باب:اس بات کے بیان میں کہ عمل بغیر نیت اور خلوص کے صحیح نہیں ہوتے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے گا
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: What is said regarding the statement: "The reward of deeds depends upon the intention and hoping to get rewards from Allah.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
تو عمل میں ایمان، وضو، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ اور سارے احکام آ گئے اور ( سورہ بنی اسرائیل میں ) اللہ نے فرمایا : ’’اے پیغمبر! کہہ دیجیئے کہ ہر کوئی اپنے طریق یعنی اپنی نیت پر عمل کرتا ہے ۔‘‘ اور ( اسی وجہ سے ) آدمی اگر ثواب کی نیت سے خدا کا حکم سمجھ کر اپنے گھر والوں پر خرچ کر دے تو اس میں بھی اس کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور جب مکہ فتح ہو گیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ اب ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا لیکن جہاد اور نیت کا سلسلہ باقی ہے۔
54.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا مدار نیت پر ہے۔ ہر انسان کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی۔ اگر کوئی اپنا وطن اللہ اور اس کے رسول کے لیے چھوڑتا ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی۔ اگر کسی کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہو، تو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو نیت کی اہمیت اور اس کے مسائل و احکام بتانے کے لیے یہاں لائے ہیں۔ ان کے نزدیک ایمان بھی عمل کی ایک صورت ہے لہٰذا اس کے لیے بھی نیت کی ضرورت ہے بصورت دیگر اگر ایمان، تصدیق کے معنی میں ہو تو اس کے لیے نیت کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ یہ دل کا فعل ہے جیسے خشیت وانابت اور خوف ورجا کے لیے نیت نہیں ہوتی۔ یہ تو اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں نیت اس لیے ہوتی ہے کہ اعمال میں امتیاز ہو جائے۔ کہ یہ عمل اللہ کے لیے ہے۔ یا مراتب اعمال کی تمیز کے لیے نیت کام آتی ہے کہ یہ فرض ہے اور یہ مستحب ہے۔ یا نیت اس لیے ہوتی ہے کہ عبادت عادت سے ممتاز ہو جائے مثلاً ایک آدمی کسی طبیب کے کہنے سے صبح سے شام تک کھانا پینا بند کر دیتا ہے یہ روزہ نہیں ہو گا وغیرہ۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2329 (1006)) 2۔ نیت اور ارادے کے لحاظ سے احکام شریعت کی چار اقسام ہیں: (1) عمل شریعت کے مطابق اور نیت بھی شریعت کے موافق ہو، مثلاً: نماز اللہ نے اس لیے فرض کی ہے کہ اس کے ادا کرنے سے اس کی رضا حاصل ہو، نماز پڑھتے وقت یہی مقصد نمازی کا ہونا چاہیے اگر نمازی اپنی نماز شریعت کے مطابق پڑھتا ہے اور نیت بھی اللہ کی رضا کا حصول ہے تو اس کی نماز صحیح اور باعث نجات ہے۔ (2) عمل شریعت کے مخالف اور نیت بھی شریعت کی خلاف ورزی کرنا ہو، مثلاً: چوری کرنا شریعت کی مخالفت ہے اور چوری کرتے وقت ارادہ بھی شریعت کی مخالفت کا ہے تو ایسے انسان کا عمل باطل اور قیامت کے دن باعث عتاب ہے۔ (3) عمل شریعت کے مطابق لیکن نیت شریعت کے مخالف ہو مثلاً: نماز صحیح پڑھتا ہے لیکن مقصد ریا کاری ہے شریعت کے مقصد کے خلاف ہے ارادے کے خراب ہونے سے عمل بھی خراب اور قیامت کے دن باعث سزا ہوگا۔ (4) عمل شریعت کے مخالف لیکن نیت نیک ہو، مثلاً جانور ذبح کرتے وقت (بسم الله والله أكبر) کی بجائے چاروں قل حصول ثواب کی خاطر پڑھ کر چھری پھیرتا ہے تو جانور حلال نہ ہو گا۔ کیونکہ نیت اگرچہ نیک ہے لیکن یہ عمل مشروع نہیں۔ 3۔ نیت کے شرعی معنی یہ ہیں کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کےلیے کسی کام کا ارادہ کیا جائے۔ اس شرعی معنی کے اعتبار سے صرف عبادات ہیں جن میں نیت یعنی اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے باقی چیزوں میں اخلاص کی ضرورت نہیں مثلاً کھانا پینا اور سونا وغیرہ یہ کام کرنے سے دنیاوی مقاصد حاصل ہوتے ہیں البتہ اخلاص اور حسن نیت سے ایسے کاموں کو عبادت میں شامل کیا جا سکتا ہے اور ان کی بجا آوری باعث ثواب ہو سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
