باب: جب جمے ہوئے یا پگھلے ہوئے گھی میں چوہا پڑ جائے تو کیا حکم ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: If a mouse falls into solid or liquid butter-fat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5540.
سیدہ میمونہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا : نبی ﷺ سے اس چوہیا کے متعلق پوچھا گیا: جو گھی میں گر گئی تھی تو آپ نے فرمایا: ’’اسے (چوہیا کو) اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو اور باقی گھی کھالو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کا حکم ایک ہے کہ متاثرہ گھی پھینک دیا جائے اور باقی کھا لیا جائے۔ اسی طرح امام زہری رحمہ اللہ بھی جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں فرق نہیں کرتے، نیز ان کے نزدیک گھی اور غیر گھی میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ (2) حدیث میں اگرچہ گھی کا ذکر ہے لیکن تیل وغیرہ کو اس پر قیاس کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں فرق کیا گیا ہے، الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب گھی میں چوہیا گر جائے تو اگر وہ جما ہوا ہو تو چوہیا اور اس کے ارد گرد کے گھی کو پھینک دو اور اگر پگھلا ہوا ہو تو اس کے قریب نہ جاؤ۔‘‘(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3842) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے جیسا کہ ان کی بیان کردہ احادیث کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے۔ اکثر محدثین نے گھی یا تیل، چاہے پگھلا ہوا ہو، اس میں ارد گرد سے سارا متاثرہ تیل نکال کر باقی استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ آج کل باہر سے کھانے والے تیل برآمد کیے جاتے ہیں۔ ان جہازوں میں چوہے وغیرہ مستقل طور پر رہائش پذیر رہتے ہیں۔ اگر بھرے ہوئے جہاز میں ایک چوہا گرنے سے سارا تیل ضائع کرنا پڑے تو یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف وزنی معلوم ہوتا ہے کہ جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی کا فرق نہ کیا جائے۔ کسی حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آس پاس کا گھی کتنی دور تک نکالا جائے، یہ ہر آدمی کی صوابدید پر موقوف ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اگر گھر جما ہوا نہ ہو تو تین چلو نکالے جائیں (مجمع الزوائد: 287/1، رقم: 1591) لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 828/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5328
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5540
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5540
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5540
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
صرف گھی کی خصوصیت نہیں بلکہ اگر تیل یا شہد وغیرہ میں چوہا گر جائے تو ان کا بھی یہی حکم ہے جو گھی کا ہے۔
سیدہ میمونہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا : نبی ﷺ سے اس چوہیا کے متعلق پوچھا گیا: جو گھی میں گر گئی تھی تو آپ نے فرمایا: ’’اسے (چوہیا کو) اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو اور باقی گھی کھالو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کا حکم ایک ہے کہ متاثرہ گھی پھینک دیا جائے اور باقی کھا لیا جائے۔ اسی طرح امام زہری رحمہ اللہ بھی جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں فرق نہیں کرتے، نیز ان کے نزدیک گھی اور غیر گھی میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ (2) حدیث میں اگرچہ گھی کا ذکر ہے لیکن تیل وغیرہ کو اس پر قیاس کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں فرق کیا گیا ہے، الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب گھی میں چوہیا گر جائے تو اگر وہ جما ہوا ہو تو چوہیا اور اس کے ارد گرد کے گھی کو پھینک دو اور اگر پگھلا ہوا ہو تو اس کے قریب نہ جاؤ۔‘‘(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3842) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے جیسا کہ ان کی بیان کردہ احادیث کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے۔ اکثر محدثین نے گھی یا تیل، چاہے پگھلا ہوا ہو، اس میں ارد گرد سے سارا متاثرہ تیل نکال کر باقی استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ آج کل باہر سے کھانے والے تیل برآمد کیے جاتے ہیں۔ ان جہازوں میں چوہے وغیرہ مستقل طور پر رہائش پذیر رہتے ہیں۔ اگر بھرے ہوئے جہاز میں ایک چوہا گرنے سے سارا تیل ضائع کرنا پڑے تو یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف وزنی معلوم ہوتا ہے کہ جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی کا فرق نہ کیا جائے۔ کسی حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آس پاس کا گھی کتنی دور تک نکالا جائے، یہ ہر آدمی کی صوابدید پر موقوف ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اگر گھر جما ہوا نہ ہو تو تین چلو نکالے جائیں (مجمع الزوائد: 287/1، رقم: 1591) لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 828/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبداللہ ابن عبداللہ نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اوران سے حضرت میمونہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے اس چوہے کا حکم پوچھا گیا جو گھی میں گر گیا ہو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ چوہے کو اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو پھر باقی گھی کھا لو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA) : The Prophet (ﷺ) was asked about a mouse that had fallen into butter-fat (and died). He said, "Throw away the mouse and the portion of butter-fat around it, and eat the rest."