باب: وہ جانور جن کو تھانوں اور بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہوان کا کھانا حرام ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: Animals sacrificed on An-Nusub and for the idols)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5499.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے زید بن عمرو نفیل سے مقام بلدح کے نشیبی علاقے میں ملاقات کی۔ یہ رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے آگے دسترخوان رکھا جس پر گوشت تھا۔ زید نے وہ گوشت کھانے سے انکار کر دیا، پھر کہا میں وہ گوشت نہیں کھاتا جسے تم اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو، میں تو وہی گوشت کھاتا ہوں جس پر (ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ وہ دسترخوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا گیا۔ ان روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں نے ضیافت اور مہمانی کے طور پر دسترخوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ زید بن عمرو کو پیش کر دیا، پھر انہوں نے قوم سے مخاطب ہو کر جو کہنا تھا کہا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو جانور بتوں کے نام پر ذبح کیا جائے وہ حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ چیز بھی حرام ہے جو غیراللہ کے نام سے مشہور کر دی جائے۔‘‘ (البقرة:173) اس آیت کی رو سے دو قسم کے جانور اس کی زد میں آتے ہیں: ٭ وہ جانور جو غیراللہ کے نام سے مشہور کر دیا جائے، خواہ اس پر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو غیراللہ کے نام ذبح کیا گیا ہو، خواہ وہ کسی پیر کے نام سے ہو یا ولی کے نام سے۔ بہرحال آستانوں پر جو جانور ذبح کیا جائے وہ حرام ہے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ کے نام ہی سے کیوں نہ ہو۔ (3) واضح رہے کہ حدیث میں زید بن عمرو، حضرت سعید بن زید کے والد ہیں۔ یہ بزرگ دور جاہلیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے مطابق زندگی گزارتے تھے اور ان کے بیٹے حضرت سعید رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5288
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5499
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5499
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5499
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے زید بن عمرو نفیل سے مقام بلدح کے نشیبی علاقے میں ملاقات کی۔ یہ رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے آگے دسترخوان رکھا جس پر گوشت تھا۔ زید نے وہ گوشت کھانے سے انکار کر دیا، پھر کہا میں وہ گوشت نہیں کھاتا جسے تم اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو، میں تو وہی گوشت کھاتا ہوں جس پر (ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ وہ دسترخوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا گیا۔ ان روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں نے ضیافت اور مہمانی کے طور پر دسترخوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ زید بن عمرو کو پیش کر دیا، پھر انہوں نے قوم سے مخاطب ہو کر جو کہنا تھا کہا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو جانور بتوں کے نام پر ذبح کیا جائے وہ حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ چیز بھی حرام ہے جو غیراللہ کے نام سے مشہور کر دی جائے۔‘‘ (البقرة:173) اس آیت کی رو سے دو قسم کے جانور اس کی زد میں آتے ہیں: ٭ وہ جانور جو غیراللہ کے نام سے مشہور کر دیا جائے، خواہ اس پر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو غیراللہ کے نام ذبح کیا گیا ہو، خواہ وہ کسی پیر کے نام سے ہو یا ولی کے نام سے۔ بہرحال آستانوں پر جو جانور ذبح کیا جائے وہ حرام ہے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ کے نام ہی سے کیوں نہ ہو۔ (3) واضح رہے کہ حدیث میں زید بن عمرو، حضرت سعید بن زید کے والد ہیں۔ یہ بزرگ دور جاہلیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے مطابق زندگی گزارتے تھے اور ان کے بیٹے حضرت سعید رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز یعنی ابن المختار نے بیان کیا، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا اور ان سے رسول اللہ ﷺ نے کہ آنحضور ﷺ کی زید بن عمرو بن نوفل سے مقام بلد کے نشیبی حصہ میں ملاقات ہوئی۔ یہ آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا زمانہ ہے۔ آپ نے وہ دستر خوان جس میں گوشت تھا جسے ان لوگوں نے آپ کی ضیافت کے لیے پیش کیا تھا مگر ان پر ذبح کے وقت بتوں کا نام لیا گیا تھا، آپ نے اسے زید بن عمرو کے سامنے واپس فرما دیا اور آپ نے فرمایا کہ تم جو جانور اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو میں انہیں نہیں کھاتا، میں صرف اسی جانور کا گوشت کھاتا ہوں جس پر (ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
حدیث حاشیہ:
نص قرآن ﴿وَ مَا أُھِل لِغیرِ اللہ﴾(المائدة:3) سے ان تمام جانوروں کا گوشت حرام ہو جاتا ہے جو جانور غیراللہ کے نام پر تقرب کے لیے نذر کر دیئے جاتے ہیں۔ اسی میں مدار کا بکرا اور سید سالار کے نام پر چھوڑا ہوا جانور بھی داخل ہے جیسا کہ اہل بدعت کا معمول ہے۔ بلدح حجاز میں مکہ کے قریب ایک مقام ہے۔ روایت میں مذکور ہ زید بن عمرو سعید بن زید کے والد ہیں اور سعید عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔ رضي اللہ عنهم و أرضاھم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said that he met Zaid bin 'Amr Nufail at a place near Baldah and this had happened before Allah's Apostle (ﷺ) received the Divine Inspiration. Allah's Apostle (ﷺ) presented a dish of meat (that had been offered to him by the pagans) to Zaid bin 'Amr, but Zaid refused to eat of it and then said (to the pagans), "I do not eat of what you slaughter on your stonealtars (Ansabs) nor do I eat except that on which Allah's Name has been mentioned on slaughtering."