باب: اس بیان میں کہ پانچوں وقت کی نمازیں گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں جب کوئی ان کو جماعت سے یا اکیلا ہی اپنے وقت پر پڑھے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The five Salat (prayers) are expiations (of sins))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
528.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر کوئی نہر جاری ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ کام اس پر کچھ بھی میل کچیل چھوڑے گا؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ایسا کرنے سے کچھ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) مرجیہ نے اس حدیث کے ظاہر سے یہ استدلال کیا ہے کہ افعال خیر سے کبیرہ اور صغیرہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، لیکن جمہور اہل سنت کا موقف ہے کہ ان سے صرف صغائر معاف ہوتے ہیں، کیونکہ اس حدیث میں اگرچہ اطلاق و عموم ہے لیکن دوسری حدیث نے اسے مقید اور خاص کردیا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ پانچوں نمازیں، جمعہ جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتے ہیں، بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:552(233)) جامع تر مذی کی ایک روایت ہے کہ پانچوں نمازیں اور جمعہ جمعے تک، درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ ہیں بشرطیکہ کبائر کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ (جامع الترمذي، الصلاة ،حدیث:214) (2) اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا:’’نماز، گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘ اس سے مراد نماز کا یہ خاصا بتانا مقصود تھا کہ یہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ نماز فرض ہو یا نفل۔ اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو کام بندے کہ فرائض اور ذمے داری میں شامل ہیں، ان کی ادائیگی سے انسان مستحق اجر تو ہو سکتا ہے یا اللہ کی ناراضی سے محفوظ رہتا ہے، اس کے علاوہ مزید انعام واکرام کا سزاوار ہو نا ضروری نہیں۔ امام بخاری ؒ مذکورہ باب اسی وہم کو دور کرنے کے لیے لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں، فرض نماز میں تو کفارۂ سیئات بننے کی نفل نماز سے زیادہ صلاحیت ہے کیونکہ نفل اعمال سے فرض اعمال کی اہمیت اللہ کے ہاں زیادہ ہے اور فرائض اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں، جیساکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ میرا بندہ فرائض کی ادائیگی سے جو میرا قرب حاصل کرتا ہے وہ مجھے زیادہ محبوب ہے۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث:6502) (3) صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہ عنوان بایں الفاظ ہے:’’پانچوں نمازوں کو اگر بروقت ادا کیا جائے تو گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں، خواہ باجماعت ہوں یا بےجماعت۔‘‘ اس عنوان پر بعض حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ امام صاحب کو ''غيرها'' کے الفاظ نہیں لانے چاہیے تھے، کیونکہ ان سے نماز باجماعت کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ اعتراض برمحل نہیں ہے، کیونکہ امام صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز باجماعت نہ پڑھ سکے تو انفرادی طور پر ادا کی ہوئی نماز بھی کفارۂ سیئات ہوگی۔ یہ مطلب قطعاً نہیں کہ نماز باجماعت اور بے جماعت دونوں برابر ہیں۔ والله أعلم۔ (4) قبل ازیں صحیح مسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان ہوئی ہے کہ پانچوں نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔ بظاہر یہ حدیث مذکورہ مثال سے متعارض ہے کیونکہ پانچ مرتبہ نہانے سے بالکل میل کچیل نہیں رہے گا، اگر رہے گا تو مقدار میں بہت کم ہو گا، اسی طرح نمازوں کی ادائیگی سے سب گناہ معاف ہوجائیں گے یا چھوٹے چھوٹے گناہ باقی رہ جائیں گے؟ اس تعارض کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں صغیرہ گناہوں کو میل سے تشبیہ دی گئی ہے، خواہ وہ تھوڑے ہوں یا زیادہ، کبیرہ گناہوں زخموں اور اندرونی بیماریوں کی طرح ہوتے ہیں جو صرف توبہ اور انابت الی اللہ سے معاف ہوتے ہیں۔ غسل کرنے سے ظاہری میل کچیل تو دور ہو سکتا ہے، اس سے بیماریوں کا علاج ممکن نہیں۔ اسی طرح نماز پڑھنے سے صغیرہ گناہ تو مٹ سکتے ہیں، کبیرہ معاف نہیں ہوں گے۔ (5) ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ﴾’’اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو گے تو ہم تمھارے صغیرہ گناہ مٹا دیں گے۔‘‘(النساء: 4:31) اس آیت کے پیش نظرمذکورہ حدیث پر ایک اعتراض ہے کہ صغیرہ گناہ تو اجتناب کبائر ہی سے مٹ جاتے ہیں تو نمازیں کس قسم کے گناہوں کا کفارہ ہیں؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نمازوں ہی کے ذریعے سے صغیرہ گناہوں کو مٹاتا ہے کیونکہ نماز نہ پڑھنا بذات خود ایک کبیرہ گناہ ہے، اس لیے نمازیں پڑھے بغیر کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں ہو سکتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
524
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
528
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
528
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
