Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: The eating of a spadix of the palm tree)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5444.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک مرتبہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں موجود تھے کہ آپ کے پاس کھجور کا گودا لایا گیا۔ نبی ﷺ فرمایا: ”درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جس کی برکت، مسلمان کی برکت جیسی ہے۔“ میں نے خیال کیا کہ آپ کا اشارہ کھجور کے درخت کی طرف ہے۔ میں نے سوچا کہ کہہ دوں۔ اللہ کے رسول! یہ کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں نے ادھر ادھر دیکھا تو مجلس میں میرے علاوہ نو آدمی اور تھے اور میں ان سب سے چھوٹا تھا، اس لیے میں خاموش رہا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ درخت کھجور کا ہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں جمار کے کھانے کا ذکر نہیں ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے ذریعے سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں کھانے کی صراحت ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا جبکہ آپ جمار کھا رہے تھے اور آپ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک درخت مومن آدمی کی طرح ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2209) (2) واقعی کھجور کے درخت کا ہر ہر جز اسی طرح نفع بخش ہے جس طرح مومن آدمی کی ذات، صفات، افعال اور اقوال سب نفع مند ہیں۔ یہ درخت ظاہری طور پر مسلمان سے مشابہت رکھتا ہے، چنانچہ کھجور کا سر کاٹ دیا جائے تو وہ آدمی کی طرح ختم ہو جاتی ہے جبکہ باقی درخت ختم نہیں ہوتے بلکہ ازسرنو ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5235
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5444
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5444
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5444
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
کھجور کے درخت کی آخری ٹہنیوں کے درمیان ایک گودا ہوتا ہے جس سے گوندھے ہوئے آٹے کی مہک آتی ہے، اسے عربی میں جمار کہتے ہیں۔ یہ کھانے میں بہت لذیذ اور مزیدار ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا جیسا کہ آئندہ حدیث سے معلوم ہو گا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک مرتبہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں موجود تھے کہ آپ کے پاس کھجور کا گودا لایا گیا۔ نبی ﷺ فرمایا: ”درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جس کی برکت، مسلمان کی برکت جیسی ہے۔“ میں نے خیال کیا کہ آپ کا اشارہ کھجور کے درخت کی طرف ہے۔ میں نے سوچا کہ کہہ دوں۔ اللہ کے رسول! یہ کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں نے ادھر ادھر دیکھا تو مجلس میں میرے علاوہ نو آدمی اور تھے اور میں ان سب سے چھوٹا تھا، اس لیے میں خاموش رہا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ درخت کھجور کا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں جمار کے کھانے کا ذکر نہیں ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے ذریعے سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں کھانے کی صراحت ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا جبکہ آپ جمار کھا رہے تھے اور آپ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک درخت مومن آدمی کی طرح ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2209) (2) واقعی کھجور کے درخت کا ہر ہر جز اسی طرح نفع بخش ہے جس طرح مومن آدمی کی ذات، صفات، افعال اور اقوال سب نفع مند ہیں۔ یہ درخت ظاہری طور پر مسلمان سے مشابہت رکھتا ہے، چنانچہ کھجور کا سر کاٹ دیا جائے تو وہ آدمی کی طرح ختم ہو جاتی ہے جبکہ باقی درخت ختم نہیں ہوتے بلکہ ازسرنو ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمربن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے مجاہد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کھجور کے درخت کا گابھہ لایا گیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بعض درخت ایسے ہوتے ہیں جن کی برکت مسلمان کی برکت کی طرح ہوتی ہے۔ میں نے خیال کیا کہ آپ کا اشارہ کھجور کے درخت کی طرف ہے۔ میں نے سوچا کہ کہہ دوں کہ وہ درخت کھجور کا ہوتا ہے یا رسول اللہ! لیکن پھر جو میں نے مڑ کر دیکھا تو مجلس میں میرے علاوہ نو آدمی اور تھے اور میں ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس لیے میں خاموش رہا پھر آپ نے فرمایا کہ وہ درخت کھجور کا ہے۔
حدیث حاشیہ:
کھجور کا درخت آدمی سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ اس کے گابھہ میں ایسی بو ہوتی ہے جیسی آدمی کے نطفہ میں اور اس کا سر کاٹ ڈالو تو وہ آدمی کی طرح مر جاتا ہے۔ اور درخت نہیں مرتے بلکہ پھر ہرے بھرے ہو جاتے ہیں مگر کھجور کا سر آدمی کے سر کی مثال ہے۔ اسی لیے حکماء نے کھجور کو ایسی آخری نباتات سے قرار دیا ہے کہ وہاں سے حیوانات اور نباتات میں اتصال بہت قریب ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Umar (RA) : While we were sitting with the Prophet (ﷺ) a spadix of palm tree was brought to him. The Prophet (ﷺ) said, "There is a tree among the trees which is as blessed as a Muslim" I thought that it was the date palm tree and intended to say, "It is the date-palm tree, O Allah's Apostle! (ﷺ) " but I looked behind to see that I was the tenth and youngest of ten men present there, so I kept quiet' Then the Prophet (ﷺ) said, "It is the datepalm tree."