Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: The mention of food)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5427.
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس مومن کی مثال جو قرآن مجید پڑھتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کی خوشبو نہیں ہوتی لیکن پڑھتا کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن ذائقہ شیریں ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ببونہ کی طرح ہے جس کی خوشبو دلربا لیکن ذائقہ انتہائی کڑوا ہے۔ اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اسکی مثال اندرائن (تمے) جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزا بھی کڑوا ہوتا ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مزیدار اور خوشبودار کھانا تناول کرنا جائز ہے کیونکہ آپ نے مومن کی مثال سنگترے سے دی ہے جو مزیدار اور خوشبودار ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ حلال طور پر مزیدار کھانا عنایت فرمائے تو اسے خوشی خوشی کھانا چاہیے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ (2) مزیدار کھانا زہد و تقویٰ کے خلاف نہیں ہے اور جو جاہل لوگ مزیدار لوگ کھانے کو پانی یا نمک سے بدمزہ کر کے کھاتے ہیں یہ ان کی حماقت اور نادانی ہے، نیز اس حدیث میں تلخ طعام کی کراہت کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ أعلم۔ بعض اسلاف سے مزیدار کھانوں کی کراہت منقول ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ کے لیے ایسی عادت اختیار نہ کی جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی وقت صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور وہ گمراہی میں جا پڑے۔ (فتح الباري: 687/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5218
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5427
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5427
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5427
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس مومن کی مثال جو قرآن مجید پڑھتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کی خوشبو نہیں ہوتی لیکن پڑھتا کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن ذائقہ شیریں ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ببونہ کی طرح ہے جس کی خوشبو دلربا لیکن ذائقہ انتہائی کڑوا ہے۔ اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اسکی مثال اندرائن (تمے) جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزا بھی کڑوا ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مزیدار اور خوشبودار کھانا تناول کرنا جائز ہے کیونکہ آپ نے مومن کی مثال سنگترے سے دی ہے جو مزیدار اور خوشبودار ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ حلال طور پر مزیدار کھانا عنایت فرمائے تو اسے خوشی خوشی کھانا چاہیے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ (2) مزیدار کھانا زہد و تقویٰ کے خلاف نہیں ہے اور جو جاہل لوگ مزیدار لوگ کھانے کو پانی یا نمک سے بدمزہ کر کے کھاتے ہیں یہ ان کی حماقت اور نادانی ہے، نیز اس حدیث میں تلخ طعام کی کراہت کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ أعلم۔ بعض اسلاف سے مزیدار کھانوں کی کراہت منقول ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ کے لیے ایسی عادت اختیار نہ کی جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی وقت صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور وہ گمراہی میں جا پڑے۔ (فتح الباري: 687/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو سنگترے جیسی ہے جس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن مزہ میٹھا ہوتا ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، ریحانہ (پھول) جیسی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن مزہ کڑوا ہوتا ہے اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ مزیدار اور خوشبو دار کھانا کھانا درست ہے کیونکہ مومن کی مثل آپ نے اس سے دی۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ اگر حلال طور سے اللہ تعالیٰ مزیدار کھانا عنایت فرمائے تو اسے خوشی سے کھائے، حق تعالیٰ کا شکر بجا لائے اور مزیدار کھانے کھانا زہد اور درویشی کے خلاف نہیں ہے اور جو بعض جاہل فقیر مزیدار کھانے کوپانی یا نمک ملا کر بدمزہ کر کے کھاتے ہیں یہ اچھا نہیں ہے۔ بعض بزرگوں نے کہا ہے کہ خوش ذائقہ کھانے پر خوش ہونا چاہیئے۔ اسے بد ذائقہ بنانا حماقت اور نادانی ہے۔ ایسے جاہل فقیر شریعت الٰہی کو الٹ پلٹ کرنے والے حلال و حرام کی نہ پرواہ کرنے والے در حقیقت دشمنان اسلام ہوتے ہیں۔ أعاذنا من شرورھم آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa Al-Ash'ari (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "The example of a Believer who recites the Qur'an, is that of a citron which smells good and tastes good; And the example of a Believer who does not recite the Qur'an, is that of a date which has no smell but tastes sweet; and the example of a hypocrite who recites the Qur'an, is that of an aromatic plant which smells good but tastes bitter; and the example of a hypocrite who does not recite the Qur'an, is that of a colocynth plant which has no smell and is bitter in taste."