528
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر کوئی نہر جاری ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ کام اس پر کچھ بھی میل کچیل چھوڑے گا؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ایسا کرنے سے کچھ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مرجیہ نے اس حدیث کے ظاہر سے یہ استدلال کیا ہے کہ افعال خیر سے کبیرہ اور صغیرہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، لیکن جمہور اہل سنت کا موقف ہے کہ ان سے صرف صغائر معاف ہوتے ہیں، کیونکہ اس حدیث میں اگرچہ اطلاق و عموم ہے لیکن دوسری حدیث نے اسے مقید اور خاص کردیا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ پانچوں نمازیں، جمعہ جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتے ہیں، بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:552(233)) جامع تر مذی کی ایک روایت ہے کہ پانچوں نمازیں اور جمعہ جمعے تک، درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ ہیں بشرطیکہ کبائر کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ (جامع الترمذي، الصلاة ،حدیث:214) (2) اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا:’’نماز، گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘ اس سے مراد نماز کا یہ خاصا بتانا مقصود تھا کہ یہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ نماز فرض ہو یا نفل۔ اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو کام بندے کہ فرائض اور ذمے داری میں شامل ہیں، ان کی ادائیگی سے انسان مستحق اجر تو ہو سکتا ہے یا اللہ کی ناراضی سے محفوظ رہتا ہے، اس کے علاوہ مزید انعام واکرام کا سزاوار ہو نا ضروری نہیں۔ امام بخاری ؒ مذکورہ باب اسی وہم کو دور کرنے کے لیے لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں، فرض نماز میں تو کفارۂ سیئات بننے کی نفل نماز سے زیادہ صلاحیت ہے کیونکہ نفل اعمال سے فرض اعمال کی اہمیت اللہ کے ہاں زیادہ ہے اور فرائض اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں، جیساکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ میرا بندہ فرائض کی ادائیگی سے جو میرا قرب حاصل کرتا ہے وہ مجھے زیادہ محبوب ہے۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث:6502) (3) صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہ عنوان بایں الفاظ ہے:’’پانچوں نمازوں کو اگر بروقت ادا کیا جائے تو گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں، خواہ باجماعت ہوں یا بےجماعت۔‘‘ اس عنوان پر بعض حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ امام صاحب کو ''غيرها'' کے الفاظ نہیں لانے چاہیے تھے، کیونکہ ان سے نماز باجماعت کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ اعتراض برمحل نہیں ہے، کیونکہ امام صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز باجماعت نہ پڑھ سکے تو انفرادی طور پر ادا کی ہوئی نماز بھی کفارۂ سیئات ہوگی۔ یہ مطلب قطعاً نہیں کہ نماز باجماعت اور بے جماعت دونوں برابر ہیں۔ والله أعلم۔ (4) قبل ازیں صحیح مسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان ہوئی ہے کہ پانچوں نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔ بظاہر یہ حدیث مذکورہ مثال سے متعارض ہے کیونکہ پانچ مرتبہ نہانے سے بالکل میل کچیل نہیں رہے گا، اگر رہے گا تو مقدار میں بہت کم ہو گا، اسی طرح نمازوں کی ادائیگی سے سب گناہ معاف ہوجائیں گے یا چھوٹے چھوٹے گناہ باقی رہ جائیں گے؟ اس تعارض کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں صغیرہ گناہوں کو میل سے تشبیہ دی گئی ہے، خواہ وہ تھوڑے ہوں یا زیادہ، کبیرہ گناہوں زخموں اور اندرونی بیماریوں کی طرح ہوتے ہیں جو صرف توبہ اور انابت الی اللہ سے معاف ہوتے ہیں۔ غسل کرنے سے ظاہری میل کچیل تو دور ہو سکتا ہے، اس سے بیماریوں کا علاج ممکن نہیں۔ اسی طرح نماز پڑھنے سے صغیرہ گناہ تو مٹ سکتے ہیں، کبیرہ معاف نہیں ہوں گے۔ (5) ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ﴾’’اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو گے تو ہم تمھارے صغیرہ گناہ مٹا دیں گے۔‘‘(النساء: 4:31) اس آیت کے پیش نظرمذکورہ حدیث پر ایک اعتراض ہے کہ صغیرہ گناہ تو اجتناب کبائر ہی سے مٹ جاتے ہیں تو نمازیں کس قسم کے گناہوں کا کفارہ ہیں؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نمازوں ہی کے ذریعے سے صغیرہ گناہوں کو مٹاتا ہے کیونکہ نماز نہ پڑھنا بذات خود ایک کبیرہ گناہ ہے، اس لیے نمازیں پڑھے بغیر کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں ہو سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز بن محمد دراوردی نے یزید بن عبداللہ کی روایت سے، انھوں نے محمد بن ابراہیم تیمی سے، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف ؓ سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "If there was a river at the door of anyone of you and he took a bath in it five times a day would you notice any dirt on him?" They said, "Not a trace of dirt would be left." The Prophet (ﷺ) added, "That is the example of the five prayers with which Allah blots out (annuls) evil deeds."