54
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
54
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
54
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
54
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
بعض مرجیہ کا موقف ہے کہ زبانی اقرار ، ایمان کی ایک شکل ہے اور اخروی نجات کے لیے کافی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نیت کے بغیر کوئی عمل ثمر آور نہیں۔ زبانی اقرار اگرچہ ایک عمل ہے لیکن نیت کے بغیر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس عنوان کے تین حصے ہیں۔ 1۔نیت اعمال کے لیے ضروری ہے ۔2۔احتساب کے ساتھ نیت کرنا ثواب میں اضافے کا موجب ہے۔ 3۔ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔ نتیجے کے طور پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نیت کے بغیر جب کوئی عمل معتبر نہیں ہوتا تو ایمان ،وضو ،نماز ،زکاۃ وغیرہ میں بھی نیت ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایمان بھی ایک عمل ہے، اس کے لیے بھی نیت کا ہونا ضروری ہے، اب ان دعاوی کے ثبوت کے لیے قرآن کی آیت اور دو اطراف حدیث پیش کی ہیں پھر تین احادیث ذکر کی ہیں۔1۔(قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ) ہر شخص کا عمل اس کی نیت کے مطابق ہوتا ہے معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی اچھی نیت سے کام کرتا ہے تو ثواب اور اگر بری نیت سے کرتا ہے تو عتاب ، بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جنھیں اپنے طبعی تقاضوں کی وجہ سے سر انجام دیا جاتا ہے پس ان میں ثواب و عتاب کا کوئی تصور شامل نہیں ہوتا۔2۔اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا انسان کی ذمے داری ہے لیکن اگر ثواب کی نیت کر لی جائے تو اس میں بھی ثواب ملتا ہے۔ اگر نیت اچھی ہے تو خود اپنے آپ پر خرچ کر کے بھی ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔3۔جہاد اور نیت کے باقی رہنے کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ارشاد فرمائی،یعنی اس فتح کے بعد ہجرت ختم ہو چکی ہے لیکن ثواب حاصل کرنے والوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ جہاد اور نیت قیامت تک رہنے والی چیزیں ہیں اس راستے سے ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
تو عمل میں ایمان، وضو، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ اور سارے احکام آ گئے اور ( سورہ بنی اسرائیل میں ) اللہ نے فرمایا : ’’اے پیغمبر! کہہ دیجیئے کہ ہر کوئی اپنے طریق یعنی اپنی نیت پر عمل کرتا ہے ۔‘‘ اور ( اسی وجہ سے ) آدمی اگر ثواب کی نیت سے خدا کا حکم سمجھ کر اپنے گھر والوں پر خرچ کر دے تو اس میں بھی اس کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور جب مکہ فتح ہو گیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ اب ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا لیکن جہاد اور نیت کا سلسلہ باقی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا مدار نیت پر ہے۔ ہر انسان کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی۔ اگر کوئی اپنا وطن اللہ اور اس کے رسول کے لیے چھوڑتا ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی۔ اگر کسی کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہو، تو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو نیت کی اہمیت اور اس کے مسائل و احکام بتانے کے لیے یہاں لائے ہیں۔ ان کے نزدیک ایمان بھی عمل کی ایک صورت ہے لہٰذا اس کے لیے بھی نیت کی ضرورت ہے بصورت دیگر اگر ایمان، تصدیق کے معنی میں ہو تو اس کے لیے نیت کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ یہ دل کا فعل ہے جیسے خشیت وانابت اور خوف ورجا کے لیے نیت نہیں ہوتی۔ یہ تو اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں نیت اس لیے ہوتی ہے کہ اعمال میں امتیاز ہو جائے۔ کہ یہ عمل اللہ کے لیے ہے۔ یا مراتب اعمال کی تمیز کے لیے نیت کام آتی ہے کہ یہ فرض ہے اور یہ مستحب ہے۔ یا نیت اس لیے ہوتی ہے کہ عبادت عادت سے ممتاز ہو جائے مثلاً ایک آدمی کسی طبیب کے کہنے سے صبح سے شام تک کھانا پینا بند کر دیتا ہے یہ روزہ نہیں ہو گا وغیرہ۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2329 (1006)) 2۔ نیت اور ارادے کے لحاظ سے احکام شریعت کی چار اقسام ہیں: (1) عمل شریعت کے مطابق اور نیت بھی شریعت کے موافق ہو، مثلاً: نماز اللہ نے اس لیے فرض کی ہے کہ اس کے ادا کرنے سے اس کی رضا حاصل ہو، نماز پڑھتے وقت یہی مقصد نمازی کا ہونا چاہیے اگر نمازی اپنی نماز شریعت کے مطابق پڑھتا ہے اور نیت بھی اللہ کی رضا کا حصول ہے تو اس کی نماز صحیح اور باعث نجات ہے۔ (2) عمل شریعت کے مخالف اور نیت بھی شریعت کی خلاف ورزی کرنا ہو، مثلاً: چوری کرنا شریعت کی مخالفت ہے اور چوری کرتے وقت ارادہ بھی شریعت کی مخالفت کا ہے تو ایسے انسان کا عمل باطل اور قیامت کے دن باعث عتاب ہے۔ (3) عمل شریعت کے مطابق لیکن نیت شریعت کے مخالف ہو مثلاً: نماز صحیح پڑھتا ہے لیکن مقصد ریا کاری ہے شریعت کے مقصد کے خلاف ہے ارادے کے خراب ہونے سے عمل بھی خراب اور قیامت کے دن باعث سزا ہوگا۔ (4) عمل شریعت کے مخالف لیکن نیت نیک ہو، مثلاً جانور ذبح کرتے وقت (بسم الله والله أكبر) کی بجائے چاروں قل حصول ثواب کی خاطر پڑھ کر چھری پھیرتا ہے تو جانور حلال نہ ہو گا۔ کیونکہ نیت اگرچہ نیک ہے لیکن یہ عمل مشروع نہیں۔ 3۔ نیت کے شرعی معنی یہ ہیں کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کےلیے کسی کام کا ارادہ کیا جائے۔ اس شرعی معنی کے اعتبار سے صرف عبادات ہیں جن میں نیت یعنی اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے باقی چیزوں میں اخلاص کی ضرورت نہیں مثلاً کھانا پینا اور سونا وغیرہ یہ کام کرنے سے دنیاوی مقاصد حاصل ہوتے ہیں البتہ اخلاص اور حسن نیت سے ایسے کاموں کو عبادت میں شامل کیا جا سکتا ہے اور ان کی بجا آوری باعث ثواب ہو سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
اور ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔ اس میں ایمان، وضو، نماز، زکاۃ، حج، روزہ اور دوسرے احکام بھی شامل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کہہ دیجیے: ہر شخص اپنی نیت کے مطابق عمل پیرا ہے۔‘‘ شاکلہ کے معنی نیت ہیں۔ اور انسان کا اپنے اہل و عیال پر بہ نیتِ ثواب خرچ کرنا صدقہ ہے۔ اور نبی ﷺ نے فرمایا: ’’لیکن جہاد اور نیت باقی ہیں۔‘‘
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انھوں نے یحییٰ بن سعید سے، انھوں نے محمد بن ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ بن وقاص سے، انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: عمل نیت ہی سے صحیح ہوتے ہیں (یا نیت ہی کے مطابق ان کا بدلا ملتا ہے) اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے گا۔ پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے ہجرت کرے اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو گی اور جو کوئی دنیا کمانے کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت ان ہی کاموں کے لیے ہو گی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Al-Khattab (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "The reward of deeds depends upon the intention and every person will get the reward according to what he has intended. So whoever emigrated for Allah and His Apostle, then his emigration was for Allah and His Apostle. And whoever emigrated for worldly benefits or for a woman to marry, his emigration was for what he emigrated for."