Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The time of the Asr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابو اسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
547.
حضرت سیار بن سلامہ روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں اور میرے والد، حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کے پاس گئے۔ میرے والد نے ان سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرض نمازیں کن اوقات میں ادا کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز جسے تم لوگ ’’پہلی نماز‘‘ کہتے ہو زوال آفتاب پر پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور نماز عصر ایسے وقت میں ادا کرتے کہ فراغت کے بعد ہم میں سے کوئی شخص مدینے کے انتہائی کنارے پر واقع اپنے گھر واپس جاتا تو سورج کی آب و تاب ابھی باقی ہوتی۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابوبرزہ ؓ نے مغرب کے متعلق جو فرمایا، وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ (حضرت ابوبرزہ ؓ فرماتے ہیں: ) رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز جسے تم "عتمة" کہتے ہو، دیر سے پڑھنے کو پسند فرماتے تھے اور قبل ازیں سونے کو اور بعد ازیں باتیں کرنے کو ناپسند خیال کرتے تھے۔ اور جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو آدمی اپنے ساتھ والے کو پہچان لیتا تھا اور صبح کی نماز میں ساٹھ سے سو آیات تک کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
تشریح:
مذکورہ حدیث میں نماز عصر کے بارے جو کچھ بیان ہوا، یہ اس صورت میں ممکن ہے جب نماز عصر کو ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کرلیا جائے، چنانچہ امام نوی ؒ لکھتے ہیں: اس حدیث سے مقصود نماز عصر کو اول وقت میں جلد ادا کرنا ہے، کیونکہ دیر سے نماز پڑھنے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ دوتین میل سفر کیا جائے اور دھوپ کی تپش ابھی جوں کی توں باقی ہو۔ اس حدیث سے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ؒ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے توعصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک جب تک کسی چیز کا سایہ دو مثل نہ ہوجائے نماز عصر کا وقت شروع نہیں ہوتا۔ یہ حدیث ان کے خلاف ہے۔ (شرح النووي:5/171 ،172) (2) نماز ظہر کو''أولی'' پہلی نماز اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دن کی پہلی نماز ہے، نیز جب حضرت جبرائیل ؑ نے نمازوں کے اوقات کے تعین کے لیے امامت کے فرائض سرانجام دیے تھے تو سب سے پہلے ظہر کی نماز ادا کی تھی۔ (فتح الباري:37/2) نماز عشاء کو"عتمة" اس لیے کہا جاتا تھا کہ اسے تاخیر سے پڑھا جاتا تھا، کیونکہ عتمة رات کے اس حصے کوکہتے ہیں جو شفق وغیرہ کے غائب ہونے کے بعد شروع ہو، یعنی اندھیرا اچھی طرح چھا جاتا تو اسے ادا کیا جاتا۔ علامہ طیبی ؒ فرماتے ہیں:نماز ظہر کےلیے"أولی" کے الفاظ اس بات کی نشاندہی کے لیے ہیں کہ اسے اول وقت ہی ادا کرنا چاہیے تاکہ ان معانی سے موافقت ہوجائے۔ (شرح الکرماني:194/4) (3)حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ نماز فجر سے فراغت کے بعد اندھیرے کی وجہ سے عورتوں کو شناخت کرنا ناممکن ہوتا تھا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 578) یہ حدیث مذکورہ حدیث سے متعارض نہیں ہے، کیونکہ جب پاس بیٹھے ہوئے آدمی کو بمشکل پہچانا جاتا تھا تو عورتوں کو جو دور اور چادروں میں لپٹی ہوتیں، پہچاننا واقعی ناممکن تھا۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
541
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
547
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
547
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
547
