مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان پھر وہ بھنا ہو ا بچھڑا لے کر آئے لفظ حنیذ کے معنی بھنا ہوا ہے
5400.
سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ جب آپ نے اسے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ سے کہا گیا: یہ تو سانڈا ہے۔ آپ ﷺ نے سن کر دست مبارک روک لیا۔ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے عرض کی: اللہ کےرسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(حرام تو نہیں) لیکن میری قوم کی سر زمین میں نہیں پایا جاتا اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں۔“ چنانچہ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھےامام مالک نے ابن شہاب سے (ضب مشوي کے بجائے) ضب محنوذ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔
تشریح:
(1) بھنا ہوا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھنا ہوا گوشت تناول فرمایا ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اس طرح عنوان ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن سانڈا ہونے کی وجہ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اگر وہ سانڈا نہ ہوتا تو آپ اسے ضرور کھاتے۔ شارح بخاری ابن بطال رحمہ اللہ نے اسی طرح لکھا ہے۔ (فتح الباري: 671/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5191
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5400
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5400
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5400
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
بھنا ہوا گوشت کھانا جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل کے طور پر ایک آیت کریمہ پیش کی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جب فرشتے انسانی شکل میں آئے تو انہوں نے ضیافت اور مہمانی کے طور پر ان کے سامنے بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملت ابراہیمی کے علمبردار تھے، اس لیے ان کی شریعت ہمارے لیے قابل حجت ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان پھر وہ بھنا ہو ا بچھڑا لے کر آئے لفظ حنیذ کے معنی بھنا ہوا ہے
حدیث ترجمہ:
سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ جب آپ نے اسے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ سے کہا گیا: یہ تو سانڈا ہے۔ آپ ﷺ نے سن کر دست مبارک روک لیا۔ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے عرض کی: اللہ کےرسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(حرام تو نہیں) لیکن میری قوم کی سر زمین میں نہیں پایا جاتا اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں۔“ چنانچہ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھےامام مالک نے ابن شہاب سے (ضب مشوي کے بجائے) ضب محنوذ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) بھنا ہوا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھنا ہوا گوشت تناول فرمایا ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اس طرح عنوان ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن سانڈا ہونے کی وجہ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اگر وہ سانڈا نہ ہوتا تو آپ اسے ضرور کھاتے۔ شارح بخاری ابن بطال رحمہ اللہ نے اسی طرح لکھا ہے۔ (فتح الباري: 671/9)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالی :وہ’’(ابراہیم ؑ)بھنا ہو بچھڑا لے آئے۔‘‘ حَنِيذٍ ہیں بھنا ہوا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوامامہ بن سہل نے اور انہیں ابن عباس ؓ نے کہ خالد بن ولید ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے لیے بھنا ہوا ساہنہ پیش کیا گیا تو آپ اسے کھانے کے لیے متوجہ ہوئے۔ اسی وقت آپ کو بتایا گیا کہ یہ ساہنہ ہے تو آپ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ حضرت خالد ؓ نے پوچھا کیا یہ حرام ہے؟ فرمایا کہ نہیں لیکن چونکہ یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا اس لیے طبیعت اسے گوارا نہیں کرتی۔ پھر خالد ؓ نے اسے کھایا اور نبی کریم ﷺ دیکھ رہے تھے۔ امام مالک نے ابن شہاب سے ''ضب محنوذ'' (یعنی بھنا ہوا ساہنہ ضب مشوي کی جگہ محنوذ نقل کیا، دونوں لفظوں کا ایک معنی ہے)
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب حضرت امام بخاری نے اس حدیث سے یوں نکالا کہ صرف ساہنہ ہونے کی وجہ سے وہ گوشت آپ نے چھوڑ دیا ورنہ کھانے کو بھنا گوشت کھانا ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Khalid bin Al-Walid (RA) : "A roasted mastigure was brought to the Prophet (ﷺ) who stretched his hand towards it to eat it. But it was said to him, "It is a mastigure." So he withdrew his hand. Khalid asked, "Is it unlawful to eat?" the Prophet (ﷺ) said, "No, but it is not found in the land of my people and that is why I do not like eating it." So Khalid started eating (it) while Allah's Apostle (ﷺ) was looking at him. An-Nadr said: 'Al-Khazira' (is prepared) from bran while 'Al-Harira' is prepared from milk.