Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: Al-Hais (dish prepared from dried yoghourt, butter and dates))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5425.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو طلحہ ؓ سے فرمایا: ”تم اپنے یہاں کے بچوں میں سے کوئی بچہ تلاش کر لاؤ میرے کام کر دیا کرے۔“ سیدنا طلحہ ؓ مجھے لے کر نکلے اور اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا چنانچہ رسول اللہ ﷺ جب کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا۔ میں آپ کو بکثرت یہ دعا پڑھتے سنتا: ”اۓ اللہ! میں تیرے زریعے سے غم و اندوہ عجز و سستی، بخل کے بوجھ بزدلی، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے پناہ چاہتا ہوں۔“ میں ہمیشہ آپ ﷺ کی خدمت کرتا رہا حتیٰ کہ ہم خیبر سے واپس آئے۔ سیدنا صفیہ بنت جیسی بھی ساتھ تھیں جنہیں آپ نے پسند فرمایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنے پیچھے کمبل یا چادر کا پردہ کیا پھر ان کو وہاں بٹھایا۔ آ کر جب ہم مقام صہباء پہنچے تو آپ نے دسترخوان پر حیس تیار کرایا، پھر مجھے بھیجا تو میں نے لوگوں کو بلایا، پھر سب لوگوں نے اسے کھایا۔ یہی آپ ﷺ کی طرف سے سیدہ صفیہ ؓ کے ساتھ خلوت کی دعوت ویلمہ تھی، پھر آپ روانہ ہوئے، جب احد پہاڑ دکھائی دیا تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! میں اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی علاقے کو اسی طرح حرم قرار دیتا ہوں جس طرح سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا قرار دیا تھا۔ اۓ اللہ! مدینہ والوں کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔“
تشریح:
(1) اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور مدینہ طیبہ کو مکے کی طرح خیر و برکات سے مالا مال کر دیا۔ مدینہ طیبہ کی آب و ہوا بڑی معتدل، وہاں کا پانی میٹھا اور غذا بہترین اثرات رکھتی ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طویل حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ کھجور، گھی اور پنیر سے حیس تیار کر کے بوقت ضرورت ولیمے میں کھلایا جا سکتا ہے۔ ولیمے میں گوشت کا ہونا ضروری نہیں۔ موقع و محل کے مطابق جو کچھ میسر ہو اسے پیش کر دیا جائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5216
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5425
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5425
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5425
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حیس سے مراد وہ حلوہ ہے جو کھجور، گھی اور پنیر سے بنایا جاتا ہے۔ بعض اوقات پنیر کے بجائے اس میں آٹا ملایا جاتا ہے۔ (فتح الباری: 9/685)
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو طلحہ ؓ سے فرمایا: ”تم اپنے یہاں کے بچوں میں سے کوئی بچہ تلاش کر لاؤ میرے کام کر دیا کرے۔“ سیدنا طلحہ ؓ مجھے لے کر نکلے اور اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا چنانچہ رسول اللہ ﷺ جب کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا۔ میں آپ کو بکثرت یہ دعا پڑھتے سنتا: ”اۓ اللہ! میں تیرے زریعے سے غم و اندوہ عجز و سستی، بخل کے بوجھ بزدلی، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے پناہ چاہتا ہوں۔“ میں ہمیشہ آپ ﷺ کی خدمت کرتا رہا حتیٰ کہ ہم خیبر سے واپس آئے۔ سیدنا صفیہ بنت جیسی بھی ساتھ تھیں جنہیں آپ نے پسند فرمایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنے پیچھے کمبل یا چادر کا پردہ کیا پھر ان کو وہاں بٹھایا۔ آ کر جب ہم مقام صہباء پہنچے تو آپ نے دسترخوان پر حیس تیار کرایا، پھر مجھے بھیجا تو میں نے لوگوں کو بلایا، پھر سب لوگوں نے اسے کھایا۔ یہی آپ ﷺ کی طرف سے سیدہ صفیہ ؓ کے ساتھ خلوت کی دعوت ویلمہ تھی، پھر آپ روانہ ہوئے، جب احد پہاڑ دکھائی دیا تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! میں اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی علاقے کو اسی طرح حرم قرار دیتا ہوں جس طرح سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا قرار دیا تھا۔ اۓ اللہ! مدینہ والوں کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور مدینہ طیبہ کو مکے کی طرح خیر و برکات سے مالا مال کر دیا۔ مدینہ طیبہ کی آب و ہوا بڑی معتدل، وہاں کا پانی میٹھا اور غذا بہترین اثرات رکھتی ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طویل حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ کھجور، گھی اور پنیر سے حیس تیار کر کے بوقت ضرورت ولیمے میں کھلایا جا سکتا ہے۔ ولیمے میں گوشت کا ہونا ضروری نہیں۔ موقع و محل کے مطابق جو کچھ میسر ہو اسے پیش کر دیا جائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے مطلب بن عبداللہ بن حنطب کے غلام عمرو بن ابی عمرو نے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے فرمایا کہ اپنے یہاں کے بچوں میں کوئی بچہ تلاش کر لاؤ جو میرے کام کر دیا کرے۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر لائے۔ میں آنحضرت ﷺ کی جب بھی آپ کہیں پڑاؤ کرتے خدمت کرتا۔ میں سنا کرتا تھا کہ آنحضرت ﷺ بکثرت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم سے، رنج سے، عجز سے، سستی سے، بخل سے، بزدلی سے، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبہ سے۔