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس تعلیق کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان الفاظ کا اصل مقام متصل السند حدیث کے بعد ہے جسے امام بخاری آگے بیان کریں گے۔آپ کا اسلوب بیان بھی اسی طرح ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہشام سے بیان کرنے والے ان کے دوتلامذہ ہیں:انس بن عیاض اور ابو اسامہ۔انس بن عیاض نے جب اس روایت کو نقل کیا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہیں کہ دھوپ ابھی میرے حجرے سے نہ نکلی ہوتی تھی،جبکہ ابو اسامہ اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ دھوپ ابھی ان کے حجرے کے صحن سے نہ نکلی ہوتی تھی۔تعجیل عصر کے ثبوت کے لیے متصل السند روایت کے مقابلے میں یہ معلق روایت زیادہ واضح ہے۔(فتح الباری:2/35)
ابو اسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سیار بن سلامہ روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں اور میرے والد، حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کے پاس گئے۔ میرے والد نے ان سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرض نمازیں کن اوقات میں ادا کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز جسے تم لوگ ’’پہلی نماز‘‘ کہتے ہو زوال آفتاب پر پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور نماز عصر ایسے وقت میں ادا کرتے کہ فراغت کے بعد ہم میں سے کوئی شخص مدینے کے انتہائی کنارے پر واقع اپنے گھر واپس جاتا تو سورج کی آب و تاب ابھی باقی ہوتی۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابوبرزہ ؓ نے مغرب کے متعلق جو فرمایا، وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ (حضرت ابوبرزہ ؓ فرماتے ہیں: ) رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز جسے تم "عتمة" کہتے ہو، دیر سے پڑھنے کو پسند فرماتے تھے اور قبل ازیں سونے کو اور بعد ازیں باتیں کرنے کو ناپسند خیال کرتے تھے۔ اور جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو آدمی اپنے ساتھ والے کو پہچان لیتا تھا اور صبح کی نماز میں ساٹھ سے سو آیات تک کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ حدیث میں نماز عصر کے بارے جو کچھ بیان ہوا، یہ اس صورت میں ممکن ہے جب نماز عصر کو ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کرلیا جائے، چنانچہ امام نوی ؒ لکھتے ہیں: اس حدیث سے مقصود نماز عصر کو اول وقت میں جلد ادا کرنا ہے، کیونکہ دیر سے نماز پڑھنے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ دوتین میل سفر کیا جائے اور دھوپ کی تپش ابھی جوں کی توں باقی ہو۔ اس حدیث سے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ؒ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے توعصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک جب تک کسی چیز کا سایہ دو مثل نہ ہوجائے نماز عصر کا وقت شروع نہیں ہوتا۔ یہ حدیث ان کے خلاف ہے۔ (شرح النووي:5/171 ،172) (2) نماز ظہر کو''أولی'' پہلی نماز اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دن کی پہلی نماز ہے، نیز جب حضرت جبرائیل ؑ نے نمازوں کے اوقات کے تعین کے لیے امامت کے فرائض سرانجام دیے تھے تو سب سے پہلے ظہر کی نماز ادا کی تھی۔ (فتح الباري:37/2) نماز عشاء کو"عتمة" اس لیے کہا جاتا تھا کہ اسے تاخیر سے پڑھا جاتا تھا، کیونکہ عتمة رات کے اس حصے کوکہتے ہیں جو شفق وغیرہ کے غائب ہونے کے بعد شروع ہو، یعنی اندھیرا اچھی طرح چھا جاتا تو اسے ادا کیا جاتا۔ علامہ طیبی ؒ فرماتے ہیں:نماز ظہر کےلیے"أولی" کے الفاظ اس بات کی نشاندہی کے لیے ہیں کہ اسے اول وقت ہی ادا کرنا چاہیے تاکہ ان معانی سے موافقت ہوجائے۔ (شرح الکرماني:194/4) (3)حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ نماز فجر سے فراغت کے بعد اندھیرے کی وجہ سے عورتوں کو شناخت کرنا ناممکن ہوتا تھا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 578) یہ حدیث مذکورہ حدیث سے متعارض نہیں ہے، کیونکہ جب پاس بیٹھے ہوئے آدمی کو بمشکل پہچانا جاتا تھا تو عورتوں کو جو دور اور چادروں میں لپٹی ہوتیں، پہچاننا واقعی ناممکن تھا۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
ابواسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں عوف نے خبر دی سیار بن سلامہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں اور میرے باپ ابوبرزہ اسلمی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے میرے والد نے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ فرض نمازیں کن وقتوں میں پڑھتے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ دوپہر کی نماز جسے تم “پہلی نماز ” کہتے ہو سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے۔ اور جب عصر پڑھتے اس کے بعد کوئی شخص مدینہ کے انتہائی کنارہ پر اپنے گھر واپس جاتا تو سورج اب بھی تیز ہوتا تھا۔ سیار نے کہا کہ مغرب کے وقت کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا تھا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور عشاء کی نماز جسے تم ''عتمة '' کہتے ہو اس میں دیر کو پسند فرماتے تھے اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے اور صبح کی نماز سے اس وقت فارغ ہو جاتے جب آدمی اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان سکتا اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
روایت مذکورمیں ظہر کی نماز کونماز اولیٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ جس وقت آنحضرت ﷺ کو اوقات نماز کی تعلیم دینے کے لیے حضرت جبریل ؑ تشریف لائے تھے توانھوں نے پہلے آنحضرت ﷺ کو ظہر کی نماز ہی پڑھائی تھی۔ اس لیے راویان احادیث اوقات نماز کے بیان میں ظہر کی نماز ہی سے شروع کرتے ہیں۔ اس روایت اوردوسری روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز آنحضرت ﷺ اوّل وقت ایک مثل سایہ ہو جانے پر ہی ادا فرمایا کرتے تھے۔ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ان روایات میں مختلف الفاظ استعمال کيے گئے ہیں۔ بعض روایتوں میں اسے: ''والشمس مرتفعة حیة'' سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابھی سورج کافی بلند اورخوب تیز ہوا کرتا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایاکہ ’’عصر کے وقت دھوپ میرے حجرہ ہی میں رہتی تھی۔‘‘ کسی روایت میں یوں مذکور ہوا ہے کہ ’’نماز عصر کے بعد لوگ اطراف مدینہ میں چار چار میل تک کا سفر کر جاتے اور پھر بھی سورج رہتا تھا۔‘‘ ان جملہ روایات کا واضح مطلب یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں عصر کی نماز اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کرلی جاتی تھی۔ اس لیے بھی کہ عصر ہی کی نماز صلوٰۃ الوسطیٰ ہے جس کی حفاظت کرنے کا اللہ نے خاص حکم صادر فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے کہ ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾(البقرة:238) یعنی نمازوں کی حفاظت کرو اوردرمیانی نماز کی خاص حفاظت کرو (جوعصر کی نماز ہے ) اوراللہ کے لیے فرمانبردار بندے بن کر (باوفا غلاموں کی طرح مؤدب) کھڑے ہو جایا کرو۔ ان ہی احادیث وآیات کی بنا پر عصر کا اول وقت ایک مثل سایہ ہونے پر مقرر ہوا ہے۔ حضرت امام شافعی ؒ امام احمد بن حنبل ؒ ودیگر اکابر علمائے اسلام اور ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ مگر محترم علمائے احناف عصر کی نماز کے لیے اول وقت کے قائل نہیں ہیں۔ اورمذکورہ احادیث کی تاویلات کرنے میں ان کو بڑی کاوش کرنی پڑی ہے۔
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت خدا و جبرئیل و مصطفی را
