Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: The handkerchief)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5457.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان سے سعید بن حارث نے ایسی چیز کے کھانے سے وضو کرنے کے متعلق پوچھا جسے آگ نے چھوا ہو تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وضو نہیں کرنا چاہیے، ہمیں نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ایسا کھانا بہت کم میسر آتا تھا ہم جب کبھی ایسا کھانا پاتے ہماری ہتھلیوں کلائیوں اور قدموں کے علاوہ اور کوئی رو نہیں ہوتا تھا ہم ان سے ہاتھ صاف کر کے نماز پڑھ لیتے اور وضو نہ کرتے تھے۔
تشریح:
(1) رومال سے مراد وہ کپڑا ہے جو کھانے کے بعد ہاتھ کی چکنائی دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دور حاضر میں یہ کام ٹشو پیپر سے لیا جاتا ہے۔ (2) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد ہم رومال استعمال نہ کرتے تھے بلکہ کھانے کی تری وغیرہ کو ہاتھوں اور کلائیوں سے صاف کر لیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے پاؤں سے کھانے کی چکناہٹ کو صاف کر لیتے تھے۔ (عمدة القاري: 455/14) بہرحال پہلے انگلیوں کو چاٹنا چاہیے، پھر رومال استعمال کر لیا جائے یا ہاتھوں کو دھو لیا جائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5247
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5457
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5457
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5457
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان سے سعید بن حارث نے ایسی چیز کے کھانے سے وضو کرنے کے متعلق پوچھا جسے آگ نے چھوا ہو تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وضو نہیں کرنا چاہیے، ہمیں نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ایسا کھانا بہت کم میسر آتا تھا ہم جب کبھی ایسا کھانا پاتے ہماری ہتھلیوں کلائیوں اور قدموں کے علاوہ اور کوئی رو نہیں ہوتا تھا ہم ان سے ہاتھ صاف کر کے نماز پڑھ لیتے اور وضو نہ کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رومال سے مراد وہ کپڑا ہے جو کھانے کے بعد ہاتھ کی چکنائی دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دور حاضر میں یہ کام ٹشو پیپر سے لیا جاتا ہے۔ (2) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد ہم رومال استعمال نہ کرتے تھے بلکہ کھانے کی تری وغیرہ کو ہاتھوں اور کلائیوں سے صاف کر لیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے پاؤں سے کھانے کی چکناہٹ کو صاف کر لیتے تھے۔ (عمدة القاري: 455/14) بہرحال پہلے انگلیوں کو چاٹنا چاہیے، پھر رومال استعمال کر لیا جائے یا ہاتھوں کو دھو لیا جائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے، ان سے سعید بن الحارث نے اوران سے جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ سعید بن الحارث نے جابر ؓ سے ایسی چیز کے (کھانے کے بعد) جو آگ پر رکھی ہو وضو کے متعلق پوچھا (کہ کیا ایسی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟) تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہمیں اس طرح کا کھانا (جو پکا ہوا ہوتا) بہت کم میسر آتا تھا اور اگر میسر آ بھی جاتا تھا تو سوا ہماری ہتھیلیوں بازوؤں اور پاؤں کے کوئی رومال نہیں ہوتا تھا (اور ہم انہیں سے اپنے ہاتھ صاف کر کے) نماز پڑھ لیتے تھے اور وضو اگر پہلے ہوتا تو نیا وضو نہیں کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Al-Harith (RA) : that he asked Jabir bin 'Abdullah about performing ablution after taking a cooked meal. He replied, "It is not essential," and added, "We never used to get such kind of food during the lifetime of the Prophet (ﷺ) except rarely; and if at all we got such a dish, we did not have any handkerchiefs to wipe our hands with except the palms of our hands, our forearms and our feet. We would perform the prayer thereafter with-out performing new ablution."