“ (حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ) پھر میں اس وقت سے برابر آپ کی خدمت کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ہم خیبر سے واپس ہوئے اور حضرت صفیہ بنت حیی ؓ بھی ساتھ تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں پسند فرمایا تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے لیے اپنی سواری پر پیچھے کپڑے سے پردہ کیا اور پھر انہیں وہاں بٹھایا۔ آخر جب مقام صہبا میں پہنچے تو آپ نے دستر خوان پر حیس (کھجور، پنیر اور گھی وغیرہ کا ملیدہ) بنایا پھر مجھے بھیجا اور میں نے لوگوں کو بلا لایا، پھر سب لوگوں نے اسے کھایا۔ یہی آنحضرت ﷺ کی طرف سے حضرت صفیہ ؓ سے نکاح کی دعوت ولیمہ تھی۔ پھر آپ روانہ ہوئے اور جب احد دکھائی دیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اورہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد جب مدینہ نظر آیا تو فرمایا ”اے اللہ! میں اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی علاقے کو اسی طرح حرمت والا علاقہ بناتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرمت والا شہر بنایا تھا۔ اے اللہ! اس کے رہنے والوں کو برکت عطا فرما۔ ان کے مد میں اوران کے صاع میں برکت فرما۔“
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی دعا قبول فرمائی اور مدینہ کو مثل مکہ کے برکتوں سے مالا مال فرما دیا۔ مدینہ کی آب وہوا معتدل ہے اور وہاں کا پانی شیریں اور وہاں کی غذا بہترین اثرات رکھتی ہے۔ مدینہ بھی مکہ کی طرح حرم ہے جو لوگ مدینہ کی حرمت کا انکار کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اس بارے میں اہلحدیث ہی کا مسلک صحیح ہے کہ مدینہ بھی مثل مکہ حرم ہے۔ زادھا اللہ شرفا و تعظیما۔ حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب بن شعبہ سبط حضرت ہارون علیہ السلام سے ہیں۔ ان کی ماں کا نام برہ بنت سموال تھا۔ یہ جنگ خیبر میں سبایا میں تھیں۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے درخواست کی مگر لوگوں نے کہا کہ یہ بنوقریظہ اور بنونضیر کی سیدہ ہیں۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حرم میں داخل فرما لیں تو بہتر ہے۔ چنانچہ ان کو آزاد کر کے آپ نے ان سے نکاح کر لیا۔ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رو رہی ہیں۔ آپ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ مجھ کو حقیر سمجھتی ہیں اور اپنے لیے بطور فخر کہتی ہیں کہ میرا نسب نامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ تم مجھ سے کیوں کر بہتر ہو سکتی ہو۔ میرے باپ حضرت ہارون علیہ السلام اورمیرے چچا موسیٰ علیہ السلام اور میرے شوہر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ایک دفعہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی نے حضرت فاروق رضی اللہ عنہ سے آ کر شکایت کی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ سبت کی عزت کرتی ہیں اوریہود کوعطیات دیتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ا ن سے دریافت کر بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ جب سے اللہ نے ہم کو جمعہ عطا فرمایا ہے میں نے سبت کبھی پسند نہیں کیا۔ رہے یہود ان سے میری قرابت کے تعلقات ہیں میں ان کو ضرور دیتی رہتی ہوں۔ پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ اس شکایت کی وجہ کیا ہے؟ لونڈی نے کہا کہ مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے ان کو راہ اللہ آزاد کر دیا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کا انتقال رمضان سنہ 50 ھ میں ہوا۔ ان سے دس احادیث مردی ہیں۔ ان کے ماموں رفاعہ بن سموال صحابی تھے۔ ان کی حدیث مؤطا امام مالک میں ہے۔ (رحمۃ للعالمین، جلد: دوم،222)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said to Abu Talha, "Seek one of your boys to serve me." Abu Talha mounted me behind him (on his riding animal) and took me (to the Prophet (ﷺ) ). So I used to serve Allah's Apostle (ﷺ) whenever he dismounted (to stay somewhere). I used to hear him saying very often, "O Allah! I seek refuge with You from, having worries sadness, helplessness, laziness, miserliness, cowardice, from being heavily in debt and from being overpowered by other persons unjustly." I kept on serving till we -returned from the battle of Khaibar. The Prophet (ﷺ) then brought Safiyya bint Huyai whom he had won from the war booty. I saw him folding up a gown or a garment for her to sit on behind him (on his she-camel). When he reached As-Sahba', he prepared Hais and placed it on a dining sheet. Then he sent me to invite men, who (came and) ate; and that was his and Safiyya's wedding banquet. Then the Prophet (ﷺ) proceeded, and when he saw (noticed) the mountain of Uhud, he said, "This mountain loves us, and we love it." When we approached Medina, he said, "O Allah! I make the area between its two mountains a sanctuary as Abraham has made Makkah a sanctuary. O Allah! Bless their Mudd and Sa (special kinds of measure)."