باب: اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں “ اللہ تعالیٰ کے فرمان ( اور سورۃ بقرہ ) ” بما تعملون خبیر “ تک ۔ یعنی وفات کی عدت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Divorce
(Chapter: "And those of you who die and leave behind wives...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5344.
امام مجاہد سے روایت ہے انہوں نے اس آیت کریمہ: ”جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔“ کی تفسیر میں کہا کہ یہ عدت جو شوہر کے اہل خانہ کے پاس گزاری جاتی تھی یہ ضروری امر تھا، پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری: اور جو لوگ میں سے فوت ہو جائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نکالا جائے ہاں، ”اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (نکاح) کر لیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔“ امام مجاہد نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے سات ماہ بیس دن سال پورا کرنے کے لیے وصیت میں شمار کیے ہیں۔ بیوی اگر چاہے تو وصیت کے مطابق ٹھہری رہے اور اگر چاہے تو گھر سےچلی جائے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد : ”انہیں نکالا نہ جائے اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔“ کے یہی معنیٰ ہیں عدت کے ایام تو اس پر واجب ہیں جیسا کہ مجاہد سے منقول ہے سیدنا عطاء نے سیدنا ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اس آیت نے اہل خانہ کے پاس عدت گزارنے کو منسوخ کر دیا ہے، اس لیے وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ سیدنا عطاء نے ''غیر إخراج'' کے متعلق فرمایا: اگر چاہے تو عدت کے ایام اپنے (شوہر کے) گھر والوں کے پاس گزارے اور وصیت کے مطابق قیام کرے اور اگر چاہے تو وہاں سے چلی آئے کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: ”تم پر اس کے متعلق کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنی مرضی کے مطابق کریں۔“ تم پر اس کے متعلق کوئی گناہ نہیں جو اپنی مرضی کے مطابق کریں۔ عطاء نے کہا: اس کے بعد میراث کے احکام نازل ہوئے تو اس نے ”رہائش“ کو بھی منسوخ کر دیا۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے۔ شوہر کی طرف سے اس کے لیے مکان کا انتظام نہیں ہوگا۔
تشریح:
(1) امام مجاہد رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ چار مہینے دس دن عدت گزارنے کا حکم پہلے نازل ہوا تھا کہ وہ یہ عدت خاوند کے گھر والوں کے پاس گزارے اور ایسا کرنا واجب تھا، پھر دوسری آیت نازل ہوئی جس میں ایک سال عدت گزارنے کے متعلق حکم تھا، اب سال پورا کرنے کے لیے سات ماہ بیس دن وصیت کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے خاوند کے گھر میں گزارے اگر چاہے تو اپنے میکے جا کر ان کو پورا کرے۔ ان کے نزدیک ناسخ، منسوخ سے پہلے نازل نہیں ہو سکتا، اس لیے انہوں نے دونوں کو جمع کرنے کی یہ صورت بیان کی ہے جبکہ عام مفسرین کا کہنا ہے کہ ایک سال عدت گزارنے پر مشتمل آیت کریمہ منسوخ ہے اور چار ماہ دس دن کی آیت اس کی ناسخ ہے۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ کسی مفسر نے آیات مذکورہ کی یہ تفسیر نہیں کی اور نہ کسی فقیہ نے یہ کہا ہے بلکہ تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ سال والی آیت منسوخ ہے۔ اور رہائش بھی عدت کے تابع ہے۔ جب چار ماہ دس دن کی عدت سے سال بھر کی عدت منسوخ ہو گئی تو رہائش کے متعلق خاوند کی ذمے داری بھی منسوخ ہو گئی۔ (فتح الباري: 611/9) (2) ہمارے رجحان کے مطابق جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو اس پر چار ماہ دس دن عدت گزارنا واجب ہے اور وہ اسی مکان میں عدت گزارے جہاں وہ شوہر کے ساتھ مقیم تھی یا جہاں اسے خاوند کے متعلق وفات کی اطلاع ملی جیسا کہ حضرت فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا کا خاوند فوت ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے میکے لوٹ جانے کے متعلق دریافت کیا کہ میرے شوہر نے اپنی ملکیت میں کوئی مکان نہیں چھوڑا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے میکے جا سکتی ہو‘‘ ابھی وہ حجرے سے باہر نہیں نکلی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اور فرمایا: ’’تم اپنے پہلے مکان ہی میں رہو جب تک تمہاری عدت پوری نہ ہو جائے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے چار ماہ دس دن کی عدت اسی سابقہ مکان میں پوری کی۔ (سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2300) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اس گھر میں رہو جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملی حتی کہ ایام عدت پورے ہو جائیں۔‘‘ (مسند أحمد: 370/6) (3) بعض اہل علم حدیث کے ان الفاظ سے عورت کو پابند کرتے ہیں کہ وہ ایام عدت وہیں گزارے جہاں اسے خاوند کی وفات کے متعلق اطلاع ملی ہو، خواہ وہ کسی کے گھر بطور مہمان ٹھہری ہو، اس طرح کی بے جا پابندی شریعت کے منشا کے خلاف ہے۔ بہرحال اس عورت کو اپنے خاوند کے گھر عدت کے ایام گزارنے ہوں گے، البتہ اس حکم سے درج ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں: ٭ میاں بیوی کرائے کے مکان میں رہائش رکھے ہوئے تھے۔ خاوند کی وفات کے بعد آمدنی کے ذرائع محدود ہو گئے یا مالک مکان نے مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا یا اپنے مکان میں عزیز و اقارب نے اتنا تنگ کیا کہ وہاں ایام پورے کرنا مشکل ہو گئے تو وہ کسی دوسرے مکان میں عدت گزار سکتی ہے۔ ٭ میاں بیوی کسی دوسرے ملک میں تھے۔ بیوی اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے اپنے ملک آئی تو دوسرے ملک میں اس کا خاوند فوت ہو گیا۔ اب ویزے وغیرہ کا مسئلہ بن گیا تو وہ اپنے ملک میں اپنے والدین کے ہاں عدت گزار سکتی ہے۔ ٭ عورت خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے کسی مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھی، اسی حالت میں اس کا خاوند فوت ہو گیا تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ چار ماہ دس دن اسی مقام پر گزارے بلکہ جہاں قافلہ ٹھہرے گا وہ اس کے ساتھ عدت کے ایام گزارتی رہے گی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5135
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5344
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5344
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5344
تمہید کتاب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے پہلے رشتۂ نکاح قائم کرنے اور پھر اسے باقی رکھنے کے لیے جو قانونی،اخلاقی اور شرعی ہدایا ت تھیں انھیں بیان کیا تھا۔چونکہ وجود کے اعتبار سے نکاح، طلاق سے پہلے ہوتا ہے،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے احکام ومسائل کے بیان کو بھی اسی اعتبار سے ملحوظ رکھا ہے،اس لیے اب طلاق کے متعلق شرعی ہدایات بیان کی جائیں گی۔ طلاق کے لغوی معنی بندھن کھولنا ہیں اور شرعی اصطلاح میں اس گرہ اور بندھن (عقد) کے کھول دینے کو طلاق کہتے ہیں جو نکاح کے ذریعے سے لگائی گئی تھی۔یہ دور جاہلیت کی اصطلاح ہے جسے اسلام نے بھی باقی رکھا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کبھی طلاق ناجائز ہوتی ہے،جیسے دوران حیض میں طلاق دی جائے یا بیک وقت تینوں طلاقیں دے دی جائیں اور کبھی مکروہ جو بلا سبب محض شہوت رانی اور نئی دلھن کی ہوس میں ہو جبکہ حالات بھی ساز گار ہوں۔بعض اوقات طلاق واجب ہوتی ہے،جب بیوی اور خاوند کے درمیان اس حد تک مخالفت ہو کہ کسی طرح بھی اتفاق ممکن نہ ہو اور فریقین کے نمائندے طلاق ہونے کو ہی مناسب خیال کریں۔کبھی مستحب بھی ہوتی ہے،جب عورت نیک چلن نہ ہو اور کبھی طلاق جواز کے درجے میں ہوتی ہے،جب بیوی کی طرف دلی آمادگی نہ ہو اور خاوند اس کا خرچہ وغیرہ ناپسند اور اسے بے فائدہ خیال کرے۔(فتح الباری: 9/430) زندگی کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل ہمارے دین میں موجود نہ ہو جبکہ باقی ادیان میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی،چنانچہ یہودی مذہب میں خاوند کو صرف تحریری شکل میں طلاق دینے کا حق ہے۔اس کے بغیر زبانی طلاق دینے کی اجازت نہیں ہے،نیز طلاق کے بعد خاوند کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کی قطعاً اجازت نہیں۔