عجیب کاوش: یہ عجیب کاوش ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے بیان پر جس میں ذکر ہے کہ حضور ﷺ عصر کی نماز ایسے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے کہ دھوپ میرے حجرہ سے باہر نہیں نکلتی تھی جس کا مطلب واضح ہے کہ سورج بہت کافی بلند ہوتا تھا۔ مگر بعض علمائے احناف نے عجیب بیان دیا ہے جو یہ ہے کہ: ’’ازواجِ مطہرات کے حجروں کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں۔ اس لیے غروب سے پہلے کچھ نہ کچھ دھوپ حجرہ میں باقی رہتی تھی۔ اس لیے اگر آنحضور ﷺ کی نماز عصر کے وقت حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں دھوپ رہتی تھی تو اس سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ آپ ﷺ نماز سویرے ہی پڑھ لیتے تھے۔‘‘ (تفهیم البخاري،پ 3،ص:18) حمایت مسلک کا خبط ایسا ہوتا ہے کہ انسان قائل کے قول کی ایسی توجیہ کرجاتا ہے، جو قائل کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی۔ سوچنا یہاں یہ تھا کہ بیان کرنے والی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہیں، جن کا ہر لحاظ سے امت میں ایک خصوصی مقام ہے۔ ان کا اس بیان سے اصل منشاء کیا ہے۔ وہ آنحضرت ﷺ کی نماز عصر کا اوّل وقت ان لفظوں میں بیان فرما رہی ہیں یا آخر وقت کے لیے یہ بیان دے رہی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بیان میں ادنیٰ غور وتامل سے ظاہر ہوجائے گا کہ ہمارے محترم صاحب تفہیم البخاری کی یہ کاوش بالکل غیرمفید ہے۔ اوراس بیان صدیقہ ؓ سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ بلاشک وشبہ عصر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حرمین شریفین کا معمول آج بھی دنیائے اسلام کے سامنے ہے۔ خودہمارے وطن کے ہزاروں حاجی حرمین شریفین ہرسال جاتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ وہاں عصرکی نماز کتنے اول وقت پر ادا کی جاتی ہے۔ صاحب تفہیم البخاری نے اس بیان سے ایک سطر قبل خود ہی اقرار فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں: ’’حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور ﷺ بھی اوّل وقت ہی میں پڑھتے تھے۔‘‘ حوالہ مذکور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ضرورت تھی کہ امام طحاوی ؒ کے بیان کا سہارا لے کر حضرت صدیقہ ؓ پر ایسی رکیک تاویل کی جائے کہ دیکھنے اورپڑھنے والوں کے لیے وجہ حیرت بن جائے۔ حجرات نبوی کی دیواریں چھوٹی ہوں یا بڑی اس سے بحث نہیں مگریہ تو ایک امر مسلمہ ہے کہ سورج جس قدر اونچا رہتا ہے حجرات نبوی میں دھوپ باقی رہتی اورجوں جوں سورج غروب ہونے کو جاتا وہ دھوپ بھی حجروں سے باہر نکل جاتی تھی۔ پھر دوسری روایات میں مزید وضاحت کے لیے یہ صریح الفاظ موجود ہیں کہ سورج بلند اورخوب روشن رہا کرتا تھا، ان الفاظ نے امام طحاوی ؒ کی پیش کردہ توجیہ کو ختم کرکے رکھ دیا۔ مگرواقعہ یہ ہے کہ تقلید شخصی کی بیماری سے سوچنے اور سمجھنے کی طاقت روبہ زوال ہوجاتی ہے اور یہاں بھی یہی ماجرا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Saiyar bin Salama (RA): I along with my father went to Abu- Barza Al-Aslarrni and my father asked him, "How Allah's Apostle (ﷺ) used to offer the five compulsory congregational prayers?" Abu- Barza said, "The Prophet (ﷺ) used to pray the Zuhr prayer which you (people) call the first one at mid-day when the sun had just declined The Asr prayer at a time when after the prayer, a man could go to the house at the farthest place in Madinah (and arrive) while the sun was still hot. (I forgot about the Maghrib prayer). The Prophet (ﷺ) Loved to delay the 'Isha which you call Al- Atama and he disliked sleeping before it and speaking after it. After the Fajr prayer he used to leave when a man could recognize the one sitting beside him and he used to recite between 6O to 10O Ayat (in the Fajr prayer).