باب: نبی کریم ﷺ نے سینگ والے دو مینڈھوں کی قربانی کی
)
Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: The Prophet (saws) slaughtered two horned rams)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ مینڈھے خوب موٹے تازہ تھے اور یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہ میں نے ابو امامہ بن سہل ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ہم مدینہ منورہ میں قربانی کے جانور کو کھلا پلاکر فربہ کیا کرتے تھے اور عام مسلمان بھی قربانی کے جانور کو اسی طرح فربہ کیا کرتے تھے ۔
5554.
سیدنا انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا وہیب نے ایوب سے روایت کرنے میں عبدالوہاب کی متابعت کی ہے, اسماعیل اور حاتم نے ایوب سے انہوں نے ابن سیرین سے انہوں نے سیدنا انس سے اس روایت کو بیان کیا ہے.
تشریح:
(1) حضرت رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو موٹے تازے صحت مند مینڈھے خرید کر لاتے۔ (مجمع الزوائد: 21/4) واضح رہے کہ ان روایات میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ موٹے جانور دوسرے جانوروں سے افضل ہیں، تاہم اگر اس وجہ سے کہ موٹے تازے جانور میں گوشت زیادہ ہو گا اور اس سے غرباء کا زیادہ فائدہ ہو سکے گا یہ کہہ دیا جائے کہ موٹا جانور افضل ہے تو یقیناً قرین قیاس ہے۔ (2) امام ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے جانور کا موٹا اور عمدہ ہونا مسنون ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے۔‘‘(الحج: 32) اس کی تعظیم سے مراد اس کا موٹا ہونا اور اس کا احترام کرنا ہے کیونکہ یہ بڑے اجر اور زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ (المغني: 367/13)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5342
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5554
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5554
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5554
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
کچھ مالکی حضرات قربانی کے موٹا تازہ ہونے کو مکروہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے یہودیوں کی مشابہت لازم آتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کے لیے یہ عنوان پیش کیا ہے کہ قربانی کا جانور دیکھنے کے اعتبار سے خوبصورت اور گوشت کے لحاظ سے موٹا تازہ ہونا چاہیے۔ عنوان میں موٹا تازہ ہونے کی روایت ذکر کی گئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کرنا چاہتے تو بڑے بڑے موٹے تازے، سینگوں والے، چتکبرے اور خصی مینڈھے خریدتے۔ (سنن ابن ماجہ، الاضاحی، حدیث: 3122) مسلمانوں کا اجتماعی عمل بھی یہی رہا ہے جیسا کہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ مینڈھے خوب موٹے تازہ تھے اور یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہ میں نے ابو امامہ بن سہل ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ہم مدینہ منورہ میں قربانی کے جانور کو کھلا پلاکر فربہ کیا کرتے تھے اور عام مسلمان بھی قربانی کے جانور کو اسی طرح فربہ کیا کرتے تھے ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا وہیب نے ایوب سے روایت کرنے میں عبدالوہاب کی متابعت کی ہے, اسماعیل اور حاتم نے ایوب سے انہوں نے ابن سیرین سے انہوں نے سیدنا انس سے اس روایت کو بیان کیا ہے.
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو موٹے تازے صحت مند مینڈھے خرید کر لاتے۔ (مجمع الزوائد: 21/4) واضح رہے کہ ان روایات میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ موٹے جانور دوسرے جانوروں سے افضل ہیں، تاہم اگر اس وجہ سے کہ موٹے تازے جانور میں گوشت زیادہ ہو گا اور اس سے غرباء کا زیادہ فائدہ ہو سکے گا یہ کہہ دیا جائے کہ موٹا جانور افضل ہے تو یقیناً قرین قیاس ہے۔ (2) امام ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے جانور کا موٹا اور عمدہ ہونا مسنون ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے۔‘‘(الحج: 32) اس کی تعظیم سے مراد اس کا موٹا ہونا اور اس کا احترام کرنا ہے کیونکہ یہ بڑے اجر اور زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ (المغني: 367/13)
ترجمۃ الباب:
یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میں نے حضرت ابو امامہ بن سہل ؓ سے سنا انہوں نےکہا: ہم مدینہ طیبہ میں قربانی کا جانور کھلا پلا کر خوب فربہ کیا کرتے تھے اور دیگر مسلمان بھی قربانی کے جانوروں کو فربہ کیا کرتے تھے
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابو قلابہ نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ اس کی متابعت وہیب نے کی، ان سے ایوب نے اور اسماعیل اور حاکم بن وردان نے بیان کیا کہ ان سے ایوب نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) came towards two horned rams having black and white colors and slaughtered them with his own hands.