اس کے برعکس عیسائی اور ہندو مذہب میں انتہائی سنگین حالات میں بھی خاوند کو طلاق دینے کا حق نہیں جبکہ دین اسلام اس قسم کی افراط وتفریط سے بالا ہوکر ایک معتدل راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔اگر ہم اعتدال پسندی کا مظاہرہ کریں تو زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اس اعتدال کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے،پھر خاوند کو بیوی کے لیے اور بیوی کو خاوند کے لیے سکون واطمینان کا ذریعہ بنایا ہے،اس طرح دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے طالب بھی ہیں اورمطلوب بھی اور دونون میں اس قدر محبت رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر فدا ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔اسی جذبہ فدائیت کا نتیجہ ہے کہ دونوں اپنے مقدس رشتے کو زندگی بھر نبھانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔٭اس رشتے کی خشت اول یہ ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی بننے والی بیوی کو سرسری نظر سے دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ شکل وصورت کی ناپسندیدگی آئندہ اختلاف اور علیحدگی کا باعث نہ ہو۔حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: "تو نے اسے دیکھا ہے؟" میں نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا: "اسے دیکھ لو اس طرح زیادہ توقع ہے کہ تم میں الفت پیدا ہوجائے۔"(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1865)٭نکاح کے بعد خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن سلوک اور رواداری سے پیش آئے اور اس سے اچھا برتاؤ کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ان بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔"(النساء: 4/19) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہوں۔"(مسند احمد: 2/250)٭خاوند کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ اپنی بیوی کی معمولی معمولی لغزشوں کو خاطر میں نہ لائے بلکہ اس کی اچھی خصلتوں کی وجہ سے اس کی کوتاہیوں کو نظرانداز کرتا رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناگوار ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو۔"(النساء: 4/19)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہ رکھے،اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو ضرور کوئی دوسری پسند بھی ہوگی۔"(مسند احمد: 2/329)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کو عورت کی فطری کمزوری سے بھی آگاہ کیا ہے تاکہ یہ جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھے جس پر وہ آئندہ نادم وپریشان ہو،آپ نے فرمایا: "عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دوگے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہوتو اس ٹیڑھ کی موجودگی میں فائدہ اٹھاتے رہو۔"(صحیح البخاری، النکاح، حدیث: 5184)صحیح مسلم میں ہے: " اس کا توڑ دینا اسے طلاق دینا ہے۔"(صحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 3643 (715))٭خاوند اس بات کا بھی پابند ہے کہ اگر بیوی میں کوئی ناقابل برداشت چیز دیکھے تو طلاق دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ ممکن حد تک اصلاح احوال کی کوشش کرے جس کے تین قرآنی مراحل حسب ذیل ہیں:٭پہلا قدم یہ ہے کہ بیوی کو نرمی سے سمجھایا جائے اور اسے اس کے اختیار کیے ہوئے رویے کے انجام سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ محض اپنی بہتری اور مفاد کی خاطر گھر کی فضا خراب نہ کرے۔٭اگر خاوند کے سمجھانے بجھانے کا اثر قبول نہیں کرتی تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرے میں سونا شروع کردے اور اس سے میل جول بند کردے۔اگر بیوی میں کچھ سمجھ بوجھ ہوگی تو وہ اس کی سرد جنگ کو برداشت نہیں کرسکے گی۔٭اگر خاوند کے اس اقدام پر بیوی کو ہوش نہیں آتا تو پھر آخری حربے کے طور پر مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:٭مارتے وقت اسے برا بھلا نہ کہا جائے اور گالی گلوچ نہ دی جائے۔٭اس کے چہرے پر نہ مارا جائے۔(مسند احمد: 2/251، و سنن ابی داود، حدیث: 2142)ایسی مار نہ ہو جس سے زخم ہوجائیں یا نشان پڑجائیں۔(مسند احمد: 5/72، 73)ان حدودوقیود کے ساتھ خاوند کو بحالت مجبوری بیوی کو احتیاط کے ساتھ مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔٭ایسے حالات میں بیوی کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنا مقام خاوند کے ہاں دیکھتی رہے کہ کیا ہے۔