باب: جانوروں کے چہروں پر داغ دینا یا نشان کرنا کیسا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: Branding the faces)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5541.
سیدنا ابن عمر ؓ سےروایت ہے وہ چہرے پر نشان لگانے کو مکروہ خیال کرتے تھے سیدنا ابن عمر ؓ ہی نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے (چہرےپر) مارنے سے منع فرمایا ہے ایک روایت میں ہے کہ چہرے کو مارنے سے منع کیا ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے موقوف روایت بیان کی ہے اس کے بعد مرفوع روایت کو ذکر کیا ہے۔ یہ مرفوع روایت، موقوف کے لیے بطور دلیل ہے کہ جب چہرے پر مارنا منع ہے تو اس پر نشان لگانا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے عنوان میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہو جو اس کے متعلق صریح ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور چہرے پر نشان لگانے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم، اللباس و الزینة، حدیث: 5550 (2116)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایسا گدھا گزرا جس کے چہرے پر نشان لگایا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے یہ داغ لگایا ہے۔‘‘(صحیح مسلم، اللباس و الزینة، حدیث: 5552 (2117)) (2) چہرے کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے پر بطور علامت داغ لگانا جائز ہے۔ اس کی وضاحت آئندہ ہو گی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5329
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5541
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5541
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5541
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
سیدنا ابن عمر ؓ سےروایت ہے وہ چہرے پر نشان لگانے کو مکروہ خیال کرتے تھے سیدنا ابن عمر ؓ ہی نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے (چہرےپر) مارنے سے منع فرمایا ہے ایک روایت میں ہے کہ چہرے کو مارنے سے منع کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے موقوف روایت بیان کی ہے اس کے بعد مرفوع روایت کو ذکر کیا ہے۔ یہ مرفوع روایت، موقوف کے لیے بطور دلیل ہے کہ جب چہرے پر مارنا منع ہے تو اس پر نشان لگانا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے عنوان میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہو جو اس کے متعلق صریح ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور چہرے پر نشان لگانے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم، اللباس و الزینة، حدیث: 5550 (2116)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایسا گدھا گزرا جس کے چہرے پر نشان لگایا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے یہ داغ لگایا ہے۔‘‘(صحیح مسلم، اللباس و الزینة، حدیث: 5552 (2117)) (2) چہرے کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے پر بطور علامت داغ لگانا جائز ہے۔ اس کی وضاحت آئندہ ہو گی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے حنظلہ نے، ان سے سالم نے، ان سے حضرت ابن عمر ؓ نے کہ و ہ چہرے پر نشان لگانے کو نا پسند کرتے تھے اور حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چہرے پر مارنے سے منع کیا ہے۔ عبیداللہ بن موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو قتیبہ بن سعید نے بھی روایت کیا، کہا ہم کو عمرو بن محمد عنقزی نے خبر دی، انہوں نے حنظلہ سے۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں صراحت ہے کہ منہ پر مارنے سے منع فرمایا، بعض جاہل معلموں کی عادت ہے کہ بچوں کے منہ پر مارا کرتے ہیں۔ ان کو اس حدیث سے نصیحت لینی چاہیئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim (RA) : that Ibn 'Umar (RA) disliked the branding of animals on the face. Ibn 'Umar (RA) said, "The Prophet (ﷺ) forbade beating (animals) on the face."