باب: جب جمے ہوئے یا پگھلے ہوئے گھی میں چوہا پڑ جائے تو کیا حکم ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: If a mouse falls into solid or liquid butter-fat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5538.
سیدنا میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر کر مر گئی تو اس کے متعلق نبی ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے (چوہیا کو) اور اس کے ارد گرد والا گھی پھینک دو اور باقی گھی کھالو۔“ سفیان سے کہا گیا کہ معمر اس حدیث کو امام زہری سے بیان کرتے ہیں انہیں سعید بن مسیب نے ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے یہ حدیث امام زہری سے صرف عبید اللہ کے واسطے سے سنی ہے ان سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا اور وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں میں نے یہ حدیث ان سے بارہا سنی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5326
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5538
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5538
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5538
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
صرف گھی کی خصوصیت نہیں بلکہ اگر تیل یا شہد وغیرہ میں چوہا گر جائے تو ان کا بھی یہی حکم ہے جو گھی کا ہے۔
سیدنا میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر کر مر گئی تو اس کے متعلق نبی ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے (چوہیا کو) اور اس کے ارد گرد والا گھی پھینک دو اور باقی گھی کھالو۔“ سفیان سے کہا گیا کہ معمر اس حدیث کو امام زہری سے بیان کرتے ہیں انہیں سعید بن مسیب نے ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے یہ حدیث امام زہری سے صرف عبید اللہ کے واسطے سے سنی ہے ان سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا اور وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں میں نے یہ حدیث ان سے بارہا سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبیدا للہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ اسے سنا، ان سے حضرت میمونہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک چوہا گھی میں پڑ کرمر گیا تو نبی کریم ﷺ سے اس کا حکم پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ چوہے کو اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو اور باقی گھی کو کھاؤ۔ سفیان سے کہا گیا کہ معمر اس حدیث کو زہری سے بیان کرتے ہیں کہ ان سے سعید بن مسیب اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے یہ حدیث زہری سے صرف عبیداللہ سے بیان کرتے سنی ہے کہ ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے، ان سے حضرت میمونہ ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور میں نے یہ حدیث ان سے بارہا سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
معمر کی روایت کو ابوداؤد نے نکالا۔ اسماعیلی نے سفیان سے نقل کیا، انہوں نے کہا میں نے زہری سے یہ حدیث کئی بار یوں ہی سنی ہے ''عن عبداللہ عن ابن عباس عن میمونة'' کسی حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آس پاس کا گھی کتنی دور تک نکالیں۔ یہ ہر آدمی کی رائے پر منحصر ہے اگر پتلا گھی یا تیل ہو تو ایک روایت میں یوں ہے کہ اسے تین چلو نکال دیں مگر یہ روایت ضعیف ہے۔ اب جو تیل یا گھی کھانے کے کام کا نہ رہا اس کا جلانا درست ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اگر گھی پتلا ہو تو اسے اور کام میں لائے مگر کھانے میں اسے استعمال نہ کرو۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا ام المؤمنین میں سے ہیں جو سنہ7ھ عمرۃ القضاء کے موقع پر نکاح نبوی میں آئیں اور اتفاق دیکھیئے کہ اسی جگہ بعد میں ان کا انتقال ہوا۔ یہ آپ کی آخری بیوی ہیں جن سے یہ منقول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA) : A mouse fell into the butter-fat and died. The Prophet (ﷺ) was asked about that. He said, "Throw away the mouse and the butter-fat that surrounded it, and eat the rest of the butter-fat (As-Samn).