خاوند اس کے لیے جنت ہے اور وہی اس کے لیے آگ بھی ہے۔(مسند احمد: 4/341)نیز جب بھی دنیا میں کوئی عورت اپنے خاوند کو تکلیف پہنچاتی ہے تو اس کی جنتی بیویوں میں سے ایک حور کہتی ہے:اللہ تجھے برباد کردے!اسے تکلیف نہ دے۔یہ تو تیرے پاس مہمان ہے۔عنقریب یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے ہاں آجائے گا۔(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 2014)٭اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف انتہائی سنگین صورت اختیار کرجائے کہ مذکورہ تینوں مراحل کارگر ثابت نہ ہوں تو فریقین اپنے اپنے خاندان مین سے ثالث منتخب کریں جو پوری صورت حال سمجھ کر نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں اور بروقت مداخلت کرکے حالات پر کنٹرول کریں۔اگر ان کی نیت بھلائی کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں موافقت کی ضرور کوئی راہ پیدا کردے گا۔یہ ثالث میاں بیوی کی طرف سے ایک ایک،دو،دو اور تین تین بھی ہوسکتے ہیں۔جو بات بھی میاں بیوی کو تسلیم ہو اختیار کی جاسکتی ہے۔(النساء: 4/35)٭اگر مذکورہ جملہ اقدامات سے حسن معاشرت کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر نہ آئے تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانے میں ہروقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور دونوں میاں بیوی کے لیے وہ گھر جہنم بنا رہے۔اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں،خواہ مرد طلاق دےدے یا عورت خلع لےلے،پھر دونوں کا اللہ مالک ہے،وہ ان کے لیے کوئی نہ کوئی متبادل صورت پیدا کردے گا۔(النساء: 4/130)لیکن مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھنا ہوگا:٭ایسے حالات میں اگرچہ طلاق دینا جائز ہے،لیکن شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے۔طلاق دینے والے کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی بھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے صرف تین اختیارات دیے ہیں۔وقفے وقفے سے دومرتبہ طلاق دینے سے رجوع کا اختیار بھی اسے دیا گیا ہے اور تیسری طلاق ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے،اس کے بعد عام حالات میں رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔٭طلاق دیتے وقت اسے دیکھنا ہوگا کہ اس کی بیوی بحالت حیض نہ ہو۔شریعت نے اس حالت میں طلاق دینے سے منع کیا ہے تاکہ طلاق وقتی کراہت اور کسی عارضی ناگواری کی وجہ سے نہ ہو،نیز طلاق دیتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھے کہ اس طہر میں بیوی سے ہم بستری بھی نہ کی ہو،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: "بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دو جس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو۔"(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4908)٭ حالت حمل میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ہمارے ہاں یہ بات غلط مشہور ہوچکی ہے کہ دوران حمل میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے: "اسے حالت طہر یا حالت حمل میں طلاق دو،یہ طلاق جائز اور مباح ہے۔"(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3659 (1471))٭ شریعت نے طلاق دینے کا اختیار خاوند کو دیا ہے،عورت کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ خود طلاق دے تاکہ کم عقلی کی بنا پر فطرتی جلد بازی میں کسی معمولی سی بات پر یہ اقدام نہ کربیٹھے۔٭اگر خاوند نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا عزم کرلیا ہے تو قرآن وحدیث کی ہدایات کے مطابق وہ صرف ایک طلاق دے ،خواہ وہ تحریر کرکے دے یازبانی کہے۔اس کے بعد بیوی کو اس کے حال پر چھوڑے دے تاکہ سوچ بچار کے راستے بند نہ ہوں اور فریقین سنجیدگی اور متانت کے ساتھ اپنے آخری اقدام پر غوروفکر کرسکیں۔