باب: کسی شخص کی کھانے کی دعوت ہو اور دوسرا شخص بھی اس کے ساتھ طفیلی ہو جائے تو اجازت لینے کے لیے وہ کہے کہ یہ بھی میرے ساتھ آگیا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: "May this (person) come with me too?")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت انس ؓ نے کہا کہ جب تم کسی ایسے مسلمان کے گھر جاؤ ( جو اپنے دین ومال میں ) غلط کاموں سے بد نام نہ ہو تو اس کا کھانا کھاؤ اور اس کا پانی پیو ۔
5461.
سیدنا ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ انصار میں ایک ابو شعیب نامی آدمی تھے اور انکا غلام گوشت فروش تھا۔ (ابو شعیب ؓ ) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صحابہ کرام ؓ میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے آپ کے چہرہ مبارک سے فاقہ کشی کا اندازہ لگایا، چنانچہ وہ اپنے گوشت فروش غلام کے پاس آئے اور کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا كهنانا تيار كر دو،ميں نبی ﷺ چار دوسرے ٓدميوں كے ہمراہ دعوت دینے والا ہوں۔ اس (غلام) نے کھانا تیار کر دیا۔ اس کے بعد ابو شعیب ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ ان کے ہمراہ ایک اور آدمی بھی چلنے لگا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے شعیب !یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں۔ اگر تم چاہو تو اسے اجازت دے دو اور اگر چاہو تو اسے چھوڑو۔“ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ میں اسے بھی اجازت دیتا ہوں۔
تشریح:
کسی کے دعوت کرنے پر دوسرے کو ساتھ لے جانے کا اصرار کرنا حالات و ظروف پر منحصر ہے۔ ہر کسی کے گھر میں دوسرے کو ساتھ لے جانا جائز نہیں۔ کوئی مخلص دوست ہو تو الگ بات ہے، البتہ اس کے متعلق دعوت ملتے ہی کہہ دینا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا: ’’یہ بھی میرے ہمراہ ہو گی۔‘‘ اگر پہلے سے معاملہ نہیں ہوا تو اہل خانہ کی صوابدید پر موقوف ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اسے اجازت دے دیں اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو اسے واپس بھیج دیا جائے۔ بہرحال موقع محل کو ضرور دیکھنا ہو گا۔ علی الاطلاق ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5251
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5461
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5461
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5461
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس سلسلے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی بہت عمدہ شوربا بناتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شوربا تیار کیا اور آپ کو دعوت دینے کے لیے حاضر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: "یہ بھی میرے ہمراہ ہو گی۔" اس نے کہا کہ نہیں، صرف آپ تشریف لائیں۔ آپ نے فرمایا: "ایسا نہیں ہو سکتا۔" وہ بار بار آپ سے فرمائش کرتا اور آپ اسے یہی جواب دیتے رہے۔ تیسری مرتبہ اس نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی اعتراض نہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں اس کے گھر تشریف لے گئے۔ (صحیح مسلم، الاشربۃ، حدیث: 5312 (2037) لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرا واقعہ ذکر کیا ہے جو درج ذیل ہے۔
اور حضرت انس ؓ نے کہا کہ جب تم کسی ایسے مسلمان کے گھر جاؤ ( جو اپنے دین ومال میں ) غلط کاموں سے بد نام نہ ہو تو اس کا کھانا کھاؤ اور اس کا پانی پیو ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ انصار میں ایک ابو شعیب نامی آدمی تھے اور انکا غلام گوشت فروش تھا۔ (ابو شعیب ؓ ) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صحابہ کرام ؓ میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے آپ کے چہرہ مبارک سے فاقہ کشی کا اندازہ لگایا، چنانچہ وہ اپنے گوشت فروش غلام کے پاس آئے اور کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا كهنانا تيار كر دو،ميں نبی ﷺ چار دوسرے ٓدميوں كے ہمراہ دعوت دینے والا ہوں۔ اس (غلام) نے کھانا تیار کر دیا۔ اس کے بعد ابو شعیب ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ ان کے ہمراہ ایک اور آدمی بھی چلنے لگا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے شعیب !یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں۔ اگر تم چاہو تو اسے اجازت دے دو اور اگر چاہو تو اسے چھوڑو۔“ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ میں اسے بھی اجازت دیتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
کسی کے دعوت کرنے پر دوسرے کو ساتھ لے جانے کا اصرار کرنا حالات و ظروف پر منحصر ہے۔ ہر کسی کے گھر میں دوسرے کو ساتھ لے جانا جائز نہیں۔ کوئی مخلص دوست ہو تو الگ بات ہے، البتہ اس کے متعلق دعوت ملتے ہی کہہ دینا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا: ’’یہ بھی میرے ہمراہ ہو گی۔‘‘ اگر پہلے سے معاملہ نہیں ہوا تو اہل خانہ کی صوابدید پر موقوف ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اسے اجازت دے دیں اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو اسے واپس بھیج دیا جائے۔ بہرحال موقع محل کو ضرور دیکھنا ہو گا۔ علی الاطلاق ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ نے فرمایا: جب تم کسی ایسے مسلمان کے گھر جاؤ کو غلط کاموں یا فضول باتوں کی وجہ سے بدنام نہیں تو اس کا کھانا کھاؤ اور اس کا مشروب پیو
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن ابی اسود نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے، اوران سے ابو مسعود انصاری ؓ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ جماعت انصار کے ایک صحابی ابو شعیب ؓ کے نام سے مشہور تھے۔ ان کے پاس ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا۔ وہ صحابی نبی کریم ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئے تو آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے چہرئہ مبارک سے فاقہ کا اندازہ لگا لیا۔ چنانچہ وہ اپنے گوشت فروش غلام کے پاس گئے اور کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کر دو۔ میں حضور اکرم ﷺ کو چار دوسرے آدمیوں کے ساتھ دعوت دوں گا۔ غلام نے کھانا تیار کر دیا۔ اس کے بعد ابو شعیب ؓ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گئے اورآپ کو کھانے کی دعوت دی۔ ان کے ساتھ ایک اور صاحب بھی چلنے لگے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے ابو شعیب! یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں، اگر تم چاہو تو انہیں بھی اجازت دے دو اوراگر چاہو تو چھوڑ دو۔ انہوں نے عرض کیا نہیں بلکہ میں انہیں بھی اجازت دیتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
مگر اس طرح ہر کسی کے گھر چلے جانا یا کسی کو اپنے ساتھ میں لے جانا جائز نہیں ہے، کوئی مخلص دوست ہو تو بات الگ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Mas'ud Al-Ansari (RA) : There was an Ansari man nicknamed, Abu Shu'aib, who had a slave who was a butcher. He came to the Prophet (ﷺ) while he was sitting with his companions and noticed the signs of hunger on the face of the Prophet (ﷺ) . So he went to his butcher slave and said, "Prepare for me a meal sufficient for five persons so that I may invite the Prophet (ﷺ) along with four other men." He had the meal prepared for him and invited him. A (sixth) man followed them. The Prophet (ﷺ) said, "O Abu Shu'aib! Another man has followed us. If you wish, you may invite him; and if you wish, you may refuse him." Abu Shu'aib said, "No, I will admit him."