used for the preparation of alcoholic drinks)."