ایسے حالات میں بیک وقت تین طلاقیں دینے سے شریعت نے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی تھیں تو آپ نے فرمایا: "میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔"آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ ایک آدمی آپ کا اظہار ناراضی دیکھ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اسے قتل کردوں،(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3430)تاہم ایسا اقدام کرنے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3435)٭ ایک طلاق دینے کے بعد رشتۂ ازدواج ختم نہیں ہوتا بلکہ دوران عدت میں اگر میاں بیوی سے کوئی فوت ہوجائے تو انھیں ایک دوسرے کی وراثت سے باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔بہرحال خاوند کو شریعت نے ہدایت کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "انھیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الایہ کہ وہ کسی واضح برائی کی مرتکب ہوں۔(الطلاق: 65/1)٭طلاق کے بعد عورت نے عدت کے دن گزارنے ہیں جن کا شمار انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس پر کئی ایک نازک اور قانونی مسائل کا انحصار ہے۔مختلف حالات کے پیش نظر عدت کے ایام بھی مختلف ہیں،جس کی تفصیل یہ ہے:٭نکاح کے بعد اگر رخصتی عمل میں نہیں آئی تو ایسی عورت پر کوئی عدت نہیں ہے۔(الاحزاب: 33/49)٭مطلقہ بیوی اگر حمل سے ہوتو اس کی عدت بچہ جنم دینے تک ہے۔(الطلاق: 65/4)٭اگر حمل کے بغیر حیض منقطع ہے،یہ انقطاع بچپن،بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے ہوسکتا ہے تو ایسے حالات میں تین قمری مہینے عدت کے طور پر گزارنے ہوں گے۔اگر مہینوں کا شمار نہ ہوسکے تو 90دن پورے کیے جائیں۔اگر عورت کو ایام آتے ہوں تو تین حیض مکمل کرنا ہوں گے۔(البقرۃ: 2/228)ایسی صورت حال کے پیش نظر تین ماہ یا نوے دن پورے کرنے کی ضرورت نہیں۔٭دوران عدت میں خاوند کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے بسانے اور آباد کرنے کی نیت ہو اسے روک کر مزید تکلیف پہنچانا مقصود نہ ہو۔(البقرۃ: 2/231)اس رجوع کے لیے کسی قسم کے کفارے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر عدت گزرجائے تو بھی نئے سرے سے نکاح کرکے اپنا گھر آباد کیا جاسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/232) لیکن اس نکاح کے لیے عورت کی رضامندی،سرپرست کی اجازت،حق مہر کی تعیین اور گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے،نیز رجوع کا حق پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے۔٭اگر رجوع کا پروگرام نہ ہوتو عدت گزرنے کے بعد عورت خود بخود آزاد ہوجائے گی۔اس کے لیے کسی مزید اقدام کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایسے حالات میں اسے الزام تراشی یا بدتمیزی سے رخصت نہ کیا جائے بلکہ اس سلسلے میں اس کے جو حقوق ہیں انھیں فیاضی سے ادا کیا جائے۔قرآن کریم نے ہدایت کی ہے کہ مطلقہ عورتوں کو بھی معروف طریقے سے کچھ دے کر رخصت کرو۔ایسا کرنا اہل تقویٰ کے لیے ضروری ہے۔(البقرۃ: 2/241)٭ اگر تیسری طلاق بھی دے دی جائے تو رشتۂ ازدواج ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتا ہے،تاہم عورت کے لیے عدت گزارنا ضروری ہے لیکن عام حالات میں اس سے رجوع نہیں ہوسکے گا۔اب رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ عورت کسی سازش کے طور پر نہیں بلکہ آباد ہونے کی نیت سے آگے کسی اور آدمی سے نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری کے بعد اسے اپنی مرضی سے طلاق دے یا فوت ہوجائے تو عدت طلاق یا عدت وفات گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/230)٭اگر عورت خاوند کی طرف سے بے اتفاقی کا شکار ہے اور وہ طلاق دے کر اسے فارغ بھی نہیں کرتا تو ایسی حالت میں عورت کو اختیار ہے کہ وہ بذریعۂ عدالت اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے یا خود اس سے کوئی معاملہ طے کرکے طلاق حاصل کرلے،جیسا کہ خلع میں ہوتا ہے۔(البقرۃ: 2/229)امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف طلاق کے مسائل ہی بیان نہیں کیے بلکہ خلع،لعان اور اظہار کے متعلق بہت سی قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔اس سلسلے میں آپ نے ایک سواٹھارہ(118)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چھبیس(26) معلق اور باقی بانوے(92) متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں بانوے(92)مکرر اور باقی چھبیس(26) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ آپ نے مختلف مسائل کے استنباط کے لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ کے نوّے(90)آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ان احادیث وآثار پر آپ نے تریپن(53)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی فقہی بصیرت اور ناقدانہ نظر کا پتا چلتا ہے۔آخر میں آپ نے عدت اور اس کی اقسا م،پھر اس کے آداب،نیز مہر کے متعلق احکام ومسائل بھی بیان کیے ہیں۔اللہ کی توفیق سے ہم نے امام بخاری رحمہ اللہ کے اختیار کیے ہوئے موقف کو واضح کرنے کے لیے جابجا نوٹ لکھے ہیں۔اگر ان میں کوئی کام کی چیز ہے تو وہاں صرف اللہ کا فضل کار فرما ہے اور اگر کوئی غلط بات نوک قلم پر آگئی ہے تو وہ ہماری کم فہمی اور کوتاہی کا نتیجہ ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن محدثین کی جماعت میں سے اٹھائے اور خدام حدیث کی فہرست میں شامل کرے۔آمين يا رب العالمين
تمہید باب
عدت کے سلسلے میں یہ آخری عنوان ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود اس عنوان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سوگ منانے والی عورت کو عدت کے ایام کہاں گزارنے چاہئیں؟ اپنے خاوند کے گھر میں یا اپنے میکے میں اس عدت کو پورا کر سکتی ہے۔ واللہ اعلم
امام مجاہد سے روایت ہے انہوں نے اس آیت کریمہ: ”جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔“ کی تفسیر میں کہا کہ یہ عدت جو شوہر کے اہل خانہ کے پاس گزاری جاتی تھی یہ ضروری امر تھا، پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری: اور جو لوگ میں سے فوت ہو جائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نکالا جائے ہاں، ”اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (نکاح) کر لیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔“ امام مجاہد نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے سات ماہ بیس دن سال پورا کرنے کے لیے وصیت میں شمار کیے ہیں۔ بیوی اگر چاہے تو وصیت کے مطابق ٹھہری رہے اور اگر چاہے تو گھر سےچلی جائے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد : ”انہیں نکالا نہ جائے اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔“ کے یہی معنیٰ ہیں عدت کے ایام تو اس پر واجب ہیں جیسا کہ مجاہد سے منقول ہے سیدنا عطاء نے سیدنا ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اس آیت نے اہل خانہ کے پاس عدت گزارنے کو منسوخ کر دیا ہے، اس لیے وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ سیدنا عطاء نے ''غیر إخراج'' کے متعلق فرمایا: اگر چاہے تو عدت کے ایام اپنے (شوہر کے) گھر والوں کے پاس گزارے اور وصیت کے مطابق قیام کرے اور اگر چاہے تو وہاں سے چلی آئے کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: ”تم پر اس کے متعلق کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنی مرضی کے مطابق کریں۔“ تم پر اس کے متعلق کوئی گناہ نہیں جو اپنی مرضی کے مطابق کریں۔ عطاء نے کہا: اس کے بعد میراث کے احکام نازل ہوئے تو اس نے ”رہائش“ کو بھی منسوخ کر دیا۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے۔ شوہر کی طرف سے اس کے لیے مکان کا انتظام نہیں ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام مجاہد رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ چار مہینے دس دن عدت گزارنے کا حکم پہلے نازل ہوا تھا کہ وہ یہ عدت خاوند کے گھر والوں کے پاس گزارے اور ایسا کرنا واجب تھا، پھر دوسری آیت نازل ہوئی جس میں ایک سال عدت گزارنے کے متعلق حکم تھا، اب سال پورا کرنے کے لیے سات ماہ بیس دن وصیت کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے خاوند کے گھر میں گزارے اگر چاہے تو اپنے میکے جا کر ان کو پورا کرے۔ ان کے نزدیک ناسخ، منسوخ سے پہلے نازل نہیں ہو سکتا، اس لیے انہوں نے دونوں کو جمع کرنے کی یہ صورت بیان کی ہے جبکہ عام مفسرین کا کہنا ہے کہ ایک سال عدت گزارنے پر مشتمل آیت کریمہ منسوخ ہے اور چار ماہ دس دن کی آیت اس کی ناسخ ہے۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ کسی مفسر نے آیات مذکورہ کی یہ تفسیر نہیں کی اور نہ کسی فقیہ نے یہ کہا ہے بلکہ تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ سال والی آیت منسوخ ہے۔ اور رہائش بھی عدت کے تابع ہے۔ جب چار ماہ دس دن کی عدت سے سال بھر کی عدت منسوخ ہو گئی تو رہائش کے متعلق خاوند کی ذمے داری بھی منسوخ ہو گئی۔ (فتح الباري: 611/9) (2) ہمارے رجحان کے مطابق جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو اس پر چار ماہ دس دن عدت گزارنا واجب ہے اور وہ اسی مکان میں عدت گزارے جہاں وہ شوہر کے ساتھ مقیم تھی یا جہاں اسے خاوند کے متعلق وفات کی اطلاع ملی جیسا کہ حضرت فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا کا خاوند فوت ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے میکے لوٹ جانے کے متعلق دریافت کیا کہ میرے شوہر نے اپنی ملکیت میں کوئی مکان نہیں چھوڑا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے میکے جا سکتی ہو‘‘ ابھی وہ حجرے سے باہر نہیں نکلی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اور فرمایا: ’’تم اپنے پہلے مکان ہی میں رہو جب تک تمہاری عدت پوری نہ ہو جائے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے چار ماہ دس دن کی عدت اسی سابقہ مکان میں پوری کی۔ (سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2300) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اس گھر میں رہو جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملی حتی کہ ایام عدت پورے ہو جائیں۔‘‘ (مسند أحمد: 370/6) (3) بعض اہل علم حدیث کے ان الفاظ سے عورت کو پابند کرتے ہیں کہ وہ ایام عدت وہیں گزارے جہاں اسے خاوند کی وفات کے متعلق اطلاع ملی ہو، خواہ وہ کسی کے گھر بطور مہمان ٹھہری ہو، اس طرح کی بے جا پابندی شریعت کے منشا کے خلاف ہے۔ بہرحال اس عورت کو اپنے خاوند کے گھر عدت کے ایام گزارنے ہوں گے، البتہ اس حکم سے درج ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں: ٭ میاں بیوی کرائے کے مکان میں رہائش رکھے ہوئے تھے۔ خاوند کی وفات کے بعد آمدنی کے ذرائع محدود ہو گئے یا مالک مکان نے مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا یا اپنے مکان میں عزیز و اقارب نے اتنا تنگ کیا کہ وہاں ایام پورے کرنا مشکل ہو گئے تو وہ کسی دوسرے مکان میں عدت گزار سکتی ہے۔ ٭ میاں بیوی کسی دوسرے ملک میں تھے۔ بیوی اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے اپنے ملک آئی تو دوسرے ملک میں اس کا خاوند فوت ہو گیا۔ اب ویزے وغیرہ کا مسئلہ بن گیا تو وہ اپنے ملک میں اپنے والدین کے ہاں عدت گزار سکتی ہے۔ ٭ عورت خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے کسی مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھی، اسی حالت میں اس کا خاوند فوت ہو گیا تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ چار ماہ دس دن اسی مقام پر گزارے بلکہ جہاں قافلہ ٹھہرے گا وہ اس کے ساتھ عدت کے ایام گزارتی رہے گی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم سے شبل بن عباد نے، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے آیت کریمہ ''وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ'' الخ، یعنی اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔“ کے متعلق کہا کہ یہ عدت جو شوہر کے گھر والوں کے پاس گزاری جاتی تھی، پہلے واجب تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ''وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَمنکم'' الخ، یعنی ”اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں (ان پر لازم ہے کہ) اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت کر جائیں کہ وہ ایک سال تک (گھر سے) نہ نکالی جائیں لیکن اگر وہ (خود) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔“ اس باب میں جسے وہ (بیویاں) اپنے بارے میں دستور کے مطابق کریں۔ مجاہد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی بیوہ کے لیے سات مہینے بیس دن سال بھر میں سے وصیت قرار دی۔ اگر وہ چاہے تو شوہر کی وصیت کے مطابق وہیں ٹھہر ی رہے اوراگر چاہے (چار مہینے دس دن کی عدت) پوری کر کے وہاں سے چلی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ''غیر إخراج'' تک یعنی انہیں نکالا نہ جائے۔ البتہ اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔“ کا یہی منشا ہے۔ پس عدت تو جیسی کہ پہلی تھی، اب بھی اس پر واجب ہے۔ ابن ابی نجیح نے اسے مجاہد سے بیان کیا اور عطاء نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ اس پہلی آیت نے بیوہ کو خاوند کے گھر میں عدت گزارنے کے حکم کو منسوخ کر دیا، اس لیے اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے اور (اسی طرح اس آیت نے) اللہ تعالیٰ کے ارشاد ''غیر إخراج'' یعنی ”انہیں نکالا نہ جائے۔“ (کو بھی منسوخ کر دیا ہے) عطاء نے کہا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے (شوہر کے) گھر والوں کے یہاں ہی عدت گزارے اور وصیت کے مطابق قیام کرے اور اگر چاہے وہاں سے چلی آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ (فلیس علیکم جناح الخ) یعنی ”پس تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں، جو وہ اپنی مرضی کے مطابق کریں۔“ عطاء نے کہا کہ اس کے بعد میراث کا حکم نازل ہوا اور اس نے مکان کے حکم کو منسوخ کر دیا۔ پس وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے اور اس کے لیے (شوہر کی طرف سے) مکان کا انتظام نہیں ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
عام مفسرین کا یہ قول ہے کہ ایک سال کی مدت کی آیت منسوخ ہے اورچارمہینے دس دن کی آیت اس کی ناسخ ہے اور پہلے ایک سال کی عدت کا حکم ہوا تھا پھر اللہ نے اسے کم کر کے چار مہینے اور دس دن رکھا اور دوسری آیت اتاری۔ اگر عورت سات مہینے بیس دن یا ایک سال پورا ہونے تک اپنی سسرال میں رہنا چاہے تو سسرال والے اسے نکال نہیں سکتے۔ ''غیر إخراج'' کا یہی مطلب ہے۔ یہ مذہب خاص مجاہد کا ہے۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ایک سال کی عدت کا حکم بعد میں اترا ہے اور چار مہینے دس دن کا پہلے اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ناسخ منسوخ سے پہلے اترے۔ اس لیے انہوں نے دونوں آیتوں میں یوں جمع کیا ۔ باقی تمام مفسرین کا یہ قول ہے کہ ایک سال کی عدت کی آیت منسوخ ہے اور چار مہینے دس دن کی عدت کی آیت اس کی ناسخ ہے اور پہلے ایک سال کی عدت کا حکم ہوا تھا پھر اللہ نے اسے کم کر کے چار مہینے دس دن رکھا اور دوسری آیت اتاری یعنی اربعۃ ''اشھر وعشرا'' والی آیت۔ اب عورت خواہ سسرال میں رہے، خواہ اپنے میکے میں۔ اسی طرح تین طلاق کے خاوند کے گھر میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ خاوند کے گھر میں عدت پوری کرنا اس وقت عورت پر واجب ہے، جب طلاق رجعی ہو کیونکہ خاوند کے رجوع کرنے کی امید ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mujahid (RA) : (regarding the Verse): 'If any of you dies and leaves wives behind,' That was the period of the 'Iddah which the widow was obliged to spend in the house of the late husband. Then Allah revealed: And those of you who die and leave wives should bequeath for their wives a year's maintenance and residence without turning them out, but if they leave, there is no blame on you for what they do of themselves, provided it is honorable (i.e. lawful marriage) (2.240) Mujahid said: Allah has ordered that a widow has the right to stay for seven months and twenty days with her husband's relatives through her husband's will and testament so that she will complete the period of one year (of 'Iddah). But the widow has the right to stay that extra period or go out of her husband's house as is indicated by the statement of Allah: 'But if they leave there is no blame on you,... ' (2.240) Ibn 'Abbas (RA) said: The above Verse has cancelled the order of spending the period of the 'Iddah at her late husband's house, and so she could spend her period of the 'Iddah wherever she likes. And Allah says: 'Without turning them out.' 'Ata said: If she would, she could spend her period of the 'Iddah at her husband's house, and live there according to her (husband's) will and testament, and if she would, she could go out (of her husband's house) as Allah says: 'There is no blame on you for what they do of themselves.' (2.240) 'Ata added: Then the Verses of inheritance were revealed and the order of residence (for the widow) was cancelled, and she could spend her period of the 'Iddah wherever she would like, and she was no longer entitled to be accommodated by her husband's family.